الماس ضیاء
کورونا نے جہاں معمولاتِ زندگی تبدیل کر کے رکھ دیے ہیں، وہیں تعلیمی سرگرمیوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ پبلک اور پرائیوٹ تعلیمی ادارے گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے ہی بند کردئیے گئے، اس سے تعلیم کا جو نقصان ہوا اس کا ازالہ کرنے کے لیے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آن لائن تدریس کے حوالے سے کچھ اقدامات کئے جارہے ہیں۔ پوری دنیا نے تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے تمام جتن کرکے، آن لائن نظام تعلیم کو متعارف کرواناشروع کردیا ہے۔ تاہم حیرت انگیز امر یہ ہے کہ سندھ میں سرکاری تعلیمی اداروں کی نسبت نجی تعلیمی اداروں کی تعداد 75فی صد سے زائدہونے کے باوجودمتعدد نجی تعلیمی ادارے ابھی تک آن لائن کلاسز کے انعقاد میں اپنی کم علمی اور کم آگاہی کی وجہ سے شش و پنج کا شکار ہیں۔
اکثر جامعات نے آن لائن کلاسز کا اہتمام تو شروع کردیا گیا ہے تاہم طلبہ کو آگاہی فراہم کرنے میں ناکام بھی دکھائی دیتے ہیں۔ بہت سی جامعات نے طلبہ کو صرف سوالات حل کرنے پر لگا دیا ہے لیکن لائبریری بند ہونے کے باعث طلبہ کو حوالاجات میں پریشانی کا سامنا ہے۔ آن لائن کلاسز کا مطلب ہے کہ طلبہ کو سہل طریقہ سے مطلوبہ عنوان تک رسائی دینا ، ناکہ سوالات کو حل کر کے جوابات تحریر کردیے جائیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آن لائن کلاسز کے مطالب سے اساتذہ بھی ناواقف ہیں، اِن کو بھی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ اسکولوں میں آن لائن کلاسز کا مطلب ہی کچھ اور لیا جارہا ہے۔ والدین کو فیس کی یاد دہانی کرانے، اسباق کی معلومات فراہم کرنے، والدین کو مضامین کے اسباق کی تیاری سے متعلق معلومات فراہم کرنے سمیت اور بہت سے تعلیمی اقوال و معلومات فراہم کرنے سے متعدد تعلیمی ادارے اپنی آن لائن کلاسز کی ذمے داری کو پورا کرنا سمجھ رہے ہیں ،جبکہ آن لائن کلاسز کے انعقاد میں طلبہ کو براہ راست تعلیمی سرگرمیوں شامل کرنا مقصود ہوتا ہے ۔
ایک رپورٹ کے مطابق آن لائن کلاسز کے لیے جو ماحول اور لوازمات چاہئیں، پاکستان بالخصوص سندھ میں 80فی صد طلبہ اُس ماحول اور لوازمات سے محروم ہیں ،جبکہ صرف 20فی صد طلبہ ہی آن لائن کلاسز سے مستفید ہوسکیںگے، جبکہ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ آن لائن کلاسز کے باعث معاشرےمیں طبقاتی تفریق کا عنصر بڑھنے سے طلبہ پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ دیگر یہ کہ نجی تعلیمی ادارے بھی کورونا وائرس کے باعث اچانک بندش کی صورت حال کے لیے تیار ہی نہیں تھے کہ آن لائن کلاسز کیا ہوتی ہے یا آن لائن تدریس کا عمل کس طرح جاری رکھا جا تا ہے۔ اِس وقت دیکھنے میں آیا ہے کہ سندھ بھر میں متعدد نجی تعلیمی اداروں کو آن لائن کلاسز کی سمجھ بوجھ ہے ہی نہیں اورمنصوبہ بندی کے مطابق فاصلاتی تعلیم کا کوئی تجربہ بھی نہیں رکھتے،کیونکہ متعدد نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تنخواہ تواچھی ہوتی ہے،لیکن تعلیم گریجویشن سے زیادہ نہیں اور نہ ہی وہ بی ایڈ یا ایم ایڈہوتے ہیں جنہیں معلوم ہو کہ ہنگامی صورت حال میں مضامین کو کس طرح تقسیم کیا جائے گا یا پھر فاصلاتی تعلیم کے کیا کیا مدارج ہوں گے، غیر تربیت یافتہ اساتذہ کو تربیت دینے کے لیے وقت اور پیسہ دونوں درکار ہوگا۔
اب اگر بین الاقوامی رپورٹ کا جائزہ لیاجائے تو یونیسف کے مطابق لاک ڈاؤن کی صورت حال کے باعث دنیا بھر میں 1.57 بلین سے زائد طلباء کی تعلیم متاثر ہوئی ہے جبکہ عالمی سطح پر، آبادی کے 40 فی صد یعنی 3 ارب افرادکو اب بھی گھر میں صابن اور پانی کی سہولیات سے دوچار بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ایک اندازے کے مطابق 3.6 بلین افراد کی انٹر نیٹ تک رسائی نہیں ہے اور زیادہ تر افراد کم آمدنی والے ممالک میں رہائش پذیر ہیں جن میں ہر دس میں سے صرف 2افراد انٹر نیٹ تک رسائی حاصل کرپاتے ہیں یا ا ن کو انٹر نیٹ تک رسائی ہے۔یونیسف کےمطابق حکومتوں کو مستقبل میں بچوں کی صحت، غذائیت، صاف پینے کے پانی اور بچوں کو صاف ستھرا ماحول فراہم کرنے میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے، جس سے کورونا وائرس سے دنیا کو اس بحران سے ہونے نقصانات کو کم کرنے اور آئندہ کے بحرانوں سے بچنے میں مدد ملے گی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ملکوں کے لاک ڈاؤن کے باعث 1.57بلین سے زائد طلبا کی تعلیم متاثر ہوئی ہے ، اِس رپورٹ میں خبر دار کیا گیا ہے کہ اگر ہم نے اپنے بچوں کو وبائی امراض کے اثرات سے دور رکھنے کے لیے عملی اقدامات نہیں کئے تو مستقبل میں یہ وباء زیادہ نقصان کا باعث ہوگی۔ ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے باعث پیدا شدہ صورتحال سے باہر نکلنے کے بعد یعنی لاک ڈاؤن کی صورت حال ختم ہونے کے بعد طلبہ یعنی بچوں کی دو قسموں سے ہمیں واسطہ پڑے گا ایک وہ بچے ہوں گے جو پہلے اتنا نہیں جانتے تھے مگر اب بہت جان چکے ہیں جبکہ دوسری قسم بچوں کی وہ ہوگی جو کچھ جا نتے بھی تھے ،مگراب کچھ نہیں جانتے ہیں،لہذا ایسی صورت میں آن لائن تدریس کے حوالے سے حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔