• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کے باعث جسم کے اعضاء کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں


کورونا کے باعث جسم کے اعضاء کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں


عالمی وبا  کورونا وائرس کا شکار مریضوں کے جسم کے اعضاء کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں جسے ملٹی اورگن فیلئر (multi-organ failure) کہا جاتا ہے،  ملٹی اورگن فیلئر میں فالج کا حملہ، دل کا کام کرنا چھوڑ دینا اور پھیپھڑوں کا ناکارہ ہوجانا شامل ہے۔

یہاں ایک مثال دیتے ہوئے سمجھاتے چلیں کہ گردوں کے مرض میں مبتلا ایک خاتون کو ایس آئی یو ٹی لے جایا جاتا ہے، وہاں موجود ڈاکٹرز کو لگتا ہے کہ یہ مریض کورونا وائرس سے متاثر ہے۔

اسپتال لائی گئی خاتون کا ٹیسٹ کرواتے ہیں اور بدقسمتی سے اس خاتون کا ٹیسٹ پوزیٹیو آتا ہے، اب یہ مریض گردے کے ان مریضوں کے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا جوکہ نیگیٹو ہیں یعنی کورونا وائرس سے متاثر نہیں ہیں۔

کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر  مریض کو کویڈ وارڈ (Covid-19 ward) میں شفٹ کر دیا جاتا ہے کیونکہ اب اس مریض کا علاج وہ عملہ کرے گا جو کہ اپنے آپ کو انفیکشن سے بچانے کا حفاطتی لباس زیب تن کیے ہوئے ہوگا جبکہ اس وارڈ کے تمام مریض بھی کورونا وائرس سے متاثرہ ہونگے کیونکہ اب انہیں ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

اسی طریقے سے اس مریض کے علاج کے لیے زیادہ ماہرین کی ڈیوٹی لگے گی جن میں گردوں کے ماہرین کے علاوہ انفیکشیس ڈیزیز کا ماہر، ماہر امراض سینہ سمیت دیگر ماہرین موجود ہونگے کیونکہ کورونا وائرس کے انفیکشن کی وجہ سے اس مریض کو لاحق خطرات میں سو گنا اضافہ ہوچکا ہے۔

کورونا وائرس ناصرف صحت مند بلکہ بیمار مریضوں کے اعضا کو کام کرنے سے روک دیتا ہے، دنیا کی کسی میڈیکل کی کتاب میں نہیں لکھا ہے کہ اگر کوئی گردے کا مریض ہے تو اس وبا کے زمانے میں اس کو کورونا وائرس انفیکشن نہیں لگے گا۔

ذیابطیس، بلڈ پریشر، دل اور گردوں کے امراض میں مبتلا اشخاص اگر اس وائرس سے متاثر ہو جائیں تو ان کی جانوں کو لاحق خطرات میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ یہ وائرس نہ صرف پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے بلکہ اب یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ وائرس ان مریضوں میں دل کے دورے، فالج اور پھیپھڑوں سمیت گردوں کو ناکارہ بنانے کا سبب بھی بن رہا ہے۔

اب اگر وہ خاتون جو کہ گردوں کے مرض میں مبتلا تھیں اور ان کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ پوزیٹو آیا ہے تو یقیناً ان کے گردوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کو انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھا جائے گا اور انہیں ایسی ادویات دی جائیں گی تاکہ وائرس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکے اور آجکل ایسے مریضوں کو خون پتلا کرنے والی ادویات بھی دی جارہی ہیں تاکہ انہیں فالج کے خطرات اور خون میں لوتھڑے بننے کے عمل سے بچایا جا سکے ۔

اگر ایسا مریض خدا نخواستہ دوران علاج جاں بحق ہوجائے تو یقیناً اس کی وجہ موت کورونا وائرس سے ہونے والی پیچیدگیاں ہونگی کیونکہ گردوں کا علاج تو وہ مریض کئی سالوں سے کرا رہا تھا۔

خوش قسمتی سے کورونا وائرس کے 80 سے 90 فیصد مریضوں میں یا تو اس مرض کی علامات بالکل ظاہر نہیں ہوتیں یا معمولی علامات کے بعد مریض دو ہفتوں میں خود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے۔

لیکن پانچ سے دس فیصد مریض شدید بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگ شدید بیمار ہو کر مندرجہ بالا پیچیدگیوں کی وجہ سے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پھیپھڑے ناکارہ ہوجانے کی وجہ سے کورونا وائرس کے مریضوں کو وینٹیلیٹر کی ضرورت پڑتی ہے لیکن عالمی ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ وینٹیلیٹر پر جاکر واپس آنے والوں کی تعداد محض 15 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔

حاصل مطالعہ یہ ہے کہ احتیاط کریں اور دوسروں کو بھی احتیاط کی ترغیب دیں، کورونا وائرس ایک حقیقت ہے اور یہ ایک بیماری ہے جس سے احتیاطی تدابیر اختیار کر کے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین