کراچی (بابر علی اعوان / اسٹاف رپورٹر) سفید چینی کو زہر کہا جاتا ہے جس کی انسانی جسم کو کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی، اس کو استعمال نہ کرنے کے کوئی نقصانات نہیں تاہم اس کا زیادہ استعمال ذیابیطس، امراض قلب، امراض جگر، سرطان اور موٹاپے سمیت دیگر کئی بیماریوں کا باعث بنتا ہے اس لیے چینی کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔
ان خیالات کا اظہار معروف ماہر امراض ذیابیطس پروفیسر زمان شیخ اور پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹیٹک سوسائٹی کی صدر اور معروف ماہر غذائیت فائزہ خان نے چینی کے نقصانات کے بارے میں جنگ سے بات کرتے ہوئے کیا۔
پروفیسر زمان شیخ نے بتایا کہ سفید چینی کو زہر کہا جاتا ہے جو مشروبات، چائے، مٹھائی اور سوئیٹ ڈشز میں ڈائریکٹ ملائی جاتی ہے جس کا سبھی کو علم ہوتا ہے لیکن کئی اشیاء ایسی ہیں جنہیں ہم بے خبری میں استعمال کرتے ہیں مثلاً بیکری کے تمام آئٹم، کیک، بسکٹ، ٹومیٹو کیچپ، مائیونیز، تمام ساسیز اور انرجی ڈرنکس، یہ چینی سے بھر پور ہوتے ہیں اور ان میں چینی بہت زیادہ ہوتی ہے جن کا ہمیں پتہ نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ سافٹ ڈرنک کی 330 ملی لیٹر کی عام بوتل میں کم سے کم چھ چمچ کے برابر چینی ہوتی ہے جو بچے اور بڑے شوقیہ استعمال کرتے ہیں، چینی شوگر بڑھاتی ہے اگر کسی کی شوگر بارڈر لائن پر ہے تو بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چینی یا چینی سے بنی ہوئی کوئی چیز استعمال کی جائے تو یہ وزن بڑھاتی ہے اور وسرل فیٹ ہوجاتا ہے یعنی پیٹ میں چربی جمع ہو جاتی ہے جو فری فیٹی ایسڈ خارج کرتے ہیں، یہ دل کو بہت نقصان پہنچاتےہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ میٹا بولک سینڈروم پیدا کرتا ہے یعنی جب آدمی موٹا ہو اس کی توند نکلی ہو، ٹائپ ٹو ذیابیطس ہو گئی ہو یا ہونے والی ہو، بلڈ پریشر، کولیسٹرول، یورک ایسڈ، دل کے امراض کو ملا کر میٹابولک سینڈروم کہا جاتا ہے اور چینی میٹابولک سینڈروم بڑھاتی ہے۔
پروفیسر زمان شیخ کا کہنا تھا کہ چینی کے زیادہ استعمال سے جگر پر چربی چڑھ جاتی ہے جسے نان الکوہلک فیٹی لیور کہا جاتا ہے جوتمام بیماریوں کی جڑ ہے۔
ایک دفعہ جگر پر چربی چڑھ جائے تو بہت ساری دیگر بیماریوں کو جنم دیتی ہے جس میں ٹائپ ٹو ذیابیطس، بلڈ پریشر، کولیسٹرول، یورک ایسڈ، دل کے امراض اور فالج تک شامل ہیں۔
چینی اور چینی سے بنی ہوئی اشیاء جب استعمال کی جاتی ہیں تو یہ جلد ہضم ہو جاتی ہیں، ایک دم خون میں شامل ہو جاتی ہیں اور خون میں شوگر کی سطح یک دم بڑھ جاتی ہے اور یہ لبلبے پر زور ڈالتی ہے جس سے ذیابیطس کا مرض لاحق ہوتاہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹائپ ٹو ذیابیطس 50 فیصد مورثی ہے اور 50 فیصد ماحولیاتی فیکٹر کی وجہ سے ہوتا ہے۔
ایسے افراد جن کے خاندا ن میں یہ بیماری ہے انہیں اس کا رسک بچپن سے ہو جاتا ہے ایسے میں اگر چینی کھلائی جاتی رہے گی تو لبلبے پر پریشر پڑتا ہے اور لبلبے کے بیٹا سیل میں جو فیکٹری ہے انسولین بنانے کی اس میں جان نہیں ہوتی ہے جس سے یہ مرض ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ چینی کے استعمال سے دل کے امرا ض بہت بڑھ جاتے ہیں، یہ مہاسے بڑھاتی ہے، ڈپریشن میں اضافہ کرتی ہے، جلد کوخراب کرتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ چینی کینسر بالخصوص گلے کی نالی، پھیپھڑوں کی جھلی کا کینسر، زنانہ کینسر، آنتوں کے کینسر کو بڑھاتی ہے۔
پروفیسر زمان شیخ کا مذید کہنا تھا کہ سوفٹ ڈرنکس بھوک مٹاتے نہیں بلکہ ہارمون پیدا کرتے ہیں، جسم میں جو نقصان پہنچاتے ہیں حتیٰ کہ جب ڈائیٹ کولڈرنک استعمال کی جاتی ہے تو جسم یہ سمجھتا ہے کہ کوئی میٹھی چیز استعمال کر لی ہے پھر نقصان والے ہارمونز جسم میں پیدا کرتے ہیں جو بھوک مٹانے کے بجائے جسم کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چینی زیادہ کھانے سے دانت جلدی خراب ہو جاتے ہیں اور جسم میں ایک اور چربی ہوتی ہے جسے ٹرائی گلیسرائیڈ کہتے ہیں یہ بھی نقصان دہ ہوتی ہے اور دل کے امراض پیدا کرتی ہے، چینی کھانے سے ٹرائی گلیسرائیڈ بڑھ جاتے ہیں جبکہ لبلے کی سوزش کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے اس لیے کم سے کم چینی استعمال کریں۔
انہوں نے مذید کہا کہ ہوٹلوں، بیکری اور باہر کے کھانوں میں بھی چینی بہت زیادہ ہوتی ہے، انرجی ڈرنکس میں دیگر بہت سارے کیمیکلز کے ساتھ بہت سارا گلوکوز، شوگر اور بہت زیادہ کیفین ہوتی ہے جس سے فی الفور تو توانائی محسوس ہوتی ہے لیکن اس سے نقصانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹیٹک سوسائٹی کی صدر اور معروف ماہر غذائیت فائزہ خان نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شوگر نشاستہ کی ایک قسم ہے جو کہ بہت سی قدرتی غذاؤں کا حصہ ہے جن میں پھل، سبزیاں، اناج اور دودھ شامل ہیں جن کے استعمال میں عام طور پر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن جب سفید چینی کی بات کی جائے جو عام طور پر مٹھائی، سوئیٹ ڈشز، مشروبات، جوس اور بیکری سمیت دیگر کئی اشیاء میں استعمال ہوتی ہے اور ہمارے معاشرے میں اس کا استعمال سنگین حد تک کیا جاتا ہے، اس چینی کی جسم کو الگ سے کوئی ضرورت نہیں ہوتی اوراستعمال نہ کرنے سے جسم کو کوئی نقصان نیہں ہوتا ہے تاہم اس کا زیادہ استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی سفارشات کے مطابق ایک عام شخص کے جسم کو کیلوریز کی جتنی ضرورت ہوتی ہے اس کے پانچ سے دس فیصد حصے کے طور پر چینی کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین زیادہ سے زیادہ دن میں پانچ سے چھ چائے کی چمچ چینی استعمال کر سکتی ہیں جبکہ مرد حضرات ایک دن میں زیادہ سے زیادہ آٹھ سے نو چائے کے چمچ چینی استعمال کر سکتے ہیں لیکن جنہیں ذیابیطس ہو یا موٹاپے کا شکار ہوں انہیں اپنی غذا کا تعین اپنے غذائی ماہر سے مشورے کے بعد کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک بچوں کا تعلق ہے تو ان کی غذا میں بھی چینی شامل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
عام طور پر ایک سال تک کے بچوں کی غذا میں چینی بالکل نہ ڈالی جائے کیونکہ ابتدائی عمر میں بچوں کو کوئی ذائقے کا احساس نہیں ہوتا، اگر دودھ یا دوسری غذاؤں میں چینی ملاکر پلایا جائے تو ذائقہ ڈیویلپ ہو جاتا ہے جس سے مسوڑھوں اور دانتوں سمیت دیگر مسائل ہوجاتے ہیں۔
فائزہ خان کا کہنا تھا کہ ہم بچوں کو خود چینی کی عادت ڈالتے ہیں، اگر عادت نہ ڈالی جائے تو اس ذائقہ ڈیویلپ نہیں ہوگا اور انہیں قدرتی شکر کی ہی عادت رہے گی۔
انہوں نے بتایا کہ چینی دراصل کاربوہائیڈریٹ کی ایک ریفائینڈ قسم ہےجس کا زیادہ استعمال جسم میں چربی کی صورت میں جمع ہوتا رہتا ہے اور جگر کے ساتھ جسم کے دیگر اعضاء میں چربی آجاتی ہے جو کہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
اس سے وزن کی زیادتی یا موٹاپے میں اضافہ، بلڈ پریشر، شوگر، دل کے امراض، کینسر اور دیگر امراض ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، یہ بیماریاں براہِ راست چینی سے منسلک نہیں لیکن بلاواسطہ اس سے منسلک ہیں۔
ماہر غذائیت کا کہنا تھا کہ کچھ صورتوں میں جب کسی کی غذا میں زائد کیلوریز شامل کرنی پڑیں تو پھر غذائی ماہرین غذا میں چینی کو شامل کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔
ان کا مذید کہنا تھا کہ چینی کے استعمال کو حد میں رکھنا ضروری ہے جیسا کہ ان اشیاء کا استعمال کم سے کم رکھا جائے جو صرف چینی پر مبنی ہیں اور دوسری اہم غذاء فراہم نہیں کرتیں، ایسی غذائیں نہ بھی استعمال کریں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔