• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان اور افغانستان دنیا میں دو ایسے ملک باقی رہ گئے ہیں جہاں پولیو وائرس آج بھی موجود ہے۔ 44برس کی طویل تگ و دو کے بعد دسمبر 2018میں پولیو کیخلاف مہم کو فیصلہ کن قرار دیا گیا تھا کہ اس کی تکمیل کے بعد ملک میں پولیو کا کوئی کیس باقی نہیں رہے گا۔ اس وقت اس کے کیسوں کی تعداد بتدریج کم ہوتے ہوئے صرف اٹھارہ پر آ گئی تھی تاہم شومئی قسمت کہ اگلے ہی برس (2019میں) وائرس نے پھر سر اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے پولیو کے 147کیس اور پھر 2020میں اب تک پانچ مہینوں میں مزید 49کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس صورتحال کے تناظر میں عالمی تنظیم گلوبل ڈویلپمنٹ فائونڈیشن نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث ملک بھر سے پولیو مہم کے ختم ہونے سے پاکستان میں چار کروڑ بچوں کو ویکسین نہیں دی جا سکی جس سے مستقبل میں اس کے کیسوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافے کا امکان ہے۔ یہ صورتحال من حیث القوم ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ گھر میں ایک فرد کا معذور ہوجانا پورے کنبے پر اثر انداز ہوتا ہے جبکہ یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ یقیناً کورونا کی موجودگی میں یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے ہمیں بہرصورت نمٹنا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ دیہات پر مشتمل ہے جہاں صحت و صفائی کی کوئی ضمانت نہیں اور یہی صورتحال پولیو وائرس کے پھیلائو کی بنیادی وجہ ہے اسی طرح بیشتر شہری آبادیوں میں فراہمی و نکاسی آب میں تمیز کرنا بھی مشکل ہے۔ مغربی ملکوں میں پولیو کے خاتمے میں ویکسین سے زیادہ حفظانِ صحت کے اصولوں پر کاربند ہونا بنیادی وجہ بنا۔ ان حالات میں جب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ہمیں کورونا کے ساتھ رہنا ہے جس کے لئے حکومت نے ایس او پیز کے ذریعے لاک ڈائون بھی بڑی حد تک ختم کر دیا ہے اس کے بعد ضروری ہوگا کہ انسدادِ پولیو مہم کو بلاتاخیر موثر بناتے ہوئے اسے پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے۔

تازہ ترین