• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معروف صحافی، تجزیہ نگار نجم سیٹھی صوبہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں اور حسن یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن )نے ان کی نامزدگی کو نہ صرف قبول کر لیا ہے بلکہ اس کی بھرپور حمایت بھی کی ہے۔ کہتے ہیں اور بڑی حد تک درست بھی ہے کہ اس کامیابی میں مادام جگنو محسن کا بڑا عمل دخل ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اونچے ایوانوں تک ان کو رسائی حاصل ہے۔ چند ایسے بھی ہیں جنہیں جناب سیٹھی کی لبرل سوچ پر اعتراض ہے اور ان کی تقرری پر دکھ بھی ہوا ہو گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک کھرے اور سچے تجزیہ نگار ہیں جنہوں نے کبھی بھی اپنی رائے میں ڈنڈی نہیں ماری اور ان کی ”چڑیا کھلی فضاؤں میں پرواز کرتی رہی ہے۔“ بلاتفریق حکمرانوں پر تنقید کرتے رہے تاہم سیاسی حلقے اور سوشل میڈیا نجم سیٹھی سے بڑے پُر امید ہیں کہ وہ شفاف، غیر جانبدار انتخابات میں مثالی کردار ادا کریں گے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ بڑے اعزاز کی بات ہو گی اگر صحافی برادری اس کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالیں تو غلط نہ ہو گا کہ وہ معتبر ثقہ بند صحافی ہیں یہ بھی تو ایک اعزاز ہی ہے کہ جناب حنیف رامے کے بعد یہ دوسرے صحافی ہیں جنہیں ملک کے سب سے بڑے صوبہ کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا ہے۔ بھٹو دور میں جناب رامے اپنی اہلیت و صلاحیت کی وجہ سے اس عہدے تک پہنچے تھے وہ نہ جاگیردار تھے، نہ سرمایہ دار اور نہ ہی کسی سیاسی دھڑے بندی سے ان کا کوئی تعلق تھا۔ وہ اول و آخر قلمکار، ادیب اور سب سے بڑھ کر ایک بہت ہی اچھے آرٹسٹ تھے تمام تر اختلافات کے باوجود ان کا دور مثالی قرار دیا جا سکتا ہے۔ جب وہ وزیر اعلیٰ بنے تو صوبہ کے جاگیرداروں اور زمینداروں نے اسے اپنی توہین سمجھا۔ معروف پارلیمینٹرین رانا پھول خان نے پنجاب اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ ”جناب والا ہمیں فنکار نہیں زمیندار وزیر اعلیٰ چاہئے“ اگرچہ پاکستان میں بہت سے نامور صحافی وزیر و مشیر رہے اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان کی اکثریت یحییٰ اور ضیاء آمریت سے انتساب ہے یحییٰ دور میں ملک کے انتہائی معتبر اور نامور صحافی جناب الطاف حسن جو اس وقت انگریزی اخبار کے ایڈیٹر تھے۔ انہیں وزیر بنایا گیا۔ ضیاء دور میں زیڈ اے سلہری، پیر علی محمد راشدی صدر کے مشیر، مرحوم مصطفی صادق وزیر بنائے گئے۔ پیر علی محمد راشدی نے بھٹو دور میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ لندن میں مقیم معروف صحافی نسیم احمد بھٹو دور میں وفاقی سیکرٹری اطلاعات اور بے نظیر دور میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب تھے۔ محترمہ ملیحہ لودھی، واجد شمس الحسن سفیر بنائے گئے۔ واجد شمس الحسن اب بھی برطانیہ میں ہائی کمشنر ہیں۔ نواز شریف دور میں عطاء الحق قاسمی کو سفیر بنایا گیا۔ سید مشاہد حسن وزیر ہوئے اور اب مسلم لیگ (ق) کے سیکرٹری جنرل ہیں ۔ ا س کے علاوہ حسین حقانی، شیری رحمن، مولانا کوثر نیازی، قاضی عبدالمجید عابد، ارشاد احمد حقانی بھی وزیر مشیر رہے۔ نواز شریف کے دوسرے دور میں ایک معزز بزرگ صحافی کو عہدہ صدارت کی پیشکش کی گئی۔ میں اس کا عینی شاہد ہوں کہ محترمہ بی بی شہید نے اس بزرگ صحافی سے ملاقات کے دوران ان کے امیدوار ہونے کی بھرپور حمایت کی اور کہا کہ ”آپ امیدوار ہوئے تو مجھے خوشی ہو گی۔“ اس طرح مرحوم احمد علی خان کو سندھ کی گورنری کی پیشکش کی گئی تھی ملک میں صحافیوں کو ایک اہم مقام حاصل رہا ہے تاہم نجم سیٹھی دوسرے صحافی، دانشور ہیں جنہیں صوبہ کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا ہے۔ جنگ، جیو کے لئے تو اعزاز ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی تقرری کی خبر جیو پر اس طرح تھی کہ ”ہمارے نجم سیٹھی نگران وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں۔“ یہ صرف ایک گروپ نہیں بلکہ تمام صحافی برادری کے نجم سیٹھی ہیں اور یقین ہے کہ ایک فعال بہتر نگران وزیر اعلیٰ ثابت ہوں گے ان کی تقریب حلف برداری میں پیپلز پارٹی کی جانب سے میاں شہباز شریف کے شریک نہ ہونے پر سوال اٹھایا گیا۔ سیفما کے سربراہ امتیاز عالم بلاشرکت غیرے صحافیوں کا امام حاضر ہیں۔ ذکریا بٹ نے اس سے گلہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ میاں شہباز شریف نے ان سے شرکت کا وعدہ کیا تھا اور فوراً فون پر ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی فون بند تھا انہوں نے بڑے پتہ کی بات کی کہ گلے شکوے نہ کرو۔
انتخابات کے بعد دونوں ایک ہو جاؤ گے۔ مل کر حکومت بنانا پڑے گی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے ایک عظیم عورت کا ہاتھ ہوتا ہے یہ کہاوت جناب نجم سیٹھی پر سو نہیں ہزار فیصد صادق آتی ہے اور آخر میں یہ بات کہ نگران وزیر اعلیٰ کو ایک کڑی آزمائش اور امتحان کا سامنا ہے یہ انتخابات روٹین کا جمہوری عمل نہیں بلکہ ”لب اور کپ“ کے درمیان کئی طوفان منہ کھولے کھڑے ہیں۔ ایک طرف دہشت گردوں نے دھمکی دے رکھی ہے دوسری طرف ”ان دیکھے ہاتھ “ ہیں جو عام انتخابات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہتے ہیں اور افواہیں ہیں کہ دم توڑتی نظر نہیں آ رہیں جبکہ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کا عزم ہے کہ صاف ستھرے دیانتدار امیدواروں کو سامنے لایا جائے گا وہ جو نادہندگان ہیں جنہوں نے جعلی ڈگریاں دے کر الیکشن میں حصہ لیا۔ جن کی دوہری شہریت ثابت ہو گئی تھی انہیں نااہل قرار دے دیا جائے۔ اس طرح بہت سے ”نامی گرامی افراد“ الیکشن سے باہر ہو جائیں گے۔ ایک وزیراعظم پہلے ہی نا اہل ہو چکے ہیں دوسرے کو توہین عدالت کا نوٹس جاری ہو چکا ہے۔ نگران حکومتوں کو ان تمام مسائل کا نہ صرف سامنا ہے بلکہ ان سے نمٹانا بھی ہو گا اور ایسے لوگوں کے انتخاب کو یقینی بنانا ہو گا جن کے دامن صاف ہوں گے۔ جناب نجم سیٹھی کو بھی اس امتحان سے گزرنا ہے ساری دعائیں اور نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں!!
تازہ ترین