عام زندگی میں اکثر ایسے واقعات ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں کہ کوئی شخص کسی اچانک دماغی دھچکے یا ایکسیڈنٹ کے سبب اپنی یادداشت کھو بیٹھتا ہے۔ اپنے قریبی خون کے رشتوں کو بھی نہیں پہچانتا، بہکی بہکی باتیں کرتا ہے، اس کی حرکات و سکنات اس کے ذہنی طور پر غیر متوازن ہونے کا اشارہ دیتی ہیں۔ ایسے کیسز میں دوچار لوگ بسااوقات ڈاکٹری علاج کے نتیجے میں صحت یاب ہوکر پوری طرح اپنے ہوش و حواس میں واپس آجاتے ہیں، لیکن چند ایسے بھی ہوتے ہیں، جو علاج بسیار کے باوجود بحال نہیں ہوپاتے اور پوری زندگی غیر متوازن ذہنی حالت میں گزار دیتے ہیں۔
یادداشت گنوا دینے کے موضوع کو ہمارے فلم رائٹرز اور فلم میکرز نے بڑی کثرت سے اپنی کہانیوں کا حصہ بنایا اور بہت سی یادگار فلمیں تخلیق کیں۔ اس ضمن میں ہمیں جو پہلی بہت ہی معیاری اور ناقابل فراموش فلم یاد آرہی ہے، وہ ہے 1967ء میں ریلیز ہدایت کار رضا میر کی نغمہ بار فلم ’’لاکھوں میں ایک‘‘ جس کا اسکرپٹ ضیاء سرحدی نے تحریر کیا تھا۔ فلم کی کہانی کا آغاز برصغیر کی تقسیم 1947ء کے واقعات سے ہوتا ہے۔ ایک مسلم لڑکا کمسن محمود ہندو بلوائیوں کی لگائی ہوئی دماغی ضرب سے اپنی یادداشت کھو بیٹھتا ہے اور میموری لوسٹ یعنی یادداشت گم کردہ شخصیت کے طور پر جوان ہوجاتا ہے۔ یہ اعجاز ہے، جس کی محبت ایک ہندو لڑکی شکنتلا یعنی شمیم آراء ہے۔
دونوں پیار کی راہوں پر آگے بڑھ رہے ہیں کہ اچانک ایک حادثہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں محمود (اعجاز) کو سخت دماغی چوٹ لگتی ہے اور وہ اپنی پچھلی یادداشت بھول کر اپنے زمانے بچپن کی یادوں میں چلا جاتا ہے۔ اب لڑکپن سے جوانی تک کا جو دور اس نے سیکنڈ میموری کے مطابق گزارا تھا، وہ اس کی میموری سے خارج ہوگیا، یُوں وہ اپنی محبت شکنتلا (شمیم آراء) کو بھی نہ پہچان سکا۔ اسی سچویشن میں میڈم نورجہاں کا گایا ہوا گیت ’’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘‘ ’’لاکھوں میں ایک‘‘ کی کہانی کا حصہ بنا جو دیکھنے والوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ تاہم کہانی کے اختتامی مراحل میں داخل ہونے تک محمود کو پچھلے دونوں ادوار یاد آجاتے ہیں۔
1968ء میں ریلیز ہونے والی ایس۔ایم یوسف کی گھریلو سوشل تصویر ’’شریک حیات‘‘ میں کہانی کی سیکنڈ ہیروئن صابرہ سلطانہ بلندی سے گرنے کے سبب اپنی یادداشت کھو بیٹھی ہے اور نیم پاگلوں کی سی حالت میں خانہ بدوشوں کے درمیان ایک بڑا عرصہ گزارنے کے بعد جب اس کے شوہر کمال سے اس کا سامنا ہوتا ہے، تو کمال اسے بتاتا ہے کہ وہ اس کا شوہر ہے، مگر وہ اسے اجنبی جان کر اس سے دور بھاگنے کی کوشش میں ایک گاڑی سے ٹکرا کر زخمی ہوجاتی ہے اور اس چوٹ کے نتیجے میں اس کی پرانی یادداشت بحال ہوجاتی ہے۔ صابرہ سلطانہ نے یادداشت گم کردہ نیم پاگل عورت کے روپ میں بہت ہی موثر اور جاندار پرفارمنس پیش کی اور اس سیکوینس کی بدولت ’’شریک حیات‘‘کے کلائمکس کو جاندار بنانے میں خاص طور پر پلس پوائنٹ ملا۔
اداکار رنگیلا نے 1969ء میں جب بہ طور فلم ڈائریکٹر اپنی صلاحیتوں کو آزمایا تو انہوں نے برکھا دت کے ایک ایسے ناول کا انتخاب کیا کہ جس میں کہانی کا ہیرو اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ صرف ایک رات کی رفاقت کے بعد رہزنوں سے لڑتا ہوا ٹرین سے باہر جاگرتا ہے اور دماغی چوٹ لگنے کے نتیجے میں اپنا ماضی فراموش کر بیٹھتا ہے اور پھر ایک گمنام گاڑی بان کی حیثیت سے اپنی جوانی گزار دیتا ہے۔
یہ کردار اعجاز درانی نے اپنی محدود صلاحیتوں کے باوجود بڑی خوش اسلوبی سے ادا کیا تھا اور رنگیلا کا گایا ہوا پہلا مکمل یادگار گیت ’’گا میرے منوا گاتا جا رے، جانا ہے ہم کا دور‘‘ اعجاز پر ہی پکچرائز ہوا تھا۔ فلم کے آخری مناظر میں اعجاز کی یادداشت واپس لانے کے لیے وہی لگا بندھا فلمی فارمولا استعمال کیا گیا کہ اس کی بیوی نغمہ اصرار کرتی ہے کہ تم میرے شوہر ہو اور وہ گھبرا کر ایک ستون سے ٹکرا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں اسے سب کچھ یاد آجاتا ہے۔ ’’دیا اور طوفان‘‘ مضبوط کہانی، بہترین موسیقی، عمدہ کردار نگاری اور رنگیلا کی معیاری ڈائریکشن کے سبب شان دار گولڈن ہٹ ثابت ہوئی۔
1971ء کی ریلیز ہدایت کار جاوید ہاشمی کی ’’افشاں‘‘ میں عالیہ نے یادداشت گم کردہ لڑکی کا کردار ادا کیا، جب کہ 1971ء ہی کی ریلیز عزیز میرٹھی کی ’’یادیں‘‘ میں اسی نوعیت کا کردار حسین و جمیل فن کارہ زیبا علی نے کیا۔ ہدایت کار شباب کیرانوی نے نہایت جاندار سبجیکٹ پر 1972ء میں فلم ’’افسانہ زندگی کا‘‘ بنائی جس میں محمد علی نے ایک ایسے محبت کرنے والے شوہر کا کردار ادا کیا کہ جو اپنی بیوی (ریشماں) سے بے پناہ محبت کرتا ہے، لیکن جب اس کی بیوی ایک بچی کو جنم دے کر مر جاتی ہے، تو اس کی محبت کا صدمہ محمد علی کے دماغ کو بُری طرح متاثر کرتا ہے اور اس کی میموری چلی جاتی ہے ۔
پچھلی زندگی سے قطعی لاتلعق اور بے خبر محمد علی یادداشت کے نئے دور میں زیبا کی زلف کے اسیر ہوکر اس سے شادی رچا لیتے ہیں، مگر پھر ایک اور حادثہ ان کی زیبا کے ساتھ گزرنے والی زندگی کے صفحات کو ان کی یادداشت سے خارج کردیتا ہے اور وہ زیبا کے لیے اجنبی بن جاتے ہیں۔ زیبا چوں کہ بنیادی طور پر نفسیات کی ڈاکٹر ہوتی ہیں ، لہٰذا وہ بہت سی مشکلات اور رکاوٹیں عبور کرکے محمد علی کو ایسی جذباتی اور نفسیاتی سچویشن میں لے آتی ہیں کہ ایک اور شدید دماغی جھٹکا محمد علی کو پچھلے دونوں ادوار کی یادیں بحال کرانے کا باعث بن جاتا ہے۔ محمد علی کا یہ کردار نہایت الجھا ہوا اور پیچیدہ تھا، لیکن وہ مشکل کرداروں کے سب سے بڑے اسپیشلسٹ تھے، سو اس کردار کو انہوں نے کمال فن کے ساتھ نبھایا۔ ’’افسانہ زندگی کا‘‘ نے محمد علی، زیبا کی شان دار کردار نگاری، ایم اشرف کی دل کش موسیقی اور شباب صاحب کے جاندار ٹریٹمنٹ کی بدولت باکس آفس پر شان دار کام یابی حاصل کی۔
1972ء ہی میں ہدایت کار ایم صادق اور حسن طارق کی مشترکہ کاوش ’’بہارو پھول برسائو‘‘ کی کہانی کی ہیروئن رانی بھی یادداشت کے مسائل سے دوچار نظر آئیں۔ کہانی کے مطابق چوں کہ رانی کو بدخواہوں نے اس غلط فہمی میں مبتلا کردیا کہ وہ کبھی ماں نہیں بن سکے گی، اس دُکھ کو لے کر رانی دریا کی سیر کے بہانے کشتی سے چھلانگ لگا کر خودکشی کی کوشش کرتی ہیں، لیکن ان کا بے ہوش جسم بہتا ہوا دور ایک قبیلے کے خانہ بدوش سردار چنگیزی کو ملتا ہے۔ وہ اسے اپنی بیٹی سمجھ کر اپنے ڈیرے میں اٹھا لاتا ہے، لیکن جب وہ ہوش میں آتی ہیں، تو اپنا ماضی فراموش کرچکی ہوتی ہیں اور خانہ بدوش لڑکی کی حیثیت سے زندگی گزارنے لگتی ہیں۔ رانی کا شوہر وحید مراد تلاش کے بعد رانی کو ڈھونڈ نکالنے میں کام یاب ہوجاتا ہے ، مگر وہ اپنی گم کردہ یادداشت کے سبب وحید مراد کو پہچاننے سے انکار کردیتی ہیں ، پھر کہانی میں ایک ڈرامائی موڑ آتا ہے کہ وحید مراد کے بدخواہ آگ کی جلتی سلاخوں سے اس کی بینائی چھین لینا چاہتے ہیں۔
یہ واقعہ رانی بہت قریب سے دیکھ رہی ہوتی ہیں اور اس کا جذباتی اثر ان کے دماغ پر یوں پڑتا ہے کہ وہ ایک دلدوز چیخ مارتی ہیں اور کچھ دیر کے لیے بے ہوش ہوجاتی ہیں اور جب ہوش میں آتی ہیں تو انہیں ماضی کے دونوں ادوار یاد آجاتے ہیں۔ یُوں فلم کو ہیپی اینڈنگ مل جاتی ہے۔ ’’بہارو پھول برسائو‘‘ میں رانی بیگم نے اس کردار کو نہایت خوب صورتی اور مہارت سے نبھایا۔ یہ فلم اپنی جملہ خوبیوں کے سبب گولڈن جوبلی ہٹ ثابت ہوئی۔ 1975ء میں پاکستان باکس آفس کے سب سے کام یاب ڈائریکٹر پرویز ملک نے اپنی شان دار فلم ’’پہچان‘‘ میں قوی خان کو یادداشت کے مسائل میں گھرا ہوا دکھایا۔ کہانی کے مطابق قوی کو ایک ٹرین کمپارٹمنٹ میں چند بدقماش لوگوں نے اس کی کہانی جان لینے کے بعد کہ وہ بچپن سے اپنی ماں سے بچھڑا ہوا ہے اور اب عالم جوانی میں واپس لوٹ رہا ہے، ماں ایک پورے گائوں کی مالکن ہے۔
منور سعید نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے قوی کو شدید مضروب کرنے کے بعد چلتی ٹرین سے باہر پھینک دیا اور خود اس کی جگہ گائوں کی مالکن کا بچھڑا ہوا بیٹا بن کر گائوں کے تمام وسائل کا مالک بن بیٹھا۔ دوسری جانب قوی ٹرین سے گرنے کے نتیجے میں دماغ پر لگنے والی چوٹ کے سبب اپنی یادداشت گنوا بیٹھتا ہے اور ڈراو سہما ہوا سا یہ نیم پاگل بھی اسی گائوں میں بھٹکتا ہوا آنکلا۔ مالکن کے وفادار جانو (ندیم) نے قوی کی بعض حرکات و سکنات کے سبب یہ بھانپ لیا کہ مالکن کا اصل بیٹا (منور سعید) نہیں (قوی) ہے۔ جانو نے (قوی) کی یاددوں کو جھنجھوڑا ۔
گھر کے بڑے منشی نے بھی اس ضمن میں جانو کا ساتھ دیا۔ شدید کشمکش میں ایک مرحلہ ایسا آگیا کہ قوی کے دماغ پر پھر چوٹ لگی اور اسے سارا ماضی یاد آگیا۔ یہاں قوی نے اپنی ماں کو اصل بیٹا ہونے کا یقین اس تھیم سونگ کی مدد سے دلایا، جووہ کبھی بچپن کے دنوں میں گنگایا کرتا تھا ’’میرا پیار تیرے جیون کے سنگ رہے گا، میری آنکھوں میں تیرا ہی رنگ رہے گا‘‘ پھر سارے معاملات درست ہوگئے۔ نقلی اور فراڈ بیٹا قانون کی گرفت میں آگیا اور اصلی بیٹے کو اس کی ماں مل گئی۔ بلاشبہ قوی نے ایک نیم پاگل نوجوان کے روپ میں جو حقیقت سے قریب تر پرفارمنس دی، اس کے لیے انہیں جتنی داد دی جائے، کم ہے۔
’’پہچان‘‘ بہترین اسکرپٹ، اعلیٰ کردار نگاری، نثار بزمی کے دل کش میوزک اور بے حد مضبوط و ماہرانہ ڈائریکشن کے سبب ڈائمنڈ جوبلی سپرڈوپر ہٹ مووی ثابت ہوئی۔ ہدایت کار شباب کیرانوی کی میوزیکل ڈراما مووی ’’شمع محبت‘‘ میں فلم کے ہیرو عثمان یعنی شاہد نے ایک ایسے نوجوان کا کردار ادا کیا کہ جس کی بیوی ایک بچے کو جنم دے کر مر جاتی ہے اور یہ واقعہ اس سے اس کی یادداشت چھین لیتا ہے۔ اب دوسرے فیز میں اس کا سامنا اس کی سابقہ محبوبہ شبنم سے ہوتا ہے۔ ہرچند کہ اسے ماضی کا کوئی واقعہ، کوئی تعلق دار یاد نہیں، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ شبنم سے جب جب اس کا سامنا ہوتا ہے، وہ تمام باتیں اس کے اور شبنم کے ماضی کے تعلق کے تناظر میں کرتا ہے اور گانا گانے کا مرحلہ آتا ہے تو اس میں بھی وہ ماضی کے قصے بطور شکوہ دہراتا نظر آتا ہے۔ اس متضاد اور عجیب و غریب صورت حال کے باوجود فلم بینوں نے ’’شمع محبت‘‘کو بھرپور گولڈن جوبلی کام یابی کا سرٹیفکیٹ دیا۔ 1978ء کی نغمہ بار مووی ایم۔اے رشید کی ’’ملن‘‘ میں شبنم ایک یادداگشت گم کردہ خاتون کے روپ میں نظر آئیں۔
کہانی کے مطابق شبنم اور محمد علی ایک دوسرے سے محبت کی شادی رچاتے ہیں۔ ایک نرینہ اولاد کی پیدائش کے بعد شبنم ایک کار ایکسیڈنٹ میں علی سے بچھڑ جاتی ہے۔ اسی ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں اس کی یادداشت بھی چلی جاتی ہے۔ زندگی کے بدلے ہوئے منظرنامے میں وہ ایک ڈاکٹر رحمٰن سے منسوب ہوجاتی ہے، لیکن محمد علی اور اس کا بچہ اس تک پہنچ جاتے ہیں اور تھیم سونگ ’’یہ ساتھ کبھی نہ چھوٹے گا جومر کے بھی نہ ٹوٹے گا، تیرا میرا ایسا ناطہ ہے‘‘ گا کر اسے اس کا ماضی یاد دلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ’’ملن‘‘ اپنے وقت کی ایک گولڈن جوبلی ہٹ تصویر تھی، جس میں محمد علی، شبنم، رحمٰن کی عمدہ کردار نگاری، ناشاد کی مسحورکن موسیقی اور ایم۔اے رشید کی موزوں ڈائریکشن نے اسے قابل دید بنایا۔
1979ء میں جمشید نقوی نے ’’نشانی‘‘ بنائی۔ اس میں فلم کا ہیرو وحید مراد نے ایک میموری لوسٹ نوجوان کا رول خوب صورتی سے نبھایا۔ 1980ء میں جینئس فلم میکر نذرالاسلام نے ’’بندش‘‘ بنائی، تو اس میں فلم کا ہیرو فیصل یعنی ندیم ایک اسٹیمر میں آگ لگ جانے کے باعث سمندر میں گر جاتا ہے اور ایک ساحل پر ڈائنا کرسٹینا اسے اٹھا کر اپنے ہٹ میں لے آتی ہے۔ ہوش میں آنے پر پتا چلتا ہے کہ وہ اپنی یادداشت کھو بیٹھا ہے لہٰذا ڈائنا اور اس کا پاپا علائو الدین، ندیم کو ٹورسٹ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ ندیم، ڈائنا سے مانوس ہوکر اس سے محبت کرنے لگتا ہے اور بات شادی تک آپہنچتی ہے۔
شادی کے بعد ایکٹ ٹو ہوتا ہے کہ ندیم کا نام فیصل ہے، اس کا تعلق پاکستان سے ہے اور وہ پہلے بھی شمع نامی لڑکی (شبنم) کا شوہر ہے۔ ایک طویل ڈرامائی کشمکش کے بعد ایک مرحلے پر ندیم کی پیشانی پر کرکٹ کی ٹھوس بال ٹکراتی ہے۔ اس کے نتیجے میں فراموش کردہ ماضی کے تمام ادوار ندیم کو یاد آجاتے ہیں۔ اس کردار کو ندیم نے جس خوب صورتی اور مہارت سے ادا کیا، اسے جتنا سراہا جائے کم ہے۔ گم کردہ یادداشت کے موضوع پر پاکستان میں متعدد فلمیں بنیں، ان میں ’’سروش‘‘ اسکرپٹ اور ڈائریکشن کے اعتبار سے بلاشبہ ایک ماسٹر پیس مووی کا درجہ رکھتی ہے۔ باکس آفس پر بھی ’’بندش‘‘ نے مثالی کام یابی حاصل کی اور شان دار پلاٹینیم جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔