دنیا بھر میں تخلیق ہونے والے ادب میں کئی اقسام اورا صناف ہیں، جن کے تحت عالمی ادب تخلیق ہو رہا ہے، ان میں سے فکشن کی ایک معروف صنف’’سائنس فکشن‘‘ بھی ہے، جس کے تحت ایسی کہانیاں لکھی جاتی ہیں، جن میں سائنسی کرشمے بیان کیے گئے ہوں یا مستقبل کے حوالے سے پیشن گوئیاں کی گئی ہوں، ٹیکنالوجی سمیت دیگر ایسے کئی موضوعات ہیں، جن پر مبنی سائنس فکشن ادب لکھا گیا ہے۔ مغرب میں اس حوالے سے ایک معروف امریکی ادیب’’فلپ کنڈرڈ ڈِک ‘‘ بھی ہیں، جنہیں عرفِ عام میں’’فلپ کے ڈِک‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ وہ عالمی طور پر سائنس فکشن کا بڑا نام ہیں۔ انہیں پڑھنے والے قارئین کی تعداد پوری دنیا میں موجود ہے، انہی کی کہانیوں سے متاثر ہوکر ہالی ووڈ میں نامور فلم سازوں نے ان کی کہانیوں کو اپنی فلموں کا موضوع بھی بنایا ہے۔
’’فلپ کے ڈِک‘‘ 16 دسمبر 1928 کو امریکا میں پیدا ہوئے اور 2 مارچ 1982 میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ اصل نام کے علاوہ، رچرڈ فلپس اور جیک ڈونلڈجیسے قلمی ناموں سے بھی لکھتے تھے۔ انگریزی زبان میں ناول، افسانے اور تحقیقی مضامین کے ذریعے اپنے تخلیقی خیالات کا اظہار کیا۔ سائنس فکشن کو محور بنا کر حیرت انگیز کہانیاں تخلیق کیں۔ انہوں نے مجموعی طور پر 44 ناول اور 121 افسانے اور مختصر کہانیاں لکھیں، جن میں سے زیادہ تر اپنے وقت کے تمام نمایاں سائنس فکشن رسائل وجرائد میں شائع ہوئیں۔
ان کی کہانیوں میں اکثر ایسے فلسفے اور تصورات کا تذکرہ ملتا ہے، جو آگے چل کر مستقبل میں درست ثابت ہوئے، ان کا تعلق سماجی اور ذہنی حرکیات و معاملات سے تھا بلکہ ان جیسے مغربی مصنفین کو پڑھ کریہ بھی پتہ چلتا ہے، ہمارے ہاں اردو زبان میں سائنس، مسٹری اور ٹیکنالوجی سمیت دیگر اس طرح کے موضوعات پر لکھنے والوں نے اپنی کہانیوں کے لیے خام مال، ایسے ہی مغربی لکھنے والوں سے مستعار لیا ہے، لیکن اس بات کا کبھی اعتراف نہیں کیا۔
کم عمری سے ہی مطالعہ کی طرف راغب ہونے والے فلپ کے ڈک نے 1951 میں، جب وہ صرف 22 سال کے تھے، اُس وقت ان کی پہلی کہانی ایک سائنسی جریدے کی زینت بن چکی تھی۔ 1962 میں ان کا شائع ہونے والا ناول’’ایک بڑے قلعہ میں قید آدمی‘‘ سے انہیں شہرت ملی، یہ ناول متبادل تاریخ کے بیانیے کی شاندار مثال تھا، اس ناول میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ اور اس میں شرکت کرنے والے ممالک کے بارے میں منفرد انداز میں لکھ کر اسے کہانی میں ڈھالا۔ فکشن میں اس انداز کو ’’متبادل تاریخ‘‘ کہا جاتا ہے۔ بہت جلد ہی وہ تاریخ کے موضوع سے سائنس پر منتقل ہوگئے اور پھر آنے والے برسوں میں یادگار سائنس فکشن پر مبنی ناول لکھے اور اسی صنف میں خوب نام کمایا۔
ان کی بہت ساری مشہور کہانیوں میں سے ایک ’’اقلیتی رپورٹ‘‘ تھی، جو 1956 میں پہلی مرتبہ امریکی سائنسی جریدے’’فینٹیسٹک یونیورس‘‘ میں شائع ہوئی۔ اس کہانی کا مرکزی خیال یہ تھا، مستقبل کی دنیا کیسی ہوگی اور اس دنیا میں ہونے والے جرائم کی خبر بھی قبل از وقت مل جایا کرے گی، ایسی ٹیکنالوجی اور طریقے ایجاد ہوچکے ہوں گے، جن کی مدد سے مستقبل کا حال جاننا کچھ مشکل نہ ہوگا۔ 50 کی دہائی میں لکھی جانے والی اس کہانی میں جو کچھ بیان کیا گیا، اس میں سے بہت ساری چیزیں آگے چل کر درست ثابت ہوئیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کہانی کا مصنف اپنی تخلیقی حِس اور مشاہدے میں کتنا دوربیں تھا، اُس نے کئی دہائیاں پہلے سائنس کی ترقی اور چال ڈھال کو بھانپ لیا تھا۔ یہ کہانی اس بات کا قوی ثبوت ہے۔
’’فلپ کے ڈِک‘‘ کی اکثر کہانیوں پر امریکی ٹیلی وژن چینلوں نے ڈرامے بنائے، ویڈیو گیمز بھی بنیں اور ہالی ووڈ میں فلمیں بنانے کا سلسلہ تو اب تک جاری ہے۔ کئی دہائیوں کے بعد، اس کہانی پر مبنی فلم’’مائنریٹی رپورٹ‘‘ بنائی گئی اور 2002 میں ریلیز ہوئی۔ اس میں 2054 کا وقت دکھایا گیااور اداکاروں کے علاوہ ، اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ، فلم کا کوئی منظر تکنیکی طور پر غلط نہ ہو، اسی لیے فلم ساز نے مستقبل کے تناظر میں اپنے اپنے شعبوں پر مہارت رکھنے والے سائنسدانوں اور ماہرین کو اس کہانی میں رنگ بھرنے کے لیے ایک چھتری تلے جمع کیا۔
اس کہانی پر فلم بنانے کا فیصلہ ،ہالی ووڈ کے معروف فلم ساز’’اسٹیون اسپیل برگ‘‘ کا تھا۔ انہوں نے ’’ٹام کروز‘‘ جیسے باصلاحیت اداکار کے ہمراہ اس مشکل موضوع پر فلم بنائی، جس میں اگلے پچاس برس میں دنیا کیسی ہوجائے گی، اس کو سینما کی پردہ اسکرین پر دکھایا۔ اس فلم کو باکس آفس پر کامیابی حاصل ہوئی۔ فلم میں دیگر فنکاروں نے ، جن کا مختلف علاقائی پس منظر بھی تھا، اس میں کام کر کے اپنے ہمہ جہت فنکار ہونے کا ثبوت دیا، ان میں سویڈن سے تعلق رکھنے والے اداکار’’میکس وون سیڈو‘‘ آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے اداکار’’کولن فیررل‘‘ انگلستان سے تعلق رکھنے والی اداکارہ’’سمانتھا مورٹن‘‘ اور’’نیل مکڈونا‘‘ سمیت کئی امریکی فنکار شامل ہیں۔ یہ سب ہالی ووڈ کے جانے پہچانے فنکار بھی ہیں۔
فلم ساز نے کہانی میں کچھ تھوڑے بہت ردو بدل کیے، کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور گرافکس کا بھرپور استعمال کیا، جس کی وجہ سے یہ کہانی جدید سینما میں شاندار اضافہ ثابت ہوئی، لیکن اس کا سہرا مصنف کے سر جاتا ہے، جس نے ایک انوکھی کہانی کو تخلیق کیا اور اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی وہ فلمسازوں اور قارئین کے لیے نئی اور منفرد تھی، کیونکہ اس کہانی پر بننے والی فلم میں بیک وقت سائنس فکشن، ٹیک نوائر، ہووڈنٹ اور تجسس کے قلمی و فلمی رنگ موجود تھے، جس نے شائقین کو فلم دیکھتے ہوئے اپنے اتارچڑھائو میں غرق کرلیا۔ اسی وجہ سے فلم ساز اور مصنف دونوں کامیابی کے مستحق ٹھہرے۔
اس کا اسکرین پلے’’اسکاٹ فرینک‘‘ اور’’جون کوہن‘‘ نے لکھا تھا، جبکہ فلم کے موسیقار’’جون ولیمز‘‘ تھے۔ اس فلم کو پوری دنیا میں فلم بینوں نے پسندیدگی عطا کی۔ یہ سب ایک انوکھی اور منفردکہانی کی بدولت ممکن ہوا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگ سکتا ہے کہ کہانی کو فلم کے پردے تک لانے میں فلم ساز کو دس سال لگے، تب کہیں جا کر یہ فلم بننا ممکن ہوئی۔
ایسی کہانیوں پر فلم بنانا ایک چیلنج ہوتا ہے، جس کو اسٹیون اسپیل برگ نے قبول کیا، جو مشکل موضوعات پر فلمیں بنانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ کاش کبھی ایسا بھی ہو، ہمارے فلم ساز بھی اس طرح کی کہانیوں پر فلمیں بنائیں اور دنیا میں پاکستانی سینما کا نام روشن کریں، ہنوز دلی دور است، لیکن امید پر دنیا قائم ہے۔