• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعدیہ رفیق کو عطیہ شدہ گردے نے صحت مند زندگی دیدی

 بری(خورشید حمید)ایک ماں جسے خطرہ تھا کہ وہ گردہ فیل ہونے کے باعث زندگی گزارنی مشکل تھی کو عطیہ شدہ گردہ لگانے سے اس کی زندگی معمول کے مطابق ہوگئی ہے - 36 سالہ سعدیہ رفیق کو گردے کے معاملے میں صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اسے ”پخوڑ“ پڑنے لگے - 2011 ءتک اس کے صرف دس سے پندرہ فیصد فنکشن کام کرر ہے تھے اور اسے لگاتار ڈالسز پر رکھا گیا جبکہ 2012ءمیں وہ ٹرانسپلانٹ کی لسٹ میں انتظار کرنے لگی- جب سعدیہ کی شادی کے بعد صحت پہلے پہل خراب ہوئی تو اسے معدے میں درد رہنے لگا لیکن وہ گھبرائی نہیں کیونکہ وہ قبل ازیں ایک صحت مند زندگی گزار رہی تھی - پہلے تو ڈاکٹرمسئلے کی تہہ تک نہ پہنچ سکے تاہم جب رائل بلیک برن ہسپتال میں اس کا سکین کیا گیاتو علم ہواکہ اس کا ایک گردہ دوسرے گردے سے چھوٹا ہے -سعدیہ کے بقول یہ اس کے لئے بہت بڑا شاک تھا -بعد کے ٹیسٹوں میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس کا پیشاب نارمل طریقے سے نہیں آ رہا -ان حالات میں زندگی سعدیہ کےلئے مزید مشکل ہو گئی کیونکہ ڈاکٹروں کو اس کے لئے بہت سے ٹیسٹ کرنے تھے - 25 گولیاں روز کھانے کے بعد اس کی توانائی بھی کم ہو گئی اور زندگی بد سے بدتر ہوتی گئی -2011 ءتک سعدیہ کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہ تھا کہ وہ باقاعدگی سے ڈالسز کروائے - سعدیہ رفیق نے بحیثیت ٹیچر اپنی جاب بھی چھوڑ دی اور اپنی زندگی اپنے شوہر 38 سالہ طاہر اور اپنے بیٹے اویس کے ساتھ رہنے لگی ۔زندگی اس کے لئے ایک مسئلہ بن گئی جبکہ حالات بہتر ہوتے نظر نہیں آ رہے تھے -تاہم مئی 2020ءمیں قانون تبدیل ہونے کے بعد کہ ”کسی بھی مرنے والے ایسے بالغ شخص کے اعضاءعطیہ کر لئے جائیں گے جو ایسا نہ کرنے کی وصیت نہ کرے“ - اس کو امید لگ گئی - سعدیہ کو مانچسٹررائل انفرمری میں کسی نامعلوم شخص کا عطیہ کیا گیا گردہ لگا دیا گیا سعدیہ رفیق نے کہا کہ اس عطیہ کرنے والے نیک دل شخص کی وجہ سے اس کی زندگی آسان ہو گئی ہے۔ اس کے پاس الفاظ نہیں کہ وہ اس شخص اور اس کے خاندان کے لوگوں کا کس طرح شکریہ ادا کرے - دریں اثناءاس نے خود کو گھر میں ہی علاج کرنا شروع کر دیا اور گھنٹوں مشینوں پر رہتی جس سے اس میں مزید کمزوری ہو گئی تاہم اس کے شوہر نے اس کی ڈھارس بندھائی - گو خاندان نارمل طریقے سے زندگی گزارنے سے قاصر تھا - تاہم اگست 2012 ءمیں سعدیہ کو انتظارکی لسٹ میں شامل کر لیا گیا لیکن اس کے لئے کسی ایشیائی بیک گراؤنڈ والا گردہ چاہئیے تھا - این ایچ ایس کے مطابق ایشیائی اور سیاہ فام مریضوں کو عام لوگوں کی نسبت زیادہ دیر تک انتظار کرنا پڑتا ہے تاکہ ان کے جسم کی ضرورت کے مطابق گردہ مل سکے۔ این ایچ ایس کے بلڈ اور ٹرانسپلانٹ کی اطلاع کے مطابق 2019 ءمیں یہ بات سامنے آئی کہ 42 فیصد لوگ اپنے اعضاءعطیات کرنے کے لئے تیار ہیں تو یہ بات بھی سامنے آئی کے 50 فیصد لوگ کالے اورایشیائی کمیونٹی سے ہیں -سعدیہ نے کہا کہ وہ مسلمان ہیں ا ور اس حوالے سے بعض فتاویٰ بھی موجود ہیں لیکن وہ آج کے دور میں مشکل ہیں۔ گیارہ ماہ کے انتظار کے بعد اسے گردہ لگا دیا گیا اور اب وہ ہنسی خوشی رہ رہی ہے - اس نے ان لوگوں کا بھی شکریہ اد ا کیا جن لوگوں نے اس کے لئے دعائیں کیں-
تازہ ترین