• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ عرصہ قبل امریکہ اور طالبان کے مابین قطر میں مذاکرات ہوئے جن کا مقصد افغانستان میں قیامِ امن، وہاں سے امریکی فوج کا جلد از جلد اِنخلا اور افغان سرزمین کو امریکہ یا اُس کے کسی اتحادی کے خلاف استعمال نہ ہونے دینا تھا لیکن اِن مذاکرات میں امریکہ نے افغان حکومت کے بجائے حقیقی صورتحال کے مطابق اپنے اصل مدمقابل طالبان کو کلیدی اہمیت دی اور طالبان کے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے افغان حکومت پر دبائو ڈالا تاہم افغان حکومت کی طرف سے طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار کی وجہ سے افغان امن عمل سے اب تک وہ نتائج حاصل نہ ہو سکے جو مقصود تھے۔ گزشتہ ہفتے کابل میں ہونے والے دہشت گرد حملوں نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ جب تک افغانستان میں داخلی سطح پر مسائل کو حل نہیں کیا جائے گا تب تک افغانستان میں قیامِ امن محال ہے۔ ایسے میں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کا یہ کہنا خوش آئند ہے کہ افغانستان میں داخلی سطح پر مذاکرات کا عمل جلد شروع ہو سکتا ہے۔ اُن کے مطابق افغانستان میں مختلف دھڑوں کے مابین بات چیت کیلئے ایک نئی تاریخ زیر غور ہے۔ قطر میں ہونے والے امن معاہدے کے بعد افغانستان میں داخلی سطح پر مذاکرات کا عمل دس مارچ سے شروع ہونا تھا تاہم اختلافات اور پُرتشدد واقعات کے باعث یہ مذاکرات تاخیر کا شکار ہوئے۔ افغانستان میں قیامِ امن کا راستہ اگرچہ سیدھا اور آسان نہیں لیکن پائیدار امن ہی افغانستان کے تمام تر مسائل کا دائمی حل ہے۔ خدا کرے امریکی نمائندہ خصوصی کی افغانستان میں قیامِ امن کیلئے داخلی مذاکرات کی پیش گوئی درست ثابت ہو اور تمام منتشر دھڑے افغان سرزمین کو خانہ جنگی سے نکالنے کیلئے متحد ہو سکیں۔ پاکستان نہ صرف افغانستان کا ہمسایہ ہے بلکہ دونوں ملکوں میں مذہبی، ثقافتی اور تجارتی رشتے بھی ہیں، اِس لئے پاکستان افغانستان میں قیامِ امن کی بھرپور حمایت کرتا ہے جس سے افغان حکومت کو بھی فائدہ اٹھانا چاہئے۔

تازہ ترین