آج پاکستان وسیع پیمانے پر ہونے والی بدعنوانی کے عوض تباہ حال کھڑا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پنج سالہ دور پاکستان کی تاریخ کا بدترین دور تھا، جہاں 18کھرب سے زائد روپوں (180/ارب ڈالر) کی لوٹ مار ہوئی۔ بدعنوان ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا شمار 45ویں نمبر سے اب 35ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ اسی دور میں درجنوں بدعنوانی کے بڑے بڑے مقدمات درج ہوئے جن میں دو وزیرِ اعظم شامل ہیں۔ 45/ارب روپے کی ہیرا پھیری کا ”رینٹل پاور پلانٹ کا منصوبہ“ 20/ارب روپے کی پاکستان اسٹیل میں بدعنوانی۔150/ارب روپے کے ای ایس سی میں۔ 8/اربNICH میں۔ اس کے علاوہ PIA، ریلوے، NICL ،OGRA،CNG درآمد کیس، حج اسکینڈل،400/ ارب روپے کا PSO کیس اور بڑی تعداد کے دیگر مقدمات میں نیلم جہلم منصوبہ، OGDCL، CDA ، NHA، SSGCL ، SNGPL، واپڈا، پنجاب بینک وغیرہ کے کیس شامل ہیں۔ یہ تو صرف چند مثالیں ہیں ان گھٹالوں کی جبکہ ایک کثیر المقدار رقم جو زمینی گھپلے اورFBR کی نظر ہو چکی ہے وہ الگ ہیں۔ غریب عوام بھوک اور افلاس سے مر رہے ہیں یا پھر ڈکیتیوں اور اغوا برائے تاوان کی طرف راغب ہو رہے ہیں اور حکام بیرونِ ممالک اپنے لئے محلات تعمیر کر رہے ہیں اور غیر ملکی بینکوں میں عوام سے لوٹا ہوا مال جمع کرارہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری فوج اور ملک کی اعلیٰ عدالت کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے لیکن وہ یہ سب کچھ بے بسی سے دیکھ رہے ہیں جبکہ ملک کو بڑے ہی منظم طریقے سے برباد کیا گیا ہے۔
12دسمبر2012ء میں NABکے چیئرمین نے ایک پریس کانفرنس میں اعتراف کیا کہ بدعنوانی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اس کا تخمینہ10سے12/ارب روپے یومیہ تک جا پہنچا ہے۔ مکمل سرکاری شعبوں اور دیگر سرکاری اداروں کے سربراہوں کی تعیناتی میں مکمل آزادی ہونے کی وجہ سے وزیراعظم اور دیگر”معزز“ وزراء نے ان اداروں میں ایسے چور اور لٹیرے سربراہان تعینات کئے جو نہ صرف لوٹ مار کا نذرانہ انہیں بھی پیش کریں بلکہ قانونی تحفظ بھی فراہم کریں۔ پاکستان کی اقتصادی بدحالی کا واضح ثبوت یہ ہے کہ قومی قرضے گزشتہ پانچ سالوں میں دگنے سے بھی زائد ہو گئے ہیں اور پاکستانی روپے کی مالیت جو کہ 2008ء میں 60روپے تھی گھٹ کر حال ہی میں100روپے تک جا پہنچی ہے۔ ان پانچ سالوں کے دوران اس وسیع پیمانے کی بدعنوانی کے خلاف2 سابق وزرائے اعظم پر تحقیقات چل رہی ہیں۔سپریم کورٹ اپنے تئیں مستقل نہ فتح ہونے والی جنگیں لڑنے میں مصروف ہے لیکن اپنے فیصلوں کی بجاآوری میں بے بس نظر آتا ہے۔ صرف فوج ہی آج ملک کو تباہی سے بچا سکتی ہے لیکن وہ بھی اس بیمار جمہوریت کو نہیں سنبھال رہی۔ موجودہ جمہوری عمل سے صاف شفاف نظام کی کوئی امید رکھنا احمقانہ خواب سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جمہوریت صرف اسی وقت کارگر ثابت ہو سکتی ہے جب مناسب تعلیم کو پہلی ترجیح دی جائے گی۔ جب عوام پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہوں اور یہ پرکھ سکیں کہ مختلف سیاسی تنظیموں کا کیا منشور ہے۔ یہ اختیار اس جاگیردارانہ ذہنیت کے حامل حکام نے تعلیم پرکم سے کم خرچ کر کے اُن سے چھین لیا ہے اور انہیں ذہنی طور پر بیمار کر دیا ہے۔ پاکستان اپنی مجموعی پیداوار (GDP)کا صرف 1.8% حصہ تعلیم پر خرچ کرتا ہے لہٰذا پاکستان کا شمار تعلیم کی مد میں دنیا کے سب سے کم خرچ کرنے والے سات ممالک میں ہوتا ہے۔ ناخواندہ عوام بھیڑ بکریوں کی طرح ہوتے ہیں جنہیں بآسانی ہمارے جاگیردار آقا اپنی مرضی سے ہانکتے ہیں اور اپنے قابو میں رکھتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن (HEC) پر گزشتہ تین سال سے پے در پے حملے اور بجٹ کو آدھا کرنے کا فیصلہ اسی جاگیردارنہ سوچ کی مہربانی ہے۔ ان حملوں میں وقاص اکرم شیخ سرفہرست تھے جو پاکستان کے وزیرِ تعلیم تھے۔ اب پتہ چلا ہے کہ موصوف کے اسکول کے سرٹیفیکیٹ جعلی تھے اور وہ فراڈ کر کے کابینہ میں شامل ہوئے تھے۔ اب بڑے تپاک سے وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے ہیں۔
پاکستان تیزی سے نشیب کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک خوشحال مستقبل کا واحد ذریعہ صرف اور صرف تعلیم ہے۔ بھارت نے اپنے موجودہ پنج سالہ منصوبے میں اعلیٰ تعلیم پر 120,000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارتی ادارہ برائے تکنیکی تعلیم(ITTs) کی تعداد7سے بڑھ کر 16ہو گئی ہے۔200نئی جامعات اور اعلیٰ تحقیق و تکنیک کے40مراکز قائم کئے جا رہے ہیں جبکہ پاکستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے برسراقتدار آتے ہی پہلا قدم یہ اُٹھایا کہ غیر ملکی اشتراک سے قائم ہونے والی سات انجینئرنگ جامعات کے منصوبوں کو منسوخ کر دیا حالانکہ تین ماہ بعد ان کی جماعتیں پاکستان کے مختلف شہروں میں شروع ہونے والی تھیں۔ اسی طرح صوبائی دارالحکومتوں میں چار قانون کی جامعات کے قیام کے منصوبے کو بھی منسوخ کر دیا گیا۔ اعلیٰ تعلیم ، سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں کو تباہ کرنے کا یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشنHEC کو تحلیل کرنے کے لئے بارہا حملے کئے گئے اور ہر بار میں نے اعلیٰ عدالت سے رجوع کر کے اس کو تباہ ہونے سے بچایا۔ اس نیک مقصد میں محترمہ ماروی میمن، محترم اعظم سواتی اور پروفیسر غلام عباس میانہ کی کاوشوں کا میں بے حد مشکور ہوں جنہوں نے سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے میں میرا ساتھ دیا۔
پاکستان کا موجودہ نظام جسے ”جمہوریت“ کا نام دیا جاتا ہے یہ واقعی بہترین ”انتقام“ ثابت ہوا ہے… پاکستان کے عوام کے خلاف انتقام۔ پاکستان کی بقا کی واحد امید صرف اور صرف جمہوری نظام میں بڑی تیزی سے بنیادی تبدیلیاں لانے میں ہی ہے۔ بغیر مناسب انتخابی اصلاحات کے پرانے انتخابی عمل کو دہرانا خودکشی سے کم نہیں۔ سب سے پہلے نقائص سے پاک ایسا نظام رائج کیا جانا چاہئے تاکہ صرف قابل، ایماندار اور عمدہ خیالات کے لوگوں کو اقتدار میں لانے کو یقینی بنایا جا سکے۔ پارلیمینٹ کا کردار محض قانون سازی اور نگرانی تک ہی محدود رہنا چاہئے۔ اراکینِ پارلیمینٹ کو وزراء نہیں بننے دینا چاہئے۔ اس طرح پارلیمانی رکنیت حاصل کرنے کیلئے جو بدعنوانی کی جاتی ہے اس کے لئے کوئی کشش موجود نہیں رہے گی۔ ملک کے چیف ایگزیکٹو کو مکمل آزادی ہونی چاہئے کہ وہ اپنی کابینہ کے وزراء کے لئے ملک بھر میں موجود قابل ترین افراد کا انتخاب کر کے ٹیم مکمل کرے۔ سرکاری ادارے مکمل طور پر حکومتی عمل دخل سے آزاد ہونے چاہئیں تاکہ کوئی بھی بدعنوان رہنما اپنی کٹھ پتلیوں کو ان کا سربراہ مقرر کر کے اپنے حکم کے مطابق نہ چلا سکے۔ افسوس آج قائد اور اقبال کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔ حتیٰ کہ اعلیٰ ترین فوجی افسران تک کو مختلف طریقوں سے قابو میں کر لیا گیا ہے۔ اسی لئے وہ اس طرف دھیان ہی نہیں دیتے جبکہ ملک ایک سست موت مر رہا ہے۔انتخابات تقریباً سر پر آکھڑے ہوئے ہیں اور ہم سب مناسب انتخابی اصلاحات کے بغیر ہی انتخابات کی تیاری کر رہے ہیں۔ انتخابات لڑنے کے خواہشمند افراد کی اسناد و دیگر معلومات کی مناسب جانچ پڑتال کے لئے کم از کم60 سے90دن ضروری تھے لیکن الیکشن کمیشن کو اس نہایت اہم کام کیلئے بمشکل صرف 7 دن دیئے گئے ہیں۔ یہ پاکستانی عوام کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہے۔ ان اصلاحات کو بروئے کار لانے کے لئے الیکشن کمیشن کے پاس پانچ سال کا وقت موجود تھا لیکن اُس دوران کچھ بھی نہ کیا گیا اور اب آخری وقت میں صرف دکھاوے کے لئے حرکت میں آ گئے ہیں۔ وہ بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی پُرجوش تقریروں اور اسلام آباد تک لانگ مارچ کی وجہ سے۔ جب تک انتخابی اصلاحات مکمل طور پر درست طریقے سے لاگو نہیں ہوں گی تب تک وہی بدعنوان لوگ دوبارہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن بنیں گے اور یہی لوٹ مار کا بازار گرم رہے گا۔ پاکستان میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایماندار اور قابل افراد کی کمی نہیں ہے۔ اگر وہ ان انتخابات میں حصہ لینے کی غلطی کر بھی بیٹھیں تو بھی انتخابات جیتنے کا موقع حاصل نہیں کر پائیں گے جب تک کہ الیکشن کمیشن نہایت اہم انتخابی اصلاحا ت متعارف نہیں کراتا جس کے ذریعے ناموزوں امیدواروں کے نام خارج کر دیئے جائیں اس میں(1) امیدوار میں کن خصوصیات کا موجود ہونا ضروری ہے اس کیلئے مناسب فارمولا سازی کرنا ہو گی۔ (ب) انتخابی عمل سے پہلے امیدواروں کی نہایت باریکی سے جانچ پڑتال کرنی ہو گی۔پاکستان کا مستقبل ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ ہمیں اس نام نہاد ”جمہوریت“ کے تسلسل کی قطعی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ایسی جمہوریت کی موجودگی میں ملک اگلے پانچ سال تک نہیں بچے گا۔ ہمارے انتظامی نظام میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ ان غلطیوں کو دوبارہ نہ دہرایا جائے جنہیں پاکستان پہلے جھیل چکا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ اور فوج کو ان بدمعاش اور بدعنوان لوگوں کو پکڑنے اور کیفرِ کردار تک پہنچانے کیلئے ملکی معاملات میں مداخلت کرنا پڑے گی۔ جنہوں نے ملکی خزانے کو بری طرح سے لوٹ مار کر کے برباد کیا ہے اور ایسی سخت سزائیں دینی ہوں گی کہ آئندہ مستقبل میں کسی رہنما کو اس حالیہ تاریخ کو دہرانے کی ہمت نہ پڑے۔پاکستان جل رہا ہے۔ ہمیں عمل کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔