• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب جبکہ تقریبا تمام جگہ لاک ڈاؤن میں نرمی کر دی گئی ہے۔ تو برائے مہربانی تعلیمی نظام کی طرف بھی توجہ کرلی جائے ۔ بازار نہ کھلنے سے معیشت کی تباہی کا خطرہ تھا سو معیشت کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے کاروبار کھول دیے گئے۔ قومی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت تعمیرات کے شعبہ سے منسلک ہے لہذا وہ شعبہ کسی صورت لاک ڈاؤن کو برداشت ہی نہیں کر سکتا تھا۔ لہذا سب سے پہلے تعمیرات کو" اپ گریڈ کرتے ہوئے صنعتی شعبے کا درجہ دیتے ہوئے لاک ڈاون سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ۔

وزراء کی پریس کانفرنس چونکہ "سانس" لینے کا ذریعہ ہے۔ اس پر کبھی لاک ڈاؤن کا اطلاق نہ ہوا ۔اور یہ سب وسیع تر قومی مفاد میں کیا گیا۔ تعلیم بلواسطہ یا بلاواسطہ ملک کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کرتی ہے۔ لہذا تعلیمی اداروں کی بندش غیر معینہ مدت کے لیے کی گئی۔ ہے نا عجیب بات جس ملک میں تعلیم سب سے کم درجے پر ہو وہ ملک کس طرح ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے؟ لیکن افسوس افسران سے لیکر حکمران اور تعلیمی اداروں کے ٹھیکیداران کسی کو اس بات کی فکر نہیں کہ پچھلے تین ماہ سے بچے تعلیم سے دور ہیں۔

لاکھ کہہ لیں کہ آن لائن کلاسس لے لی جا رہی ہیں اور اسائنمنٹس دیے جارہے ہیں۔ یہ کسی بھی طور کلاس روم (جماعت) کا درجہ نہیں لے سکتے۔ ایک مخصوص ماحول میں تنظیم کے ساتھ پڑھنا جس میں استاد کی توجہ طلبہ پر ہو اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ بچے آن لائن کلاسس کیوں نہ لے رہے ہوں مگر عموما یا تو وہ سو رہے ہوتے ہیں یا کہیں اور توجہ دے رہے ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو پابند کرنا اس سے زیادہ مشکل ہے۔

اس لیے کلاس کی اہمیت کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ڈسپلین آن لائن کلاسز میں ممکن نہیں جو کہ کلاس روم میں ہوتا ہے۔ چونکہ زیادہ تر تعداد پرائیوٹ اسکولوں اور جامعات کی ہے ان کو توفیس مل رہی ہیں۔ لہذا انہیں فکر نہیں۔ لیکن وہ پچیس فیصد آبادی کا حصہ جسے پڑھ لکھ کر آگے بڑھنا ہے اور ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے ضائع کیا جارہا ہے۔ ایسے میں سنجیدہ حلقے اس بات کا شدت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کو متوازن ایس او پیز کے ساتھ کھولا جائے۔

جس میں جماعتوں کے سیکشن بڑھا دیئے جائیں تاکہ بچے کھل کر بیٹھیں اور بچوں کو ایک وقت میں نہیں بلکہ مختلف اوقات میں بلائیں یعنی شفٹس لگا لیں۔ کیونکہ زیادہ سیکشنز ہونے کی وجہ سے ایک وقت میں زیادہ بچے نہیں آ سکتے ہیں۔ لہذا انہیں مختلف اوقات میں بلایا جائے۔ انتظامیہ اداروں کی ہویا حکومت کی اس بات کا خیال کرہے کہ ایس او پیز کی خلاف ورزی نہ ہو ۔جب تک کورونا کا خطرہ ہے یہ سلسلہ جاری رہے بعد میں اپنے پرانے طریقہ کار پر واپس آجائے۔ لیکن مکمل بندش ہماری نئی نسل کے ساتھ زیادتی بلکہ دشمنی ہے۔ ایک خاص نقطہ کی طرف توجہ مبذول کروانی تھی کہ میٹرک انٹر کے امتحانات کے بغیر بچے پاس قرار دے دیے گئے۔

اسی طرح او لیول اور اے لیول کے بھی امتحانات کے بغیر بچے کامیاب قرار دیے دیئے گئے۔ تو وہ امتحانی فیس جو سی آئی ای "CIE" اور میٹرک انٹر بورڈز نے لی تھی۔ اب ذرا اس کا بھی حساب ہو جائے۔ جو اخراجات ہوئے ہیں اس کو نکال کر کے پیسے واپس کئے جائیں۔ خاص طور پر سی آی ای" کیمبرج بورڈ" سے فیس کی واپسی کا مطالبہ کیا جائے کہ ان کی فیس بھی سب سے زیادہ ہے اور ہماری معیشت پر بوجھ بھی۔

کیونکہ نہ انہیں Paper Settersکو پیسے دینے پڑیں گے، نہ ہی ایگزامنرز کو، نا ہی invigilators کو نہ ہی ان اداروں کو جہاں وہ اپنا امتحانی سینٹرز بناتے ہیں۔اور اکتوبر نومبر سے لی ہوئی فیس پر اب تک وہ کئی گنا سود کما چکے ہوں گے ۔ایسے میں کوئی تو ہو جو حق کے لیے آواز اٹھائے۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین