• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیر منطقی بیانات

بیماری پھیلنے کا سبب کچھ بھی ہو سکتا ہے، اگر پوری دنیا کے ماہرین کہہ رہے ہیں اور سائنس نے عقلی، تحقیقی بنیادوں پر ثابت کر دیا ہے کہ کورونا وائرس اکٹھ کرنے سے پھیلتا ہے تو پھر لوگوں کا کہیں بھی جمع ہونا، اس کے پھیلائو کا باعث بن سکتا ہے، بہرحال وزیراعظم بہت سو ں سےبڑھ کر آگہی رکھتے ہیں اس لئے مستند ہے ان کا فرمایا ہوا، ایک طرف یہ کہنا کہ احتیاطی پابندیوں کی خلاف ورزیوں پر کاروبار بند کر دیں گے دوسری جانب مجمع لگانے کی کھلی چھٹی، یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے، ایس او پیز پر ٹائیگر فورس کا عملدرآمد کامیاب ہونے کا منظر دیکھنا ہو تو سڑکوں، بازاروں، بینکوں پر لمبی قطاروں کو دیکھ کر حقیقت حال معلوم کی جا سکتی ہے، بند کمروں میں ایک میز پر بیٹھ کر غائبانہ بیانات و اعلان پر عملدرآمد یعنی رٹ آف گورنمنٹ کا احوال کسی سے چھپا ڈھکا نہیں،رہی بات، 80ارب روپے کم ہونے کی بات تو یہ ریونیو اکٹھا کرنے والوں کی حسن کارکردگی کے باعث کورونا سے پہلے بھی تھا اور رہے گا۔ مہنگائی کا عالم بھی دیکھ لیجئے کہ جو قیمتیں حکومت نے مقرر کی ہیں کسی ایک پر بھی اشیاء دستیاب نہیں، ہر دکاندار کی اپنی اپنی حکومت اپنی رٹ ہے اور ان کو پوچھنے والا کوئی ہمیں تو نظر نہیں آیا۔

٭٭٭٭

اتحاد کی ضرورت ہے

جب قومی و ملکی سطح پر کوئی آفت آئے تو مقابلہ اختلافات سے آزاد ہو کر ہی کیا جا سکتا ہے یہ نہیں کہ ان نکات کو نہ اپنایا جائے جن پر مل جل کر ہی دلدل سے نکلا جا سکے، اگر ہر گزرتے دن کے ساتھ کورونا میں اضافہ ہو رہا ہے، تو یہ کہنا کہ لاک ڈائون نہیں ہو گا، اوکھلی میں سر پھنسانے کے مترادف ہے، حالات لاک ڈائون کی طرف جا رہے ہیں، کیا بھوک سے بچ کر کورونا سے بچائو ممکن ہے؟ یہ درست ہے کہ یہ وبا جس کے خاتمے بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا کاروبارِ زندگی کو روک دینا مرنے سے پہلے مرنے کو دعوت دینا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ احتیاط کا دامن چھوڑنے سے زندگی کی گاڑی چھوٹ سکتی ہے، ابھی تک احتیاطی تدابیر قومی سطح پر کہیں نظر نہیں آتیں، ہاتھ کنگن کو آر سی کیا میں نے اپنی گلی میں کسی کو ماسک پہنے گھر سے نکلتے نہیں دیکھا، اگر ہم کیمیکل ڈور بنانے والوں کو نہیں پکڑ سکتے تو ایس او پیز پر عملدرآمد کیسے کرا سکتے ہیں، ایک تجویز ہے کہ 3دن سچ مچ کا لاک ڈائون نافذ کیا جائے اور تین دن اٹھا دیا جائے تو ممکن ہے عوام کی تربیت ہو جائے انہیں احتیاط کی عادت ہو جائے، مگر شرط یہ ہے کہ تین روزہ لاک ڈائون ایک نمبر ہو،ہمارے ہاں مکمل نفاذ ہی کا تو فقدان ہے جس کا ذمہ دار حکومتی مشینری اور مشین مین ہے، ہم اہل سیاست و حکومت کو خدا کا واسطہ دیتے ہیں کہ اپوزیشن اور حکمران کچھ عرصے کے لئے سارے اختلافات، مقدمات اور پکڑ دھکڑ کو چھوڑ کر صرف کورونا وائرس کے خلاف جہاد کو بھی آزما کر دیکھ لیں کیا پتا اللہ تعالیٰ کرم فرما دے۔

٭٭٭٭

کورونا سیلاب گدا گران

ان دنوں مسلسل گھروں کی ڈور بیلز بجتی رہتی ہیں، ہر بیل پر ایک وکھری ٹائپ کے گدا گر سے ملاقات نہ تھمنے والا عذاب ہے، یہ سب پیشہ ور ہوتے ہیں اور کورونا نے ان کی گدا گری میں اچھی خاصی تاثیر پیدا کر دی ہے، میرے گھر کی گھنٹی میرے اوسان خطا کر دیتی ہے، شاید سب سے زیادہ بجتی ہے، اس لئے کہ میں ہر ایک کو خوب جھڑکتا ہوں اس لئے انہوں نے میرا گھر مجھ سے بدلہ لینے کے لئے تاڑ رکھا ہے، اب تو ایک عادت سی ہو گئی ہے اس لئے جب گھنٹی بجنے میں وقفہ لمبا ہو جائے تو بے اختیار زبان پر یہ گیت آ جاتا ہے؎

اک گھنٹی وجا کے جگا سوہنیا!

حیرانی ہے کہ مانگنے والوں میں اکثریت چھوٹی چھوٹی بچیوں کی ہوتی ہے، شاید ان کے باپ کا نشہ ٹوٹتا ہے تو وہ ان بچیوں کو پیسے مانگنے کے لئے مجبور کرتا ہے، آج ایک نہایت خوش لباس نوجوان نے بیل کی اور میرے ہاتھ میں ایک لفافہ تھما دیا کھول کر پڑھا تو چھپی ہوئی تحریر کا خلاصہ یہ تھا کہ باپ آخری سانسیں لے رہا ہے علاج کے لئے کچھ مدد کر دیں، اس چھپے ہوئے بھیک نامے میں کوئی رابطہ نمبر یا نام پتہ نہ تھا، میں اکثر خواجہ سرا کو پہچان لیتا ہوں مگر پہلی بار ایک ایسے خواجہ سرا نے گھنٹی بجا کر بلایا جسے پہچاننے میں مجھے خاصی دیر لگی کیونکہ وہ ایک بانکی سجیلی دوشیزہ جیسی لگ رہا تھا، بہرحال اس کے ہاتھ میں ایک 20روپے کا نوٹ تھما کر حیرت زدہ واپس آ گیا، کورونا وائرس کی آڑ میں گداگری عروج پر ہے،وہ تمام گدا گر جو چوراہوں پر سرخ بتی کے دوران بھیک مانگتے تھے انہوں نے گلیوں محلوں کا رخ کر لیا ہے، حکومت ان کا بھی کوئی سدباب کرے۔

٭٭٭٭

نوکیلی

....Oچمکیلی، شرمیلی کا ذکر تو اکثر سنتے ہیں مگر نوکیلی کبھی دیکھی نہ سنی، نوکیلی ضروری نہیں کہ کوئی چبھنے والی خاتون ہی ہو یہ کوئی بات بھی ہو سکتی ہے ، ہم اکثر محفلوں میں نوک دار باتیں سنتے ہیں مگر اب تو ارباب حکومت بھی نوکیلی باتیں کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے، نوکیلی بات کو آپ سیاست بھی کہہ سکتے ہیں، اب سیاستدان لوگوں کے حالات سنوارنے کے بجائے اپنی نوک جھونک سنوارتے ہیں، اور خواتین سیاستدان تو ساتھ اپنی نوک پلک بھی خوب سنوارتی ہیں، اس لئے بڑے مہنگے بیوٹی پارلرز کے مزے ہیں،

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن:بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان میں کورونا بُری طرح پھیلنے کا اندیشہ ہے۔

اگر مذکورہ تینوں ملکوں کو ضم کر کے ان کا نام پاکستان رکھ لیا جائے تو بہت بڑے خطے کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ جب تین ملکوں کا ایک امیر ملک وجود میں آئے گا تو کورونا کو بری طرح شکست دی جا سکتی ہے، کیونکہ امیر لوگ ہی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں، پھر کوئی بھارتی ڈرون بھی نہیں گرے گا، جنگ کے امکانات بھی ختم ہو جائیں گے وسائل کی فراوانی ہو گی اور ہمارے وینٹی لیٹرز بھی حاضر ہوں گے۔

تازہ ترین