رُوئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے حقوق برابرہیں اور انسانیت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ نہ صرف بنی نوع انسان، بلکہ ہر جان دار کے حقوق ادا کیے جائیں۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں بعض افراد کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جاتا ہے،گویا انہیں انسان ہی نہیں سمجھا جاتا اور ایسا ہی ایک محروم و مظلوم طبقہ ’’Trangender‘‘ (خواجہ سرا) بھی ہیں۔ نہ جانے کیوں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ہر طرح سے صحت مند اور مکمل ہونے میں ہمارا کوئی کمال نہیں، یہ صرف اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہے۔ہم میں نہ جانے یہ غرورو تکبّر کیوں سرایت کرجاتا ہے کہ اگر ہم مکمل ہیں تو ہم بہتر ہیں اور کسی دوسرے میں کوئی کمی ہے، تو وہ کم تر ہے۔ جب اللہ کی نظر میں سب انسان برابر ہیں، اُس نے ان کے حقوق میں کمی نہیں رکھی، تو ہم کسی کو حقیر سمجھنے والے کون ہوتے ہیں۔
دیگر افراد کی طرح خواجہ سراؤں کی بھی کچھ بنیادی ضروریات ہیں، جن میں انتہائی بنیاد ی ضرورت خوراک، لباس اور چار دیواری ہے۔ ویسے تو ہمارے یہاں غرباء، مساکین کا کوئی پُر سانِ حال نہیں ، لیکن ضرورت پڑنے پر کم از کم معاشرے کے صاحبِ ثروت افراد ان کی مدد کو کھڑے ہوجاتے ہیں، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس تیسری جنس کی مدد، مالی معاونت، حکومت کرتی ہے اور نہ معاشرہ۔ نہ ان کے لیے ملازمت کے مواقع میّسر ہیں، نہ کاروبار کے۔ ریاست کے ہر شہری کی، بشمول خواجہ سرا ، بنیادی ضروریات کی تکمیل حکومت کی ذمّے داری ہے، لیکن جنہیں خود ان کے والدین نہیں اپناتے، تو اور کون اپنائے گا۔ ایسی صورتِ حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ جائیں تو جائیں کہاں ؟ یہ دُکھ کے مارے ، کم عُمری ہی سےاپنی بقا کی جنگ خود لڑنی شروع کر دیتے ہیں۔ بھیک مانگتے ہیں یا شادی بیاہوں میں ناچتے گاتے ہیں اور یوں ان کی دو وقت کی روزی، روٹی کا بندوبست ہوتا ہے۔
موجودہ حالات میں جب کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں معیشت کا پہیہ رُکا ہوا ہے، آمدنی کے حصول کے راستے قریباًبند ہو چُکے ہیں، تو پھر وہ لوگ جو پہلے ہی سے استحصال کا شکار ہیں،جن کی کوئی جمع پونجی نہیں ،وہ کیسے گزارہ کر رہے ہوں گے، یہ انتہائی اہم اور بنیادی سوال ہے۔ایسے میں خاص طور پر ٹرانس جینڈرز پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے بہت سے مسائل سے دوچارہیں۔ اس ضمن میں جب ٹرانس ایکشن الائنس ، خیبر پختون خواکی صدر ،فرزانہ سے بات کی گئی تو، ان کا کہنا تھا کہ ’’خواجہ سرا پاکستان بھر میں روزی روٹی ناچ گاکر کماتے ہیں، لیکن لاک ڈاؤن کے باعث پروگرامز نہیں ہو رہے،تو ان کی جانوں کے بھی لالے پڑے ہیں۔ حکومت کے احساس پروگرام میں بھی خواجہ سراؤں کو نظر انداز کیا گیا، ان کے پاس تو کوئی بینک بیلنس ،کوئی جائیدادیں بھی نہیں کہ مشکل وقت میں ان سے گزارہ ہوجائے۔ رکن صوبائی اسمبلی ،رابعہ بصری کے علاوہ کسی حکومت یا کسی حکومتی وزیر نے خواجہ سراؤں کی مدد نہیں کی۔صرف چند مخیّر حضرات ہی تھے، جو آگے بڑھے انہیں راشن دیایامالی مدد کی۔
حکومت کو چاہیےکہ ہمارے لیے الگ فنڈز مختص کرے ، تاکہ ہم بھی باعزّت زندگی گزار سکیں۔ وبا کے ان دنوں میں نہ جانے کتنے ہی خواجہ سرا بے گھر ہوگئےہیں۔ وہ رہائش گاہوں کے کرائے نہیں دے پارہے۔ جیب میں پیسے نہیں، راشن نہیں اور سَروں پہ چھت بھی نہ رہے تو گزارہ کیسے ہو۔ان حالات کے پیش نظر اب ہم نے فیصلہ کیاہےکہ ہم سڑکوںپر نکلیں گے ۔ ہم نے کئی مظاہرے کیے،جلوس نکالے کہ ہمیں نوکریاں دیں، لیکن کہیں سنوائی نہیں ہوئی ۔ اب ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ شہر میں کم ازکم فنکشنز کی اجازت دی جائے ، تاکہ ہم اپنی روزی روٹی کماسکیں اور بھوک سے نہ مریں۔
علاوہ ازیں، بزرگ خواجہ سرا ؤں کی زندگی بھی بہت سی مشکلات کا شکار ہے، ان کے لیے علیحدہ فنڈ ہونا چاہیے۔ پینشن کی طرز پر ان کے لیے ماہانہ آمدنی کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔اِس طرح بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں خواجہ سراؤں کا حصّہ اور حق کیوں نہیں،وہ تو ماں ،باپ کے ہوتے ہوئے بھی یتیم و یسیر ، بے گھر ، بے یارومددگار ہیں۔ ہمیں انسان سمجھا جائے ، ہمیں پاکستانی سمجھا جائے اور دیگر پاکستانیوں کو دی جانے والی تمام سہولتیں ہمیں بھی فراہم کی جائیں۔ ہم پر زندگی کیوںتنگ کی جا رہی ہے؟‘‘
ٹرانس جینڈرز کے قانونی تحفّظ کی بات کی جائے تو اس قانون سازی کو دو سال گزرنے کے باوجود خیبر پختون خوا میں خواجہ سرا ؤں کے لیے ــــ محفوظ گھروں کا قیام ممکن نہیں بنایا جا سکا اور نہ ہی تعلیم ِبالغاں سمیت مفت اور لازمی تعلیم کا قانون نافذ العمل ہو سکا۔ جس کی وجہ سے بہت سےخواجہ سرا آج بھی گرو کے استحصالی اڈّوں میں رہنے پر مجبور ہیں اور کم عُمر خواجہ سرابھی سرکاری گھروں کی عدم دست یابی کے باعث عدم تحفّظ کا شکار ہیں۔ خیبر پختون خوا حکومت کی طرف سے رواں ما لی سال 2019-2020ءکے بجٹ میں خواجہ سرا ؤں کے لیے ایک روپے کا بھی فنڈ مختص نہیں کیا گیا، صوبائی سطح پر متعدّد کمیٹیوں کا قیام بھی 4 سال گزر جانے کے باوجودان کی حالتِ زار نہیں بدل سکا ۔’’قانون برائے تحفّظِ خواجہ سرا 2018ء‘‘کےتحت خواجہ سراؤں کے لیے حفاظتی مراکز اور محفوظ گھروں کاقیام حکومت کی ذمّے داری ہے، جہاں انہیں تعلیم و تربیت سمیت تمام بنیادی سہولتیں بھی فراہم کی جانی چاہئیں۔
نیز، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25اے کے تحت خواجہ سراؤں کومفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کی ذمّے داری بھی حکومت کی ہے ۔ تاہم، اب تک ایسا کوئی قانون نا فذ العمل نہیں ہو سکا۔پا کستان بیورو آف اسٹیٹکس کے 2017ءکے اعدادو شمار کے مطابق ،بشمول سابقہ فاٹا( قبائلی اضلاع) ،خیبرپختون خوامیں خواجہ سراؤں کی تعداد 940ہے ،مگرواضح رہے کہ اس تعداد پر خواجہ سرا کمیونٹی کے خاصے تحفّظات ہیں۔
ٹرانس ایکشن ایسوسی ایشن کی صدر ،فرزانہ کے مطابق صرف پشاور میں ایک ہزار خواجہ سرا رہتے ہیں، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو غیر رجسٹرڈ ہیںاور خواجہ سراؤں کی طرح ڈریسنگ نہیں کرتے۔وفاقی محتسب کی 29مئی 2018ءکو خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفّظ کے لیے بنائی گئی ٹاسک فورس کی خیبر پختون خوا کی رکن اور صوبائی اسمبلی میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفّظ کی کمیٹی کی رکن ،نگہت اورکزئی کااس حوالے سے کہنا ہے کہ ’’سابقہ صوبائی اسمبلی میں مذکورہ قانون کے نفاذ کے لیے مَیں نے قراراداد منظور کروائی ،جب کہ متعدّد بار توجّہ بھی دلوا چُکی ہوں ۔تاہم، عملی طور پر اس قانون کو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔‘‘ریجنل آفس ، پشاور میںوفاقی وزارتِ انسانی حقوق کے ڈائریکٹر،غلام علی کہتے ہیں کہ ’’محفوظ گھروں کے قیام کے لیے آنے والے بجٹ میں خواجہ سراؤں کے لیےفنڈز مختص کیے جانے کا امکان ہے۔ اس قانون کے بعد خواجہ سرائوں کے مسائل کافی حد تک کم ہوئے ہیں، انہیں تحفّظ حاصل ہواہے اور ان پر تشدّد کے واقعات میں بھی واضح کمی آئی ہے۔ ‘‘
ہوم ڈیپارٹمنٹ ،محکمہ ٔپولیس ا ور انسانی حقوق کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پچھلے 4سال میں 19 خواجہ سرا قتل ہوئے، لیکن گزشتہ دو ماہ میں تشدّد کا ایک واقعہ بھی رپورٹ نہیں ہوا۔ اس قانون کے مطابق خواجہ سرا بچّوں کی ذمّے داری ان کے والدین پر ہوگی اور اگر وہ ان پر تشدد کرتے یا پھر گھروں سے نکالتے ہیں، تو والدین کو سزا ہو گی۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس حوالے سے پولیس کی ایس ا و پیز بنا دی گئی ہیں اور انہیں تربیت دی گئی ہے۔‘‘ محکمۂ سوشل ویلفیئر سے آرٹی آئی کے تحت لی گئی معلومات کے مطابق خواجہ سراؤں کے لیے بجٹ میں فنڈز مختص نہیں کیے گئے،جب کہ ٹرانس جینڈر پالیسی تیار کر کے لا ءڈیپارٹمنٹ کوبھیج دی گئی ہے، جہاں سے منظوری کے بعد صوبائی سطح پر پالیسی کو اسمبلی میں پیش کیا جائے گا ۔ پالیسی کو جامع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ڈیپارٹمنٹ کی سطح پر کمیٹیوں کےپانچ اجلاس ہوچُکے ہیں۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفّظ کے لیے بنائی گئی ٹاسک فورس کی خیبر پختون خوا میں رکن ،چیف منسٹر اسپیشل کمیٹی برائے تحفّظ ِخواجہ سراکے رکن اور خواجہ سرائوں کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم ،بلیو ینز کے کوآرڈینیٹر، قمر نسیم نے اس ضمن میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’خواجہ سرائوں کی تعلیم پر توجّہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ انہیں روزگار کے لیے قرض اور بہتر رہائش فراہم کی جانے چاہیے۔ ان کے حالات تب ہی بہتر ہو سکتے ہیں، جب ان سے متعلق بننے والے قانون پر عمل کیا جائے۔‘‘جب کہ ٹرانس ایکشن الائنس ،خیبر پختون خواکی جنرل سیکرٹری، انمول کا کہنا ہے کہ ’’شناختی کارڈز، پاسپورٹ میں خانہ مختص کرنے اور صحت انصاف کارڈز کے اجراءکےعلاوہ خواجہ سرائوں کے لیے کچھ نہیں ہوا ۔ قانون میں موجود حفاظتی مراکز اور محفوظ گھروں کا قیام تو دیوانے کا خواب ہی لگتا ہے۔
اس حوالے سے کوئی عملی اقدامات نہیں ہوئے۔سرکاری سطح پر ہر ضلعے میں ایک خواجہ سرا کالونی قائم کی جانی چاہیے اور تعلیم و تربیت کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔ہمارے ہم سائے مُلک، بھارت میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی نسبتاً زیادہ مستحکم، بااختیار اور خوش حال ہے۔ وہاں کئی خواجہ اہم سرکاری شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ حکومت بھی ان کی سر پرستی کرتی ہے۔اسی طرح ایران میں بھی ٹرانس جینڈرز کو باقاعدہ پہچان دینے کے لیے قا نون سازی کی گئی ہےلیکن پاکستانی حکومت صرف زبانی جمع خرچ کر تی ہی نظر آتی ہے۔ قانون سازی پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘