• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو کورونا وائرس سے خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے ،لوگ ابھی بھی گھروں تک ہی محدود ہیں، برطانوی حکومت لاک ڈائون میں نرمی کے پہلے مرحلے کے آغاز کے بعد اس بات کی حوصلہ افزائی کررہی ہے کہ جو کارکن گھر سے کام نہیں کرسکتے وہ کام پر واپس جائیں لیکن حکومت کی ہدایت کے باوجودکہ پبلک ٹرانسپورٹ کو صرف انتہائی ضرورت کے تحت استعمال کیاجائے، بسوں اور ٹرینوں میں رش دیکھنے میں آیا ہے جس کے بعد حکومت کا کہنا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والوں کی یہ شرح برقرار رہی تو اسے کوئی اقدام کرنا ہوگا۔ حکومت کی گائیڈ لائنز کے مطابق پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے دوران بھی لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ دو میٹر کی سماجی دوری کو برقرار رکھیں اور ماسک کا استعمال کریں۔

ٹرانسپورٹ فار لندن کے مطابق صبح 5 سے 6 بجے کے دوران سفر کرنے والوں کی شرح گزشتہ ہفتہ کی نسبت 9فیصد زائد تھی ۔رپورٹ کے مطابق انڈرگرائونڈ سے سفر کرنے والے دس فی صد سے بھی کم مسافروں نے ماسک پہن رکھا تھا اور سماجی دوری کا خیال بھی رکھنا ممکن نہیں تھا، لوگ نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں، جس سے کورونا وائرس کی دوسری لہربھی آسکتی ہے۔ لاک ڈائون کے آغاز کے بعد سروسز 75فی صد کم کردی گئی تھیں۔ آئندہ ہفتہ سے 82فی صد سروسز چلنے کی توقع ہے، شاہراہوں پر بھی ٹریفک بڑھ گیا ہے، ایسٹ انڈیا ڈاک روڈ پر صبح کے اوقات میں 5 میل طویل ٹریفک جام رہا، مسافروں کی طرف سے سماجی دوری کا خیال نہ رکھنے کی صورت میں ٹرین اور بس ڈرائیور سے کہا گیا ہے کہ اگر وہ خود کو غیر محفوظ تصور کریں تو وہ اپنی یونین کے ذریعے کام کرنے سےا نکار کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں نیشنل پولیس چیفس کونسل آف انگلینڈ اور کالج آف انگلینڈ نے حکومت کی نئی اسٹے الرٹ پالیسی پر عوام سے زبردستی عملدرآمد کرانے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے پاس ایسی کوئی اتھارٹی نہیں ہے کہ ہم کسی کو زبردستی کہیں کہ وہ ایک دوسرے سے دو میٹر کے فاصلے پر رہیں، ماسک ضرور پہنیں یا پبلک ٹرانسپورٹ ضرور استعمال کریں ۔

پولیس کے دونوں اداروں کی طرف سے یہ بات اس وقت سامنے آئی جب گزشتہ دنوں وزیراعظم بورس جانسن نے دو ماہ سے جاری لاک ڈائون میں نرمی کا اعلان کرتے ہوئےا سٹے ہوم کی بجائے اسٹے الرٹ کی نئی حکومتی پالیسی کے تحت عوام کو ملازمتوں پرجانے ،تفریح گاہوں میں زیادہ وقت گزارنے کی اجازت بعض احتیاطی تدابیر کے ساتھ دی تھی ۔پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم صرف وہی طاقت استعمال کرسکتے ہیں جو قانون میں لکھی گئی ہے چنانچہ قانون میں ایسی کوئی بات نہیں بتائی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا نہ تو اور سچینل ہیلتھ پروٹیکشن کورونا وائرس رسٹریکشن انگلینڈ ریزویشن 2020 جو 26مارچ کو جاری ہوا اور نہ ہی گزشتہ دنوںہونے والی نئی تبدیلیوں کے ایکٹ میں پولیس کے لیے کوئی ایسی خصوصی پاورزشامل کی گئی ہیں، لہٰذا قانونی طورپر لوگوں کو زبردستی اوپر کی گئی احتیاطوں پر ہم مجبور نہیں کرسکتے۔

دوسری طرف ٹرانسپورٹ فار لندن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ٹرینوں اور بسوں میں دو میٹر کی دوری پر رکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے اور ہم کسی کو زبردستی ماسک پہننے پر مجبور بھی نہیں کرسکتے ، جبکہ دوسری طرف لاک ڈائون کے سبب اداروں و کاروبار کی بندش سے کارکنوں کو بیروزگار ہونے سے بچانے کے لیے حکومت کی طرف سے کارکنوں کی تنخواہ کا80فی صد ادا کرنے کی اسکیم میں اکتوبر تک توسیع کردی گئی ہے۔ چانسلر رشی سونک نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ لاک ڈائون کے سبب مشکلات کا شکار اداروں اور ورکرز کو اس مشکل وقت سے نکلنے میں بھرپور مدد کرے گی۔ رشی سونک نے کہا کہ ورکرز کی تنخواہ کا80فی صد حکومت کی طرف سے ادا کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا جس کی حد ڈھائی ہزار پونڈ تک مقرر کی گئی ہے۔ ہم اس بحران سے نکلنے کے لیے اداروں اور ورکرز کی پشت پر کھڑے ہوں گے۔ بزنس کمیونٹی نے بڑے پیمانے پر اس کا خیرمقدم کیا ہے۔ برٹش چیمبر آف کامرس نے کہا کہ اس فیصلے سے آجر اور ورکرز کو اطمینان ہوگا۔

ٹی یو سی کے جنرل سیکرٹری فرانس او گریڈی نے کہا کہ اسکیم میں توسیع سے لاکھوں افراد کو مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ کووڈ19کے معیشت پر اثرات ہیں، ہم جابس کی گارنٹی کے حوالے سے جدوجہد جاری رکھیں گے، تاکہ ہر شخص کے پاس اچھی ملازمت ہو ، وزیر اعظم بورس جانسن کی لاک ڈاؤن کے حوالے سے تجاویز اور فیصلوں سے عوام انتہائی تذبذب کا شکار رہی اور وزیراعظم کے قوم سے کیے گے خطاب کو مزاحیہ قرار دے دیا، جس میں انہوں نے کوئی واضح فیصلہ نہیں سنایا بلکہ بار بار کہتے رہے کہ اگر ضروری سمجھیں تو کام پر جائیں لوگوں کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کوئی فیصلہ نہیں سنایا جس سے لگتا ہے کہ عوام آزاد ہیں۔

تازہ ترین