کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر سمیت پاکستان میں بھی کرکٹ کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ ہیڈ کوارٹر دس ہفتوں سے بند ہے جبکہ بورڈ کے افسران گھروں سے کام کررہے ہیں۔ایسے وقت میں جبکہ پی سی بی ہیڈکوارٹر میں تالے ہیں ۔بورڈ کے افسران گھروں سے بڑے بڑے فیصلے کررہے ہیں۔مستقبل کی پلاننگ جاری ہے ،نئی تقرریاں بھی ہورہی ہیں۔یہ تقرریاں یہ کہہ کر کی جارہی ہیں کہ ان فیصلوں سے پاکستان کرکٹ کو فائدہ ہوگا۔حالیہ دنوں میں پی سی بی کو محدود مخالفت کا سامنا ہے۔میڈیا نے بھی پی سی بی کو موافق حالات دے دیئے ہیں۔
ماضی میں پی سی بی کی پالیسیوں پر تنقید کا بہانہ ڈھونڈنے والوں کی توپیں اب خاموش ہیں اس خاموشی کی کہانی بھی جاسوسی ناول کی طرح ہے لگ رہا ہے کہ پردے کے پیچھے سب ایک ہیں لیکن سامنے ہلکی پھلکی موسیقی دیکھنے کو مل جاتی ہے۔پاکستانی میڈیا سب اچھا ہے تو نہیں کہہ رہا لیکن تنقید آٹے میں نمک کے بر ابر رہ گئی ہے کیوں کہ پی سی بی کو علم ہے کہ کس کو کیسے خوش رکھنا ہے۔کام نکلوانے کے لئے خوشامدی بن جاتے ہیں اور کام نکل جائے تو پھر بورڈ کو آنکھیں دکھاتے ہیں۔کامیاب میڈیا پالیسی نےاحسان مانی،وسیم خان اور ان کی انتظامی ٹیم کو آسان حالات دے دیئے ہیں۔
پی سی بی میں گذشتہ چھ سات سالوں کے دوران طاقتور تصور کئے جانے والے گورننگ بورڈ کے سابق رکن شکیل شیخ اور ان کے چند ساتھی پریشر گروپ بناکر سوشل میڈیا پر متحرک ہیں۔شکیل شیخ کی اکیڈمی کو اسلام آباد میں بند کردیا گیا ہے۔انہیں ذاتی حملوں کی پاداش میں قانونی چارہ جوئی کا سامنا ہے جبکہ ڈائمنڈ گراونڈ میں ان کے اجارہ داری پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ابھی تک شکیل شیخ اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔اسی دوران میڈیا کی معنی خیز خاموشی نے احسان مانی اور وسیم خان میں نئی قوت پیدا کردی ہے۔پاکستان کرکٹ میں سالہا سال سے یہی کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا سسٹم کمزور ہے۔
اس کی وجہ کمزور ڈومیسٹک سسٹم کو کہا جاتا ہے۔گذشتہ سال پی سی بی نے ملکی نظام سے ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو ختم کرکے چھ فرسٹ کلاس ٹیموں پر مشتمل نیا سسٹم متعارف کرایا۔اس سسٹم کے متعارف ہوتے ہی پی سی بی ہیڈ کوارٹر میں ایک بڑے آپریشن کلین اپ کا آغاز ہوا۔سالہا سال سے بورڈ میں بڑے بڑے عہدوں پر کام کرنے والے چیف آپریٹنگ آفیسر سبحان احمد، چیف فنانشل آفیسربدر منظور، ڈائریکٹرز مدثر نذر،ہارون رشید،نائیلہ بھٹی،امجد بھٹی، جنرل منیجرز صہیب شیخ،شفیق پاپا،علی ضیاء،اور بہت سارے چہرے منظر سے غائب ہوچکے ہیں۔نئی انتظامی ٹیم کے ساتھ چیئرمین احسان مانی،چیف ایگزیکٹیو وسیم خان اور چیف آپریٹنگ آفیسر سلمان نصیر پی سی بی کے کاررواں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
چند دن پہلے پی سی بی نے قومی اکیڈمی کو ہائی پرفارمنس سینٹر میں تبدیل کردیا۔ ری اسٹرکچرنگ کے نام پر بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کردی گئیں ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے نیوزی لینڈ کے سابق ٹیسٹ کرکٹرگرانٹ بریڈ برن اور ماضی کے عظیم آف اسپنرثقلین مشتاق کی ہائی پرفارمنس میں تقرریاں کردی ہیں ان سے قبل ماضی کے لیفٹ آرم اسپنر ندیم خان کو ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس سینٹر مقرر کیا گیا تھا۔
بریڈ برن کا ہیڈ آف ہائی پرفارمنس کوچنگ اور ثقلین مشتاق کا بطور ہیڈ آف انٹرنیشنل پلیئر ڈویلپمنٹ کی حیثیت سے تقرر کیا گیا ہے۔دوسابق ٹیسٹ کرکٹرز کے علاوہ لمز سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے والے، عصر ملک کو ہائی پرفارمنس آپریشنزمنیجر مقرر کردیا گیا ہے۔ وہ کئی ملٹی نیشنل کمپنیز میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ۔
عصر ملک کی تقرری مفادات کا ٹکراو ہے کیوں کہ وہ اس سے قبل پلیئرز منیجمنٹ کمپنی چلاتے تھے اور ملتان سلطانزکے ساتھ کام کرتے تھے۔یہ تقرریاں، ہائی پرفارمنس سنٹر کی ری اسٹرکچرنگ کا حصہ ہیں۔ گرانٹ اس وقت پاکستانی ٹیم کے فیلڈنگ کوچ تھے۔پی سی بی قومی کرکٹ ٹیم کے اسپورٹ اسٹاف میں گرانٹ بریڈ برن کے متبادل کا فیصلہ جلد کردے گا۔گرانٹ کا مقصدنوجوانوں، خواہشمند اسپورٹ اسٹاف اور کھلاڑیوں کو ایک واضح راستہ فراہم کرنا ہے،وسیم خان کہتے ہیں کہ وہ پراعتماد ہیں کہ ندیم خان، گرانٹ بریڈ برن اور ثقلین مشتاق مل کر ایسے پروگرامز اورنظام متعارف کروائیں گے، جس سے ہائی پرفارمنس سنٹر کینئے مقاصدتیار ہوں گے جو بالآخر اسے سنٹر آف ایکسلینس اور پی سی بی کے ماتھے کا جھومر بنائیں گے۔یہ تقرریاں مدثر نذر،علی ضیاٰ ء اور ہارون رشید کی جگہ کی گئی ہیں۔ندیم خان ڈائریکٹر ڈومیسٹک کرکٹ بھی ہوں گے۔کیوں کہ قومی اکیڈمی اور ڈومیسٹک کرکٹ کو ضم کردیا گیا ہے۔
پی سی بی نے دعو ی کیا ہے کہ تینوں تقرریاں، تعیناتی کے ایک مربوط عمل سے گزرنے کے بعد کی گئی ہیں۔ اس میں امیدواروں کی جانب سے تیار کی گئی پرزینٹیشنز اور پھر ایک اعلیٰ سطحی پینل(جس میں کرکٹ کمیٹی کے اراکین بھی شامل تھے)کا ان امیدواروں کا انٹرویو لینا شامل ہے۔گرانٹ بریڈ برن ستمبر 2018 سے قومی کرکٹ ٹیم کے فیلڈنگ کوچ کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھارہے ہیں۔ وہ اسکاٹ لینڈ کرکٹ ٹیم کے کوچ بھی رہ چکے ہیں۔1990سے 2001 تک 7 ٹیسٹ اور 11 ایک روزہ میچوں میں نیوزی لینڈ کی نمائندگی کرنے والے گرانٹ بریڈ برن اس سے قبل نیوز ی لینڈ مینز اے اور انڈر 19 ٹیموں کی کوچنگ بھی کرچکے ہیں۔گرانٹ بریڈ برن، ایک لیول تھری کوچ ہیں۔ وہ اس نئے عہدے پر ملک بھر کے ہائی پرفارمنس سنٹرز میں اسپورٹ عملے کے مجموعی معیار کو بڑھانے کے ذمہ دار ہوں گے۔
وہ نئے طریقوں کو رائج کرنے کےساتھ ساتھ انفرادی تعلیم اور نظام کے تحت ایک کامیاب ماحول پیدا کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ ایک ایسا نظام جو مستقل اپنی آراء، تشخیص اور مدد فراہم کرتا ہے جوکوچز کی ترقی میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ثقلین مشتاق کا انٹرنیشنل کرکٹ کیرئیر 1995 سے 2004 پر محیط رہا۔ان کی ذمہ داریوں میں کھلاڑیوں کی شناخت، ان کی ڈویلمپنٹ اور تیاری اس انداز میں شامل ہوگی کہ وہ ورلڈکلاس کرکٹرز بن سکیں۔ثقلین مشتاق کودوسرا کا موجد کہا جاتا ہے۔18برس کی عمر میں انہوں نے ون ڈے انٹرنیشنل کیایک کلینڈر ائیر میں 65 وکٹیں حاصل کرکے ریکارڈ قائم کیا۔
انہوں نے اگلے ہی برس ایک کلینڈر ایئر میں 69 وکٹیں لے کر ایک نیا ریکارڈ بنایا جو اب تک برقرار ہے۔وہ اپنی بولنگ میں اس قدر مؤثر تھے کہ انہوں نے 1سال اور 225 دنوں میں تیز ترین 100 وکٹیں حاصل کرنے کاریکارڈ بھی قائم کیا۔اب تک ان کے علاوہ کوئی اور بولر 2 سال سے کم عرصے میں یہ اعزاز اپنے نام کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ثقلین مشتاق لیول تھری کوچ بھی ہیں۔ ماضی میں وہ انگلینڈ، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کی مینز کرکٹ ٹیموں کے ساتھ اسپن بولنگ کوچ کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔
اس کے علاوہ ثقلین مشتاق پاکستان کرکٹ بورڈ، کرکٹ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کرکٹ کے ساتھ کنسلٹنٹ کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں۔چیف ایگزیکٹو پی سی بی وسیم خان نے کہا کہ ہائی پرفارمنس سنٹر پاکستان کی کرکٹ کا دل ہے جو بالآخر پاکستان کرکٹ کی سمت کا تعین کرے گا۔ انہیں خوشی ہے کہ وہ اس کی تشکیل،بین الاقوامی معیار کے مطابق اس میں جدت لانے اور اسے معیار کے مطابق حیثیت دلانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
کیا بڑے نام اور مہنگی تنخواہوں والے پاکستان کرکٹ کو بلندیوں کی جانب گامزن کریں گے۔ڈومیسٹک کرکٹ سے ابھی کچھ حاصل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا اسی دوران اوپر تلے ہونے والی انتظامی تبدیلیوں کے بعد ہائی پرفارمنس سینٹر میں بھی نئی تقرریاں ہوچکی ہیں۔لیکنمسئلہوہی ہے کہ عام لوگوں کو ان تقرریوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ان کی دلچسپی تو پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی سے ہے اگر ٹیم جیتے گی تو ہر کوئی واہ واہ کرے گا۔پی سی بی کے بڑے ناقدین کی خاموش توپیں ،بورڈ حکام کے لئے نئی تبدیلی میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
لیکن یہ خاموشی کب تک رہتی ہے کیوں کہ شکیل شیخ اور ان کے ساتھی مستقبل میں اپنی تحریک کو تیز کرنے کو عندیہ دے رہے ہیں۔پاکستان کرکٹ کو ان تبدیلیوں کا فائدہ ہو یا نہیں لیکن خاموش میڈیا کے لئے اب بھی بہت مواد اور مصالحہ موجود ہے دیکھیں یہ مواد کس کے خلاف اور کب استعمال کیا جاتا ہے؟