• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

اس گوری خاتون کا نام مسز ای ایم شیخ تھا۔ یہ جرمن خاتون تھیں جنہوں نے ریلوے کے ایک مسلمان افسر سے شادی کر لی تھی۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ انہوں نے پوری زندگی جانوروں کی دیکھ بھال میں وقف کر دی، وہ لاہور کی مختلف سڑکوں پر اپنے عملے کے ساتھ کھڑی ہوتی تھیں اور جو گھوڑا جسمانی طور پر کمزور ہوتا، لاغر ہوتا یا اس کا کوچوان اس کو زیادہ مار رہا ہوتا یہ خاتون اس کا گھوڑا چھین لیتی اور گھوڑوں کے لئے خصوصی طور پر بنائی گئی بڑی سی ایمبولینس میں اس کو منتقل کر دیتی اور اسے گھوڑا اسپتال (موجودہ یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز) میں لے آتی۔ اس کا علاج کیا جاتا اور بہترین خوراک دی جاتی اور جب گھوڑا تندرست ہو جاتا تو مالک کو جرمانہ کرکے حوالے کر دیا جاتا، وہ خاتون جس سڑک پر کھڑی ہوتی وہاں سے تانگہ، ریڑھے والے نہیں گزرتے تھے۔ ہم نے ان کو کئی دفعہ خود دیکھا۔ اس گوری خاتون کی بہت خدمات ہیں۔

اس زمانے میں لاہور کی سڑکوں خصوصاً ٹیپ روڈ اور ریٹی گن روڈ پر شام کے وقت لوہے کے پانی والے ٹینکر جن کے آگے بیل ہوتا تھا، سے ان سڑکوں پر پانی کا چھڑکائو کیا جاتا تھا، پھر سفید چونا بھی ان سڑکوں پر پھینکا جاتا تھا تاکہ بیماریاں نہ پھیلیں۔ اس علاقے میں تاریخی گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول، جونیئر ماڈل اسکول اور سینٹرل ٹریننگ کالج (اب یونیورسٹی آف ایجوکیشن) کی عمارتیں ہیں اور یہیں بوٹا نان چھولے والے کی بھی دکان ہے۔ اس سینٹرل ماڈل اسکول میں مائی ڈیئر کے سموسے ہر طالب علم نے کھائے ہوں گے۔ اب وہ بھی یادِ ماضی بن گیا۔ بھا بوٹے کے نان چنے پاکستان کی 80فیصد بیورو کریسی، فوج اور لاہور کے ڈاکٹروں کی اکثریت نے اپنے طالبعلمی کے زمانے میں ضرور کھائے ہوؓ گے۔ اب بوٹا تو بوڑھا ہو گیا ہے، اس کا بیٹا بیٹھتا ہے۔ سینٹرل ماڈل اسکول کے ہمسائے میں گورنمنٹ کالج لاہور (اب یونیورسٹی) کی انتہائی خوبصورت اور شاندار عمارت ہے۔ کبھی اس تاریخی کالج کے باہر گنے کا رس والا ہوتا تھا۔ اب پتا نہیں کہاں گیا۔ ملک صاحب کی ملک شیک کی دکان جس سے ہر بیورو کریٹ، فوجی اور ڈاکٹر نے لازمی ملک شیک پیا ہو گا، اب وہ بھی قصہ پارینہ ہو گیا۔ گورنمنٹ کالج کو یونیورسٹی بنا کر اس کا تاریخی تشخص ختم کر دیا گیا۔ گورنمنٹ کالج کے ذرا آگے لاء کالج اور اورینٹیل کالج اور پنجاب یونیورسٹی کے سینیٹ ہال کی عمارتیں ہیں۔ یہیں پر تاریخی بانو بازار ہے۔ بانو بازار کی چاٹ کبھی بڑی مشہور تھی۔ انارکلی کے اندر بھی کبھی مٹھائی کی دکان ہوا کرتی تھی جو اب نہیں ہے۔ یہیں پر کھلونوں کی دکانیں ہوتی تھیں، بڑی دور سے لوگ کھلونے لینے یہاں آتے تھے۔ انارکلی ہی میں کبھی بیلی رام کی بڑی سی عمارت ہوتی تھی۔ بمبے کلاتھ ہائوس، کالج شوز، ریکارڈوں کی دکان بمبے میوزک ہائوس، نظام ہوٹل، دہلی مسلم ہوٹل جہاں مہاراجہ کتھک نے ساری عمر بسر کر دی۔ مہاراجہ اسی ہوٹل میں اپنے اسٹوڈنٹس کو کتھک ڈانس بھی سکھایا کرتے تھے۔ سرشام دہلی مسلم ہوٹل کے باہر پانی کا چھڑکائو کر دیا جاتا تھا۔ ہم یہاں وہ سب تحریر کر رہے ہیں جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، یہ کوئی سنی سنائی باتیں نہیں ہیں۔ انارکلی کے آخر میں ایک کھیر کی دکان اور دو بک اسٹال ہوتے تھے۔ یہاں کی کھیر بہت مشہور تھی، اس کے سامنے لوہاری اور وہاں کی نہاری بڑی مشہور تھی۔ سامنے مولانا محمد بخش مسلم کی تاریخی ایک مینار والی مسجد ہے۔ اس مسجد کے نیچے ادویات کی مارکیٹ ہے۔ جہاں آپ کو وہ ادویات بھی مل جائیں گی جن پر دنیا کے کئی ممالک نے پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس کے سامنے پان منڈی ہے، جہاں بھارت کی مختلف مصنوعات آپ کو مل جائیں گی۔ مسلم مسجد سے کئی حکمرانوں کے خلاف تحریکیں بھی چلی ہیں، اسی مسجد میں ایک مرتبہ پولیس والے کسی جلوس پر لاٹھی چارج کرتے ہوئے جوتوں سمیت داخل ہو گئے تھے۔

تھوڑا آگے جائیں تو یہاں پر کبھی ایک مندر بھی تھا جسے شاہ عالمی مندر بھی کہا جاتا تھا۔ رنگ محل چوک میں ایاز (محمود و ایاز والا) کا مقبرہ ہے، یہاں پر کبھی بڑی کمال کی کشمیری چائے ملا کرتی تھی۔ یہیں پر سوہا بازار ہے جہاں پر سونے کے زیورات (ایک نمبر اور ہر طرح کے دو نمبر بھی) مل جاتے ہیں اور برابر میں گمٹی بازار ہے۔ رنگ محل ہی میں تاریخی مشن ہائی اسکول اور کبھی ایف سی کالج بھی تھا۔ چوک رنگ محل، کشمیری بازار، سوہا بازار، گمٹی بازار، پانی والا تالاب، سنہری مسجد، کوچہ چابک سوارں کیا خوبصورت علاقے تھے، سب کچھ تباہ ہو گیا۔ اسی شہر میں کبھی چکی کی مخصوص آواز اور فیکٹریوں کے سائرن کی آوازیں بھی آتی تھیں۔ کبھی ہر گھر میں ہینڈ پمپ اور مکانوں میں کنویں ہوتے تھے۔ انہیں چھوٹے کنویں کہا جاتا تھا، ہم نے خود بھاٹی گیٹ کے محلہ چومالہ میں ایم اسماعیل اداکار کے گھر کے قریب واقع مکانوں سے ان کنوئوں کا میٹھا اور ٹھنڈا پانی پیا ہے۔ اسی چومالہ میں محمد رفیع گلوکار کا مکان آج بھی ہے۔ اسی بھاٹی گیٹ میں گلوکار محمد رفیع کی بال کاٹنے کی دکان بھی ہوتی تھی۔

لاہور کے اردگرد واقع دیہاتوں میں بڑے کنویں ہوا کرتے تھے، بیلوں کی مدد سے ان سے پانی باہر کھینچا جاتا تھا۔ اس زمانے میں نائی بال کاٹنے کے علاوہ دیگیں پکانے اور شادی کے پیغامات بھی لے کر جاتے تھے۔ لاہور کے موچی گیٹ کا لال کھوہ بڑا مشہور تھا۔ اس کنویں سے کبھی پانی حاصل ہوتا تھا۔ ہم نے اور ہمارے دوست عابد علی عابد (ڈنمارک) نے خود وہاں سے پانی پیا ہے۔ یہاں سائیں کے کباب بھی بڑے مشہور تھے۔ اس علاقے میں کبھی پاپا گڈی فروش کی دکان بڑی مشہور تھی۔ یہ تمام باتیں اور مقامات خواب و خیال ہو گئے۔ موچی دروازے میں کھانے پینے کی کئی اشیا بڑی معیاری ملا کرتی تھیں اور آتش بازی کے سامان کا مرکز بھی یہ علاقہ رہا ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین