• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں پاکستان میں جہاں سوشل، ایکشن اور دیگر موضوعات کی حامل فلمیں بنائی گئیں، وہیں کاسٹیوم فلمیں یعنی ملبوساتی فلمیں بھی کثرت سے پروڈیوس کی گئیں۔ بالخصوص ساٹھ کی دہائی میں کاسٹیوم فلموں کی تیاری پر زیادہ توجہ اس وقت دی جانی لگی، جب درپن پروڈکشن کی ’’گلفام‘‘ نے ریلیز ہوکر شان دار گولڈن جوبلی کا سنگ میل عبور کرلیا۔ گو کہ ’’گلفام‘‘ کے بعد کسی کاسٹیوم فلم سوائے ’’محل‘‘ کے ساٹھ کی پوری دہائی میں اتنی بڑی کام یابی حاصل نہیں کی، لیکن اکثر فلموں نے اپنے فلم سازوں کو منافع بخش بزنس فراہم کیا،یہی نہیں بلکہ ستر اور اسی کی دہائیوں میں یہ فلمیں ’’مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا‘‘ کے مصداق ہوگئیں، کیوں کہ شروع ہی سے پاکستانی فلم میکر اور ڈسٹری بیوٹرز عید سے قبل نئی فلموں کی ریلیز سے گریز برتتے رہے ہیں۔ 

لہٰذا ملبوساتی فلمیں ہر سال رمضان کے مقدس مہینے کی خاص سوغات کے طور پر رپیٹ رن میں سنیما ہائوسز کی طلب کو پورا کرتی تھیں، کیوں کہ اکثر کاسٹیوم فلمیں اسلامی تاریخ یا کفر و اسلام کی جنگ کے پس منظر میں بنائی گئیں اور ان میں سے اکثر فلموں میں حمد، نعت یا منقبت بھی ایک اہم کونٹینٹ کے طور پر ان فلموں کا حصہ بنا کرتی تھیں اور ایک اہم نفسیاتی وجہ کاسٹیوم فلموں کو ماہ رمضان میں ریلیز کیے جانے کی یہ بھی کہ ان فلموں کے کرداروں کے ملبوسات اور ماحول مکمل اسلامی ہوا کرتا تھا، لہٰذا فلم بین ان فلموں کو اسلامی خیال کرتے ہوئے میں بلاجھجک دیکھنے جایا کرتے اور باربار دیکھا کرتے تھے۔ 

جیسا کہ ہم نے آغاز میں ہی فلم ’’گلفام‘‘ کا ذکر کیا۔ ہمیں خُوب یاد ہے کہ ماہ رمضان میں ہر سال حیدرآباد کا ایک سنیما اس فلم کی نمائش ضرور کیا کرتا تھا اور ہر بار اس فلم کو نئی فلموں جیسا رسپانس ملا کرتا تھا۔ ’’گلفام‘‘ کی کہانی مسلمانوں اور رومن قوم کے درمیان جنگ و جدل کی داستان پر مبنی تھی، جس میں ایک بہادر نوجوان (درپن) ایک خانہ بدوش دوشیزہ (مسرت) کے رومانس کو بھی بہت موثر اور پُرکشش انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ 1961ء کی ریلیز ’’گلفام‘‘ ہدایت کار ایس سلیمان کی ڈیبیو ریلیز تھی۔

ہدایتکار اے حمید کی کاسٹیوم، طلسماتی فلم ’’گل بدن‘‘ 1960ء بھی۔ 70ء کی دہائی میں ماہ رمضان کی خاص فلم کے طور پر باربار نمائش پذیر ہوئی۔ ’’گل بدن‘‘ کی کہانی دو جادوگروں کی دشمنی پر مبنی تھی۔ اداکار اسماعیل قمر نے اس فلم میں ’’جن‘‘ کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کے ان مناظر کو بالخصوص فلم بینوں نے حیرت، تجسس اور دل چسپی سے دیکھا کہ جن میں دکھایا گیا کہ ایک جادوگر کا آلہ کار ’’جن‘‘ اسماعیل قمر، شہزادی گل بدن (مسرت نذیر) کو اس کی خواب گاہ سے بیڈ سمیت اپنے ایک ہاتھ پر اٹھا کر فضائوں میں پرواز کرتا ہوا اپنے آقا جادوگر کے پاس لے جاکر پیش کردیتا ہے۔ علاوہ ازیں جادوگر کے ہاتھوں فلم کے کامیڈین (نذر) کا انسان سے لکڑی کے ڈنڈے میں تبدیل ہوجانا اور اسی حالت میں اس ڈنڈے کی عجیب اور دل چسپ شرارتیں فلم بینوں کے لیے خاص توجہ کا باعث بنتیں۔ یہ فلم ہم نے بھی 70ء میں پہلی بار رمضان کے دوران ہی دیکھی تھی۔ ہدایت کار منشی دل کی نغمہ بار جزوی رنگین فلم ’’عذرا‘‘ کا سن ریلیز تو 1962ء اور اپنے فرسٹ رن میں یہ فلم قابل ذکر کام یابی بھی حاصل نہ کرسکی تھی۔ 

مبصرین نے بھی اس فلم کو بہت زیادہ ہدف تنقید کا نشانہ بنایا تھا، لیکن 70ء کی دہائی میں یہ فلم ماہ رمضان کی نہایت اہم فلم بن گئی۔ وامق و عذرا رومانی داستان پر مبنی اس فلم کا اسکرپٹ انتہائی خُوب صورت اشعار سے مزین تھا، جب کہ رقوص اور نغمات کے ضمن میں ’’عذرا‘‘ ایک یادگار اہمیت کی حامل تصویر تھی۔ نیلو اور اعجاز نے فلم میں عذرا و وامق کے کردار نبھائے تھے، جب کہ اس کے دل کش گیتوں کو سُریلی دُھنوں سے ماسٹر عنایت حسین نے آراستہ کیا تھا۔ پاکستانی سنیما کے لیجنڈری ہیرو محمد علی نے اپنی ایک پروڈکشن ’’شانِ خدا‘‘ کے لیے اکبر علی اکو کو ڈائریکٹر منتخب ،بعدازاں اس فلم کا نام ’’عادل‘‘ رکھ دیا گیا۔ ’’عادل‘‘ ایک نہایت خُوب صورت اسلامی تصویر تھی، جس کا اسکرپٹ رشید نے مکمل طور پر ریاض شاہد کے انداز میں تحریر کیا تھا۔ 

فلم کی کہانی یہ تھی کہ محمد علی ایک غیر مسلم سپاہی ہے، جو اپنے بہنوئی اور سلطنت کے شہنشاہ قہرمان (ادیب) کا محافظ خاص ہے۔ قہرمان مسلم رعایا پر سخت مظالم توڑتا ہے، پھر ایک واقعہ رونما ہوتا ہے اور محمد علی کو فضائوں سے یہ سدا سنائی دیتی ہے۔ ’’راہی بھٹکنے والے… ہیں یہ لاالہ کے اجالے… دل کا دیا جلا لے‘‘ محافظ محمد علی کو ہر طرف ’’لاالہ الاللہ محمد رسول اللہ‘‘ کی تحریر نظر آتی ہے اور وہ کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمان ہوجاتا ہے۔ اس کے مسلمان ہوجانے سے مظلوم مسلم رعایا کو کافی حوصلہ ملتا ہے اور وہ قہرمان کے ظلم کے خلاف منتظم و متحد ہوکر جدوجہد کا آغاز کرتے ہیں۔ دوسری طرف محمد علی کی بہن صابرہ سلطانہ جو قہرمان کی ملکہ ہے، محمد علی اسے بھی کلمہ پڑھوا کر دائرئہ اسلام میں لے آتے ہیں۔ 

قہرمان کو علم ہوجاتا ہے اور وہ ملکہ اور اس کے ننھے شہزادے مراد کو سیکڑوں خطرناک سانپوں کے بیچ ڈلوا دیتا ہے، لیکن یہاں عجیب معجزہ رونما ہوتا ہے کہ خدا کے فضل سے یہ تمام سانپ پھولوں کی مالائوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ان مناظر کو دیکھ کر اسلامی جذبے سے سرشار فلم بین ’’نعرئہ تکبیر‘‘ کی صدائیں لگاتے سنیما ہائوس سے باہر نکلا کرتے تھے۔ ’’عادل‘‘ نہ صرف فرسٹ رن 1966ء میں شان دار کام یابی سے ہمکنار ہوئی بلکہ بعدازاں 70ء کی دہائی میں رمضان میں ہر سال خصوصی طور پر نمائش پذیر ہوا کرتی اور نئی فلموں جیسا رسپانس حاصل کیا کرتی تھی۔

1965ء میں ریلیز ہونے والی عزیز میرٹھی کی بہت ہی معیاری، دل چسپ اور کام یاب طلسماتی، کاسٹیوم مووی ’’ہزار داستان‘‘ ’’گلفام‘‘ کے بعد دوسری بگ ہٹ ملبوساتی فلم تھی، جس نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ریلیز ہونے کے باوجود بھرپور کام یابی حاصل کی تھی اور 70ء کی دہائی میں یہ ماہ رمضان کی موسٹ فیورٹ فلم تھی، جو اس ماہ میں ترجیحی بنیاد پر ریلیز کی جاتی تھی۔ اس فلم میں جابجا تلوار بازی اور طلسم ہوشربائی مناظر شامل تھے ،جو بہت سلیقے، تسلسل اور عمدگی کے ساتھ سلولائٹ پر سجائے گئے تھے۔ تاہم فلم کے کلائمکس سین میں نسیم بیگم کی پڑھی ہوئی نعت ’’دونوں عالم کے سہارے یا محمد آپ ہیں، غم کے طوفاؒں میں کنارے یا محمد آپ ہیں‘‘ اس فلم کی ہائی لائٹ بن گئی تھی۔ عزیز میرٹھی کی اس خُوب صورت فلم کا ری مکس ان کے شاگرد اقبال کشمیری نے ’’الہٰ دین‘‘ کے ٹائٹل سے 1981ء میں پیش کیا تو ’’الہٰ دین‘‘ کو بھی گولڈن جوبلی ہٹ کام یابی ملی۔

1966ء کی ریلیز ظہور راجا کی ’’باغی سردار‘‘ اور مقصود احمد کی ’’نغمہ صحرا‘‘ بھی نہ صرف اپنے پہلے رن کی کام یاب کاسٹیوم فلمیں تھیں، بلکہ 70ء کے عشرے میں یہ فلمیں ماہ رمضان کی خاص سوغات کے طور پر باربار نمائش پذیر ہوئیں اور اپنے ڈسٹری بیوٹرز اور تھرڈ پارٹیوں کو خُوب پیسہ کما کر دیا۔ 1967ء میں ریلیز ہونے والی ہدایت کار ایس۔اے حافظ کی اعلیٰ معیار کی حامل اسلامی کاسٹیوم فلم ’’سجدہ‘‘ ایک ایسی خُوب صورت فلم تھی ،جس کا ایک ایک فریم قابل دید اور قابل داد تھا، لیکن بدقسمتی سے فرسٹ رن میں یہ فلم عوامی توجہ سے محروم ،لیکن جب سیکنڈ رن میں یہ فلم ماہ رمضان میں نمائش کے لیے 70ء کی دہائی میں ریلیز کی گئی تو اس کا استقبال مثالی تھا۔ ہمیں خُوب یاد ہے کہ حیدرآباد کے نور محل سنیما میں اس فلم نے ریپیٹ رن میں بہت بھرپور بزنس کیا تھا۔ فلم کا موضوع کفر و اسلام کی کش مکش پر مبنی تھا۔ فلم کے کلائمکس میں رزمیہ گیت ’’تلوار اٹھا لے اے مرد مومن، نعرئہ حیدری‘‘ ولولہ انگیز شاعری پر مشتمل تھا۔

1967ء ہی کی ریلیز ہدایت کار اکبر علی اکو کی دل چسپ میوزیکل کاسٹیوم تخلیق ’’حاتم طائی‘‘ گو کہ فرسٹ رن ریلیز میں سلور جوبلی نہ منا سکی تھی، لیکن 70ء کی دہائی میں ماہ رمضان کی یہ مقبول ترین فلم بن گئی تھی۔ 1978-79ء کی بات ہے کہ اچھے خاصے گرم دنوں کا ماہ رمضان تھا، جب یہ فلم ریپیٹ رن میں کوہ نور سنیما حیدرآباد میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ گو کہ ہم متعدد بار یہ فلم دیکھ چکے ،پھر بھی دیکھنے کے لیے کوہ نور جا پہنچے ، لیکن سنیما پر رش کا یہ عالم تھا کہ ہر تھرڈ کلاس کا ٹکٹ مہنگے داموں بلیک سے فروخت ہورہا تھا۔ یُوں تو ’’حاتم طائی‘‘ ایک نغمہ بار فلم تھی، لیکن فلم کی ایک معجزاتی سچویشن میں فلمائی ہوئی حمد ’’مشکل میں سب نے تجھ کو پکارا… پروردگارا پروردگارا‘‘ خاص طور پر خوبصورت شاعری، عمدہ گائیکی اور متاثر کن سچویشن میں فلمائے جانے کے سبب فلم بین کے رونگٹے کھڑے کردیتی ہے۔

1968ء کی ریلیز ہدایت کار لقمان کی کاسٹیوم گولڈن جوبلی ہٹ ریلیز ’’محل‘‘ کا شمار بھی ماہ رمضان کی مقبول ترین فلموں میں ہوتا ہے۔ 1968ء ہی کی ریلیز ہدایت کار عزیز میرٹھی کی کاسٹیوم طلسماتی تخلیق ’’پرستان‘‘ ایک خُوب صورت اور معیاری فلم تھی، لیکن ’’ہزار داستان‘‘ کے برعکس اسے فرسٹ رن میں زیادہ عوامی توجہ نہ مل ۔ تاہم جب 70ء کی دہائی میں ماہ رمضان میں کاسٹیوم فلموں کی نمائش کا چلن عام ہوا تو ’’پرستان‘‘ کو بھی باربار نمائش کے لیے پیش کیا گیا اور فلم بینوں نے اسے شوق، رغبت اور پسندیدگی سے دیکھا۔

زمانہ حال میں کاسٹیوم فلمیں بنانے کا تصور مفقود ہوچکا ہے، لیکن کہتے ہیں کہ ایک خاص زمانہ گزر جانے کے بعد پرانی چیزوں کا ریوائیول ضرور ہوتا ہے۔ ان دنوں ترکی ساختہ کاسٹیوم ڈراما سیریل ’’ارتغرل‘‘ عوامی حلقوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کررہا ہے، جس طرح یہ کاسٹیوم ڈراما سیریل دُنیا بھر کے جدید سنیما کے مقابل زیادہ پسندیدہ اور قابلِ دید قرار پا رہا ہے، عین ممکن ہے کہ بالکل اسی طرح کاسٹیوم فلموں کا دور بھی واپس آجائے۔

تازہ ترین
تازہ ترین