چین ہی کی مثال دیکھ لی جائے، تو اُس قوم کی شب و روز کی محنت، جستجو، بیداریٔ مغز اور صلاحیت کی وجہ سے، معلوم تاریخ کے اعداد وشمار کے مطابق، دنیا میں سب سے بڑی تعداد میں اور تیزی سے غربت سے نکل کر خوش حالی میں داخل ہونے والے لوگ وہیں بستے ہیں۔1980 کی دہائی کے اوائل میں چین میں اسّی فی صد لوگ انتہائی غربت میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ آج یہ تعداد صرف دس فی صد رہ گئی ہے۔ گو آج بھی مجموعی طور پر وہ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کے معیار کی خوش حالی اپنے لوگوں کو فراہم نہیں کر پایا ہے، اور اس کی مختلف جغرافیائی و سیاسی وجوہ بھی ہیں، اس کے باوجود وہ ایک مثالی ملک بن کر ابھراہے۔ کشور محبوبانی سنگاپور کے معروف صنعت کار اور دانش ور ہیں۔
ان کی عرق ریزی سے کی گئی تحقیق کے مطابق 1990میں دنیا میں ایک ارب ایسے افراد تھے، جو ضروری اشیا کے علاوہ اشیائے تعیّش خریدنے کی معاشی طاقت رکھتے تھے۔ اب ایسے افراد کی تعداد دو ارب سے تجاوز کرگئی ہے۔ اسی وجہ سے بنیادی ضرورتوں کے علاوہ دیگر اشیاء کی صنعتوں نے بے تحاشا ترقی کی ہے۔ ماضی قریب تک فکر اور اس کے اظہار پر پابندی کا یہ عالم تھا کہ وہ خیال جو مطلق العنان حکم ران یا مذہبی پاپائیت کے خیالات سے متصادم ہوتا، اُس پر نہ صرف پابندی تھی بلکہ اظہار پر سزا بھی دی جاتی۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں تازہ ہَوا کی کھڑکی کُھلی اور جمہور کو آزادیٔ رائے اور اس کے اظہار کا بنیادی حق حاصل ہوا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر سُو اور ہر شے میں بھلا ہی دِکھتا ہو۔ شادی کا ادارہ معاشرے کی عمارت میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ جدید فلاحی نظام میں والد کی جگہ ریاست نے سنبھال لی ہے۔ اس کا تذکرہ برٹرینڈرسل نے اپنی شہرئہ آفاق کتاب ''Marriage and Morals'' میں بھی کیا ہے۔
اس نظام میں نومولود کی صحت، تعلیم اور روزگار ریاست کی ذمّے داری بن جاتے ہیں، مگر ریاست شادی کے ٹوٹ جانے سے بچّوں اورافراد ِ خانہ کے لیے پیدا ہونے والے جذباتی خلا کو نہیں بھر سکتی۔ یہی جذباتی بحران افراد کی زندگیوں میں غیر معمولی عدم استحکام لے کر آتا ہے۔ نتیجتاً وہ جرائم اور نشے کی جانب راغب ہوجاتے ہیں۔ بین الاقوامی اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ ٹوٹے ہوئے خاندانوں کے بچّے عام بچّوں کی نسبت کہیں زیادہ جرائم اور منشیات کی لعنتیں اختیار کرلیتے ہیں۔ ان میں اوباما جیسے کام یاب افراد استثنیات کی حیثیت رکھتے ہیں، جنھیں تنہا ماں نے پالا۔ جدید دَور نے شادی کے ادارے کو شکست وتخریب کا شکار کردیا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ناخوش گوار ازدواجی زندگی سے بہتر ہے کہ شوہر یا بیوی علیحدہ ہوجائیں۔
یقینا یہ ایک صائب رائے ہے۔ مگر اس بے لگام انفرادی آزادی کی وجہ سے اختلاف کی بال برابر باریک درز دراڑ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ باپ کے جرم کی سزا بیٹے کو نہیں دی جاسکتی۔ جدید نظام میں ماں باپ کی غلطیوں کی سزا اولاد کو ان کی علیحدگی کی صُور ت میں ایک غیر محفوظ بچپن کی شکل میں ملتی ہے۔ اسی طرح زندگی کے ٹھہراؤ اور سکون میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ جس تیزی سے عوامل بدلتے ہیں، اُسی تیزی سے ایک شخص کے معاشی اور معاشرتی حالات بھی بدلتے ہیں۔ دِنوں میں ارب پتی ککھ پتی ہوجاتے ہیں۔
ایک حکومت کے غلط فیصلے اسٹاک ایکس چینج کو بحران میں مبتلا کردیتے ہیں اور لوگ ان وجوہ کی بِنا پر دیوالیہ ہوجاتے ہیں، جن پر اُن کا اختیار نہیں ہوتا۔ موبائل فون، ٹیلی فون کی روایتی کمپنیوں کو دیوالیہ کردیتا ہے اور ٹچ اسکرین فون روایتی فون کو۔ بڑے بڑے اسٹور، چھوٹے دکان داروں کو نگل جاتے ہیں اور سستے تفریحی ڈرامے، معیاری ادبی ڈراموں کو۔ سو،جب آندھی چلتی ہے تو صاحب ِ نام بے نام ہوکر حالات کی گرد تلے دب جاتے ہیں۔
اس نفسانفسی اور لامختتم دَوڑ نے افرادِ معاشرہ کا ذہنی سکون چھین لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعصاب کو سکون دینے والی ادویہ کی مانگ میں گزشتہ برسوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ معروف مصوّر، تصدّق سہیل نے قریباً چالیس برس برطانیہ میں قیام کےبعد پاکستان میں رہائش اختیار کی تھی۔ ایک مرتبہ راقم نے ان سے پوچھا کہ یہ جو ہرطرف ابتری کا شور مچا ہوا ہے، انھیں گزشتہ برسوں کہیں بہتری بھی نظر آئی ہے؟ یہ سُن کر بوڑھے دانش ورانہ مزاج کے مصوّر کی آنکھوں میں چمک آگئی تھی اور انھوں نے بہت سی بہتری کی چیزیں گنوائی تھیں۔ البتہ ان کا زیادہ زور عورت کی معاشی اور معاشرتی آزادی پر تھا۔ پاکستان کی نصف آبادی یعنی عورتوں کو بہت سے وہ حقوق حاصل ہیں، جو آج بھی عرب و افریقا کی بہت سی خواتین کو حاصل نہیں۔ اگرماضی سے (اورہم اپنا موازنہ اپنے ماضی سے کریں گے نہ کہ یورپ و امریکا کے ماضی سے)تقابل کیا جائے تو یہ خیال پوری طرح درست نہیں کہ ہمارے ہاں آج عورت مکمل طورپرکچلی ہوئی ہے اور اسے حقوق حاصل نہیں۔
قیام پاکستان کے بعد عورتوں کی صرف تدریس و طب کے شعبہ جات میں ملازمت کو قبول کیا جاتا تھا، جب کہ آج کی عورت فوج، پولیس سے لے کر بینکاری وکاروبار میں شدومد سے مصروفِ عمل ہے۔ اس کی ملازمت اور کاروبار پر کوئی قدغن نہیں۔ بابائے دانش، ارسطو جس نے بعد میں آنے والی کئی نسلوں کے دانش وَروں کو متاثر کیا، سمجھتا تھا کہ عقلی استدلال اور فہم و فراست انسان کو دیگر مخلوقات سے برتر بناتی ہے۔ وہ سمجھتا تھا کہ مدلل گفت گو اور عقلی مباحث میں مرد عورت سے برتر ہے۔ چناں چہ عورت اس سے کم تر ہے۔ اس نے اپنی کتاب ’’سیاسیاست‘‘ (Politics)میں عورت کو غلام سے برتر، مگر مرد سے کم تر مخلوق قرار دیا۔ وہ عورت کو زیادہ جذباتی، زیادہ رحم دل، زیادہ شکایت کرنے والی اور زیادہ دھوکے باز سمجھتا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ عورتیں ’’زیادہ شرارت والی، کم سادہ، زیادہ جذباتی، زیادہ رحم دل، زیادہ آسانی سے رونےوالی، زیادہ حاسد، زیادہ جھگڑالو، زیادہ جلد چیخنے چلاّنے والی، باآسانی مایوس ہو جانے والی، کم پُراُمید، کم عزت و وقار کا خیال رکھنے والی، باآسانی جھوٹ بولنے والی، زیادہ مکر و فریب والی، زیادہ یادداشت والی اور مشکل سے عمل پرآمادہ ہونے والی ہوتی ہیں، بہ نسبت مردوں کے۔‘‘ وہ سمجھتا تھا کہ مرد کو فطرت نے حکم ران اورعورت کو محکوم بنایا ہے۔ وہ کہتا تھا کہ غلام سوجھ بوجھ سے عاری ہوتا ہے، عورت میں سوجھ بوجھ ہوتی ہے، مگر وہ قوت واختیار سے محروم ہوتی ہے اور بچّے میں سوجھ بوجھ نامکمل ہوتی ہے۔
عورت، مرد کی نامکمل شکل ہے۔ البتہ وہ اپنی کتاب ’’خطبات‘‘ (Rhetoric) میں کہتا ہے کہ ایک معاشرہ تب تک خوشی حاصل نہیں کرسکتا، جب تک وہاں کی عورتیں خوش نہ ہوں۔ وہ ’’معاشیات‘‘(Economics)میں لکھتا ہے کہ ایک مرد تب ہی باعزت کہلا سکتا ہے، جب وہ اپنی بیوی کو عزت دے، اس سے گفت گو اور برتاؤ میں سمجھ دار اور پرُہوش انسان والے الفاظ استعمال کرے اور اس سے وفادار رہے۔ اُس کی بیوی کو یقین ہونا چاہیے کہ وہ دیگر عورتوں کی جانب رغبت نہیں رکھتا اور سب سے بڑھ کر اُس سے محبت اور اس کی عزت کرتا ہے۔ اُسے اپنی بیوی میں یہ احساس بیدار کرنا چاہیے کہ وہ دونوں مشترکہ ذمّے داری میں معاون ہیں تاکہ وہ اُس کی غیر موجودی میں بھی اس کے لیے وہی جذبات رکھے، جن کا اُس کے سامنے اظہار کرے۔ افلاطون، ارسطو کی بہ نسبت عورت کو صلاحیت میں مرد کے برابر سمجھتا تھا۔
وہ سمجھتا تھا کہ گو عورتوں میں پیشہ ورانہ صلاحیت اور ذہانت مَردوں کے برابر ہوتی ہے، مگر وہ جسمانی قوّت اور نیکی کے جوہر میں مرد سےکم تر ہیں۔ وہ ان دونوں معاملات میں لطیف سے فرق کو پیش نظر رکھ کر عورت کو مرد سے مختلف اور کہیں کہیں کم تر دیکھتا تھا۔ وہ اپنی کتاب ’’وقار‘‘(Timaeus)میں دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مرد جو اِس زندگی میں بزدل اور سُست ہے اگلے جنم میں عورت کے طور پر پیدا ہوگا اور یہ کہ مرد، عورتوں کی نسبت اعلیٰ روح کے مالک ہوتے ہیں۔ اس کے باوجودوہ سمجھتا تھا کہ ایک مثالی مملکت میں عورت کو تعلیم اور کام میں مردوں کے مساوی حقوق ملنے چاہییں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شروع ہی سے مَردوں کی ایک روشن خیال اقلیت وجود رکھتی تھی، جو عورت کی صلاحیت کی معترف اور آزادی کی حامی تھی۔ یہ اقلیت اکیسویں صدی تک اکثریت میں بدل گئی۔
1126میں قرطبہ، اسپین میں پیدا ہونے والا عظیم مسلمان فلسفی و دانش ور، ابن رُشد سمجھتا تھا کہ عورتیں علم وعمل میں کسی طور مرد سے کم تر نہیں۔ یہاں تک کہ عورتیں جنگ کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ وہ کہتا تھا کہ چرواہے کی کُتیا بھی بھیڑوں کی اسی طرح حفاظت کرتی ہے، جیسے کتا کرتا ہے۔ وہ سمجھتا تھا کہ سماجی حالات کی وجہ سے عورتوں کی صلاحیتوں کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ چناں چہ اس داسی غلامی کے نتیجے میں عورتوں کی قابلیت ختم ہوکر رہ گئی۔ وہ زمانہ گزر گیا، جب عیّاش مرد بھی اپنی بیوی سے پاک بازی کی توقع رکھتا تھا۔ آج کی عورت مرد سے برابر پاک بازی کی توقع رکھنے میں حق بجانب ہے۔ اگرعلم و ادب اور لسانیات کا رُخ کیا جائے تو وہاں بھی بے شمار باطل خیالات پیر جمائے کھڑےہیں۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ اپنے شان دار مضمون ’’اردو کے بارے میں رائج غلط العام نظریات‘‘ میں بہت سے مغالطوں کی تصحیح فرماتے ہیں۔
اُن کی تحقیق کے مطابق اردو اور ہندی بہنیں ہیں۔ اردو ہندی کی تبدیل شدہ شکل نہیں بلکہ یہ دونوں زبانیں پراکرت زبان کی مختلف شاخیں ہیں۔ ان دونوں کا ماخذ ایک ہزار برس قبل کی دلّی کی بولیوں میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ وہ بولیاں پراکرت سے نکلی تھیں۔ اغلب امکان ہے کہ یہ تیرہویں صدی عیسوی کی کھڑی بولی تھی، جس نے آگے چل کر اردو کی شکل اختیار کی۔ ماہرین لسانیات کے مطابق دویا زیادہ زبانیں مل کر نئی زبان کو جنم نہیں دیتیں بلکہ ہر زبان کسی ایک زبان کے ارتقا سے گزرنے کے بعد اس کی ترقی یافتہ شکل ہوتی ہے۔ دنیا میں کوئی زبان نہیں، جس نے دوسری زبان سے الفاظ درآمد نہ کیے ہوں۔
البتہ دو زبانوں کا مل کر تیسری زبان بن جانا قابلِ فہم نہیں۔ اردو کا موجودہ نام اٹھارہویں صدی میں عام ہوا۔ اس سے پہلے اسے ہندوی، ہندوستانی، دہلوی، گجری، دکنی اور لاہوری وغیرہ کے ناموں سے پکارا جاتا تھا۔ چناں چہ یہ کہنا کہ اردو لشکروں یا مغل درباروں میں تخلیق ہوئی، درست نہیں۔ یہ اس دَور سے پرانی زبان ہے۔ جب ایک زبان کسی دوسری زبان سے لےکر کوئی لفظ اختیار کرتی ہے، تو وہ لفظ اختیار کرنے والی زبان کا بھی لفظ بن جاتا ہے۔ عربی اورفارسی کے وہ الفاظ جو اردو میں شامل ہوئے، اب اردو کے الفاظ ہیں۔ چناں چہ غالب اور اقبال نے جو فارسی اور عربی کے لاتعداد الفاظ استعمال کیے، وہ درحقیقت اردو ہی کے الفاظ تھے۔ چوں کہ وہ مدّت سے اردو میں مستعمل ہوکر جذب ہوچکے تھے۔
ہندوستان میں رائج یہ خیال بھی قطعی طور پر غلط ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ مولوی عبدالحق کے مطابق وہ مسلمان جو ہندوستان میں عرب، ایران، وسطی ایشیا وغیرہ سے آئے تھے، اپنے ساتھ اردو یا اس سے ملتی جلتی زبان نہیں لائے تھے بلکہ عربی، فارسی ، ترکی اور پشتو وغیرہ لے کرآئےتھے۔ ہندوستان میں جن لوگوں نے اردو کو پروان چڑھایا، ان میں سے بیش تر ہندو تھے۔ اردو کا ترکیبی اور تشکیلی ڈھانچا ہندی کا سا ہے۔ اردو زبان کے نناوے فی صد افعال مقامی ہیں۔ بے شک اردو میں استعمال ہونے والے بیش تر اسم (nouns) اور اسمائے صنعت (adjectives) فارسی اور عربی کے ہیں، جنھیں مقامی بولی میں پرو کر ان ہی کا رسم الخط اختیار کرلیا گیا۔ کسی بھی زبان کی گرامر کی ساخت اس کے مزاج کا تعیّن کرتی ہے اور اردو کے قواعد ہندی کے قریب ترین ہیں۔ S.W.Fallon نے اپنی لغت کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ’’مسیحی مبلّغ آگرہ میں عیسائیت کی تبلیغ کے دوران نظیر اکبر آبادی کے اشعار پڑھا کرتے تھے۔
مسیحی مبلغین اردو میں تبلیغ کرتے تھے اور انھوں نے تب ہی انجیل کا اردو میں ترجمہ کرلیا تھا۔‘‘ بھگت کبیر کا، جن کا اصل نام کبیر داس تھا اور وہ ہندو تھے،بھگتی تحریک میں کلیدی کردار رہاہے۔ ان کے دوہے بھی اُردو ہی میں ہیں۔ سکھوں کی مقدّس کتاب گرو گرنتھ صاحب میں بھی اردو کے الفاظ شامل ہیں۔ اردو کے حوالے سے یہ بات بھی غلط ہے کہ یہ درباروں کی زبان تھی۔ اٹھارہویں صدی تک یہ گلی محلوں میں عام لوگوں کی رابطے کی زبان بن چُکی تھی۔ اسی حقیقت کے پیش نظر مغل دربار کی زبان فارسی کو انگریزوں نے بدل کر 1837میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تھا۔ ویسے بھی اردو کی کہکشاں میں بے شمار غیر مسلم دمکتے ستاروں کی مانند درخشاں نظر آتے ہیں، بھلے وہ کرشن چندر، بلونت سنگھ، راجندر سنگھ بیدی یا گلزار ہوں یا خوشونت سنگھ۔ برصغیر کی تقسیم نے بدقسمتی سے زبانوں کو بھی تقسیم کرکے خانوں میں دھردیا۔
یاد رہے کہ زندہ زبانوں میں دوسری زبانوں سے اسم (noun) لیے جاتے ہیں، جب افعال (Verbs) بھی دوسری زبانوں سے لیے جانے لگیں، تو تاریخِ لسانیات کے ماہرین شاہد ہیں کہ یہ قبول کرنے والی زبانوں کو باثروت یا توانا نہیں بناتے بلکہ انھیں بولنے والی قوموں کے زوال کی نشان دہی کرتے ہیں۔گوحقائق کو غلط العام تصوّرات سے علیحدہ کرنا ایک مشکل امر ہے، جس میں بعض اوقات خیالات و نظریات سے جذباتی وابستگی بھی قربان کرنا پڑتی ہے، مگر اِس سے وہی خوشی حاصل ہوتی ہے، جو کسی گُتھی کے سلجھنے اور پیچیدہ مسئلے کا حل سامنے آنے سے ہوتی ہے۔ بلاشبہ، حقیقت تک پہنچنے کی دائمی مسرت سچ پا لینے والے ہی جانتے ہیں۔