• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف فاضل چیف جسٹس جناب گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کے ان ارشادات اور فیصلوں پر بغلیں بجا رہی ہے جو کورونا وائرس ازخود نوٹس کیس کے دورانِ سماعت 18اور 19مئی کو سامنے آئے تھے۔ اس کے قائدین کی خوشی کا سبب یہ ہے کہ اس عدالتی فیصلے میں جناب وزیراعظم کے اس موقف کی بھرپور تائید نظر آتی ہے جو انہوں نے کورونا وائرس کے آغاز ہی میں اپنایا تھا کہ لاک ڈاؤن سے لاکھوں گھرانے بےروزگار ہو جائیں گے اور ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے اُن کے وژن کو بےپناہ تقویت پہنچائی ہے اور ایس او پیز کے دائرے میں رہتے ہوئے تمام دکانیں، مارکٹیں اور شاپنگ مالز کھولنے کے احکام جاری کر دیے ہیں۔

دو روزہ سماعت پر مبنی عدالتی فیصلہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ یہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب مرکزی اور صوبائی حکومتیں الجھائو کا شکار اور قوتِ فیصلہ سے محروم ہوتی جا رہی تھیں۔ اس کے علاوہ پالیسی ساز اداروں میں کنفیوژن بڑھتا جا رہا تھا اور ایک بےجان سا لاک ڈاؤن نافذ تھا جس کے خلاف جناب وزیراعظم آئے دن بیان جاری کرتے رہتے تھے، چنانچہ بازاروں اور سڑکوں پر شہریوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا جو ایس او پیز کی بندشوں سے بڑی حد تک آزاد تھے۔ دہاڑی دار، چھوٹے دکاندار اور متوسط کاروباری طبقے معاشی مشکلات میں گھر چکے تھے اور ان کے لیے اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنا دشوار ہوتا جا رہا تھا جبکہ حکومت کا ریلیف پیکیج نامعلوم راستوں کی طرف رواں دواں تھا۔ اس نازک موقع پر فاضل عدالت نے بیک جنبشِ قلم لاک ڈاؤن کے خاتمے کا راستہ ہموار کردیا، شہریوں کے آئینی حقوق کا علم بلند کیا، حکومتوں اور اداروں کی غیرتسلی بخش کارکردگی کا سختی سے جائزہ لیا اور مستقبل کا ایک لائحہ عمل بھی پیش کر دیا اور یہ فیصلہ بھی صادر کر دیا کہ معیشت اور صحتِ عامہ پر اثر انداز ہونے والی صورت میں صوبوں کو وفاقی ایگزیکٹو اتھارٹی کا احترام کرنا اور اس کی ہدایات کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔

18مئی کا عدالتی فیصلہ اس اساس پر قائم ہے کہ کورونا وائرس پاکستان میں وبا کی شکل اختیار نہیں کر سکا اس لئے اس کے سدِباب پر اربوں روپےخرچ کرنے اور معمولاتِ زندگی بڑی حد تک مفلوج کر نے کا کوئی جواز نہیں۔ فاضل جج صاحبان کا استدلال یہ تھا کہ اگر معیشت لمبے عرصے تک بند رہتی ہے، تو لوگ بھوک سے مرنے لگیں گے اور سڑکوں پر نکل آئیں گے جن کو قابو میں رکھنا حکومت کے بس میں نہیں ہو گا۔ یہ خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ ناموافق حالات میں صنعتکار اور سرمایہ دار پاکستان سے باہر منتقل ہو جائیں۔ تب ہماری لڑکھڑاتی معیشت بالکل بیٹھ جائے گی جس کی بحالی ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔ ان خدشات کے پیش نظر فاضل عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ عید کے دنوں میں ساری مارکٹیں ساتوں روز کھلی رہنی چاہئیں تاکہ وہ لاکھوں خاندان خریداری کر سکیں جو صرف عید پر نئے کپڑے پہننے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اس موقع پر وفاقی سیکرٹری صحت نے یہ رپورٹ فاضل بینچ کے روبرو پیش کی کہ 5مئی کو نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی کا اجلاس وزیراعظم کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں فیصلہ ہوا تھا کہ ہفتے اور اتوار کو تمام دکانیں اور مارکٹیں بند رہیں گی۔ اس فیصلے کے بارے میں فاضل چیف جسٹس نے غالباً طنزیہ لہجے میں پوچھا کہ کیا کورونا وائرس نے حکومتوں سے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ ہفتے اور اتوار کو ضرور آئے گا، آیا حکومتیں ان دنوں تھک جاتی ہیں۔

اس استفسار کے بعد فاضل چیف جسٹس نے ارشاد فرمایا کہ نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی کا فیصلہ آئین کی متعدد شقوں کے منافی ہے جسے برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ دراصل حکومتوں نے عوام کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے جس کی آئین اجازت نہیں دیتا۔ دوسرے روز نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین فاضل بینچ کے سامنے پیش ہوئے جنہوں نے تفصیل سے بتایا کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ان کا ادارہ کس قدر مستعدی سے کام کر رہا ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے ان کی ’شبانہ روز‘ کاوشوں کو سراہتے ہوئے حالات کا دوسرا رخ پیش کیا کہ انفراسٹرکچر کی تعمیر پر اربوں خرچ کئے جا چکے ہیں مگر کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ تمام حفاظتی سامان چین کی ایک ہی کمپنی سے خریدا جا رہا ہے جو انتہائی غیرمعیاری ہے۔ قرنطینہ مراکز کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ لوگ پیسے پیسے کھیل رہے ہیں اور کسی کو انسانوں کی فکر نہیں۔ سرکاری فنڈز غیرمتعلقہ افراد کے ہاتھ میں ہیں جو اپنے مفادات پر بےدریغ لٹا رہے ہیں۔ سرکاری وسائل صرف دو فیصد مخصوص کلاس کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کئے جانے چاہئیں۔ آخر میں فاضل چیف جسٹس نے فرمایا کہ ہماری معیشت افغانستان اور صومالیہ جیسی جبکہ ہمارا طرزِ زندگی بادشاہوں جیسا ہے۔

اسی روز اٹارنی جنرل پاکستان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے اس اہم پہلو کی طرف نشاندہی کی کہ فاضل بینچ کے گزشتہ روز کے فیصلے سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ کورونا وائرس ایک معمولی سی بیماری ہے، چنانچہ کاروبار کھلتے ہی ہر مقام پر ایس او پیز کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ ان کی طرف سے یہ تجویز بھی دی گئی کہ عالمی واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ کورونا وائرس انتہائی تیز رفتاری سے پھیلنے والا انفیکشن ہے اور جن ملکوں نے اسے مذاق کا ہدف بنایا وہاں بڑی تباہی پھیلی ہے، اس لیے فاضل بنچ کے لیے یہ مناسب ہو گا کہ مشاورت کے لیے طبی ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔ فاضل چیف جسٹس نے ان کی یہ تجویز مسترد کردی، تاہم ذی شعور طبقے شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ طبی ماہرین کی رائے اور تجاویز کو بنیادی اہمیت دینی چاہیے تاکہ عدالتی فیصلوں میں کوئی بڑا سقم نہ در آئے۔ ماضی میں عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری اور ریکوڈک معاہدے کی تنسیخ کے منفی اثرات آج تک ہماری معیشت کو پنپنے ہی نہیں دے رہے۔ جج صاحبان کو آج کے حالات میں اس عظیم حقیقت پر نگاہ رکھنا ہوگی کہ ہمارا دستور جہاں ہر فرد کو جائز کاروبار کرنے کی آزادی فراہم کرتا ہے وہاں انسانی جان کے تحفظ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین