• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریل گاڑی تیزرفتاری سے دوڑ رہی تھی ۔یوں لگ رہا تھا،پٹری کسی نہ ختم ہونے والے راستے پر بچھی تھی ۔ وہ بھی اپنی بیوی اور دیگر مسافروں کے ساتھ بیٹھا سفر سے لُطف اندوز ہو رہا تھا ۔ مسافروں سے اس کی اچھی سلام دُعا ہو گئی تھی ۔وہ ایک خوبرو نوجوان تھا ۔بڑی بڑی آنکھیں ،دل کش خدّو خال اور سر پر سیاہ گھنے، قدرے گھنگھر یالے بال ۔ اس کے قہقہے اونچے اور ہنسی دل موہ لینے والی تھی ۔ مسافر اس کی موجودگی سے خوشی محسوس کر رہے تھے ۔وہ سب ایک ان جانی منزل کے مسافر تھے ۔منزل کب آئے گی، کسی کو بھی یقینی علم نہیں تھا ۔

ریل گاڑی کے شیشوں سے باہر کے مناظر بھی نظر نہیں آرہے تھے، اس لیے وہ سب آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔اس نے ایک زور کا قہقہہ لگایا اور داد طلب نظروں سے ارد گرد دیکھنا چاہا ہی تھا کہ کسی نے اس کا کندھا دبایا ۔وہ حیرت سے پلٹا اور اس کی حیرت منجمد ہو گئی، جب کندھے پر ہاتھ رکھنے والے نے کہا ’’تمہارا اسٹیشن آگیا ہے، تمہیں یہیںاترنا پڑے گا ۔‘‘ ’’ابھی…یہاں…؟‘‘ وہ مجسّم سوالیہ نشان تھا ۔ ’’پر مَیں نہیں اُتر سکتا، مجھے تو آگے جانا ہے۔

یہ میرا اسٹیشن نہیں۔ ‘‘اس نے روہان سے لہجے میں کہا۔’’تمہارا اسٹیشن آگیا ہے اور تمہیں یہیں اترنا ہوگا ۔ اس سفر میں کسی سے اس کی مرضی نہیں پوچھی جاتی ۔ اسٹیشن کبھی بھی آسکتا ہے ۔‘‘ کندھے پر ہاتھ رکھنے والے کا لہجہ سرد تھا ۔’’اور یہ میری بیوی ، بچّے ؟‘‘ ’’یہ سفر جاری رکھیں گے۔تمہیں اکیلے ہی اُترنا ہوگا ۔‘‘ ’’یہ کیا بات ہوئی ؟‘‘ اس کا دل چاہا وہ چیخے، چلّائے، لڑنا جھگڑنا شروع کر دے۔

’’تمہیں سفر کے شروع ہی میں بتا دیا گیا تھا کہ سفر کبھی بھی ختم ہو سکتا ہے اور جب کہا جائے گا، جس کا اسٹیشن آجائے گا ،اُسے اکیلے ہی اترنا ہوگا۔‘‘ ’’سنو !بس تھوڑی دیر اور بیٹھنے دو ۔ مَیں اچانک کیسے اُتر جاؤں وہ بھی اکیلے ۔مَیںاپنی بیوی سے بے انتہا محبّت کرتا ہوں،اُس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘ اس نے پہلو میں بیٹھی بیوی کو حسرت سے دیکھا ۔ریل کے باقی مسافر بھی اس کے بچھڑنے کی خبر سن کر افسردہ تھے۔

ہنستا کھیلتا ماحول انتہائی اداس ہو چکا تھا۔’’تمہیں تھوڑی مہلت دی جارہی ہے ۔ساتھ لے جانے والا سامان سمیٹ لو۔‘‘ ’’سامان ؟ کون سا سامان ؟ مَیں تو سب خرچ کر چُکا۔ مجھے تو یاد ہی نہیں تھاکہ کچھ بچانا بھی ہے ۔‘‘’’اگر ایسا ہے، تو تمہیں خالی ہاتھ ہی اُترنا ہوگا۔‘‘کندھے پر ہاتھ رکھنے والے نے کہا۔ ’’خالی ہاتھ…توکیا اسٹیشن پر کچھ مل جائے گا؟‘‘’’کچھ نہیں ،اسٹیشن پر کچھ نہیں ملے گا اور گھنے جنگل میں روشنی بھی نہیں ہو گی ۔روشنی بھی یہیں سے لے جانی ہوتی ہے ۔

اپنی پوٹلی اٹھاؤ اور دروازے پر پہنچ کر ریل گاڑی کے رُکنے کا انتظار کرو ۔ ہاں،تھو ڑے سے لوگ اترنے میں تمہاری مدد کریں گے۔ باقی یہیں سے ہاتھ ہلا دیں گے ۔جلدی کرو، سیٹی بج چُکی ہے ۔‘‘مسافر اُتر گیا ۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور پوٹلی میں حسرتیں ۔

بیوی،بچّے اس کے اچانک بچھڑنے پردل گرفتہ تھے ۔بہت سے مسافر دھاڑیں مار مارکر رو رہے تھے ۔ کندھے پر ہاتھ رکھنے والا ،کسی اور مسافر کی طرف جارہا تھا، اُسے اگلے اسٹیشن پر اتارنے کے لیے ۔وہ بہت حیران تھاکہ تھوڑی دیر پہلے اپنے ساتھی کے اچانک بچھڑنے پر رونے والے پھر سے خوش گپیوں میں مگن ہو گئے تھے۔

ان سب کی پوٹلیاں اُن کی بغل میں دھری تھیںاور قریباً خالی تھیں، مگرانہیں اُن کے بھرنے کی فکر تھی ،نہ اندھیرے جنگل میں راستہ دکھانے والی روشنی کی ۔عجیب لوگ ہیں ،اتنے بے فکر ۔اپنے ساتھی کے اترنے سے بھی سبق نہیں لیتے ،وہ بہت رنجیدہ تھا ۔اس کا رنج بجا تھا کہ اُسےا سٹیشن سے آگے اندھیرے جنگل کی خوف ناکی کا علم تھا ۔ اس کا دل چاہ رہا تھا،سارے مسافر تھوڑا یا زیادہ سامان سمیٹ لیں تاکہ انہیں مشکل نہ ہو ۔

اندھیرے جنگل میں وہ کیسے راستہ پا سکیں گے، کیسے پاؤں تلے بچھے کانٹوں سے بچ سکیں گے، پیاس سے سوکھی زبان کو تر کرنے کے لیے پانی کہاںسےلائیں گے کہ یہ نادان مسافر سفر ہی کومنزل سمجھ بیٹھے ہیں ۔ان میں سے اکثر کو اگلے سفر کی سختیوں کا اندازہ ہی نہیں اور کوئی انہیں یاد دلائے ،تو ان میں سے بیش تر ناراض ہو جاتے ہیں کہ’’ ہمیں تنگ نہ کرو، ہمیں کچھ یاد نہ دلاؤ۔‘‘ بھیجنے والے نے کتنی تاکید کی تھی ۔کتنے سمجھانے والے بھیجے تھے ۔ 

کتنی کتابیں بھی اتاریں۔فقط ایک بات سمجھانے کے لیےکہ ’’تمہیں واپس آنا ہوگا ،اپنا ہمیشہ کا گھر خود بنانا ہوگا ،اپنی مرضی کو میری مرضی کے تابع کرنا ہو گا ، ایمان کا چراغ دل میں روشن کرو، پوٹلی میں نیک اعمال کے سنہرے سکّے جمع کرو اور انتظار میں رہو کہ کب تمہارے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا جائے، ’’تمہارا اسٹیشن آگیا ہے۔‘‘

تازہ ترین