• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے پڑوسی ملک بھارت جس کھلی فسطائیت کے راستے پر چل رہا ہے وہ خواہ 1962ء میں لداخ میں بدترین انجام سے دوچار ہونے والی بھارتی فوج کو دوبارہ چین سے بھڑانے کی تازہ کارروائی کی صورت میں نظر آئے، خواہ سڑک کی تعمیر سمیت نیپال کی سرزمین اور اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے رنگ میں سامنے آئے، خواہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کے باوجود اسے پانی سے محروم کرنے کے اقدامات سمیت دبائو میں لینے کے طریقے ہوں، دنیا کیلئے ان میں حیرت کے پہلو ہو سکتے ہیں مگر پاکستانی قوم بھارتی فطرت کے ہر پہلو سے واقف ہونے کے باوجود اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ہمیں لوہے کا جواب لوہے سے دینے کے بجائے آگ کا علاج پانی سے کرنا ہے۔ ہمارے سامنے اہم ترین لائحہ عمل قائداعظم محمدعلی جناح ؒکا وہ ارشاد ہے جس میں انہوں نے 1947ء میں بننے والی دونوں مملکتوں کے لیے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ امریکہ اور کینیڈا کی طرح امن، آشتی اور تعاون کے ساتھ ترقی و خوشحالی کی منزلیں طے کریں۔ اس اعتبار سے ہمارا موٹو دفاع کی تمام تیاریوں کا خیال رکھتے ہوئے انسانیت کی ابدی و آفاقی قدروں کو ملحوظ رکھنا اور فسطائیت کا جواب انسانیت و اخلاق کے طریقوں سے دینا ہے۔ بھارت کے طرزِ عمل میں توسیع پسندی اور علاقائی بالادستی کا جو عنصر موجود ہے اس کے متعدد مظاہر کے ہم خود شاہد ہیں جبکہ پاکستانی قوم کئی بار نئی دہلی کی شروع کردہ جنگوں سے نبردآزما ہو چکی ہے اور اپنے مشرقی بازو سے محروم ہونے کے بعد اس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا کہ دشمن کو جنگ سے روکنے کیلئے ایٹمی ڈیٹرنس بنائے۔ مودی سرکار سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے 5اگست 2019ء کو جموں و کشمیر کے بھارت میں انضمام کے اعلان کے بعد کرفیو اور لاک ڈائون نافذ کرتے ہوئے آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی منظم کوششوں میں مصروف ہے جبکہ اندرونِ بھارت متنازع شہریت قانون کی آڑ میں بھارتی مسلمانوں ہی نہیں عیسائیوں، بودھوں، قدیم مقامی مذاہب کے پیروکاروں کے علاوہ تامل، نکسلائٹ، بھیلوں سمیت سب کو بے وطن قرار دے کر ایسی صورت حال پیدا کر دی گئی ہے جس میں ہٹلر کے فلسفے پر کاربند راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے مسلح جتھوں اور ہندوتوا کا نام استعمال کرنے والی انتہا پسند تنظیموں سے وابستہ افراد کے سوا کسی کی گنجائش نہیں رہی۔ نہیں کہا جا سکتا کہ 31علیحدگی پسند تحریکوں کی موجودگی، 16ریاستوں میں بھارت بیزاری کی لہر اور مختلف مذاہب اور نسلوں کو ہندوتوا کے نام پر تشدد کا نشانہ بنانے والا بھارت فسطائیت کا ہتھیار اُٹھا کر کس راستے پر جا رہا ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت کی طرح وزیراعظم عمران خان بھارت کو بات چیت کے ذریعے تنازعات طے کرنے کی پیشکش کر چکے ہیں مگر اس کے جواب میں پاکستان پر الزام تراشیاں کرنے اور کنٹرول لائن پر گولا باری کرنے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ بدھ کے روز چکری سیکٹر میں 650میٹر اندر تک بھارت کا ڈرون طیارہ آگیا جسے گرا دیا گیا اس نوع کے واقعات پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ پاکستان آگ کو پانی سے بجھانے کی جس حکمت عملی پر کارفرما ہے اس میں اقلیتوں سے بھرپور محبت کرنا اور ہمسایوں کو اپنی طرف سے ان کی جغرافیائی حدود کے احترام کا ایقان دینا شامل ہے۔ ہٹلر کے دور عروج میں فسطائیت دنیا کو کھاتی محسوس ہو رہی تھی مگر انسانیت، محبت، احترام اور انصاف کی عالمی خواہش نے فسطائیت کا قلع قمع کر دیا۔ فطرت کے قوانین یہی ہیں کہ آخرکار انسانیت فتح یاب ہوتی ہے اور فسطائیت و توسیع پسندی کا مقدر شکست سے دوچار ہونا ہے۔

تازہ ترین