• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
کووڈ 19 نے لاک ڈاون میں ہمیں ایسے ڈالا کہ معاشرے کے بعض دہرے رویئے بھی آشکارہوگئے اور بعض چہروں پر چڑھے نقاب اتر گئے۔نئے نئے انکشافات ایسے ہوئے کہ دنیا کی سپریم پاور کا خبط عظمت کے خود ساختہ رکھنے والے امریکی صدر کے اس حوالے سے بعض رو یئےبھی دنیا کو حیران پریشان کرگئے۔ سپر پاور کا اعزاز رکھنے والے ہمارے برطانیہ کے وزیراعظم کے بھی بعض اعلانات لوگوں میں موضوع بحث بنے اور پاکستان میںجن کو آپ دانش و بینش اور تبدیلی کا مظہر سمجھتے تھے ان کے بے سروپا اقدامات مذاق بن کر رہ گئے۔ کورنانے مملکتوں کے سربراہان، کمیونٹیز اور افراد کے انفرادی یعنی قوموں اور مختلف برادریوں بلکہ پیشوں سے متعلق افراد کے مزاج اور رویوں کو جاننے پرکھنے کے مواقع بھی مہیا کر دیئے۔ دنیا کو ایک مختلف انداز سے سمجھنے کا ادراک ہو رہا ہے۔ ہم شاید روئے زمیں کی وہ واحد مخلوق ہوںگے جو ایسے مواقع پر غور و فکر کی بجائے اس وباء کو آج بھی سازش قرار دے کر اس کو نظر انداز کر نے کا اصرار کر رہے ہیں جس سے کئی لوگ موت کے منہ میں چلے گئے اور بعض قدرت اور فطرت کی خصوصی عنایات سے بچ گئے ورنہ ایک ایسا معاشرہ سامنے آرہا ہے جو کسی قَاعدے اور نظم کے تابع رہنے سے عاری اور بے زار دکھائی دے، اللہ معاف کرے ایسا ایسا مواد شیئرکیا گیا ہے کہ اللہ کی توبہ، ہماری فکر بھی دیگر قوموں سے مختلف طور پر سامنے آئی ہے ہر معاملے کو سازش، حتیٰ کہ کرونا پینڈیمک کو بھی فقط سازش کہہ کر نظر انداز کرنا، یہ سوچ اور فکر کسی بھی طور خوش آئند قرار نہیں دی جاسکتی۔کورونا چاہے سازش بھی ہے، کسی لیبارٹری کا تیار کردہ ہی ہے مگر بیماری تو ہےاور فوری تقاضا یہی ہے کہ طبی ماہرین کے مشوروں پر عمل درآمد کیا جائے۔یہ تو عالمی سطح کا کام ہے کہ دیکھا جائے کہ کہیں اگر سازش کی گئی ہے تو اس کو سامنے لایا جائے مگر ہمارا اجتماعی رویہ اس امر کا غماز ہے کہ ہماری سوچ اور فکر پر جو کثافت ہے اس کو دھویا جائے۔ سائنسی انداز فکر کو اپنایا جائے، کووڈ 19 کا سبق یہ بھی ہے کہ ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں میں واضح تبدیلی لائیں، اچھی کتب، معیاری اخبارات، رسائل و جرائد کا مطالعہ معمول بنائیں، اپنے معمولات زندگی، طرز فکر اور حلقہ احباب پر بھی نظر ثانی کریں، ایسے نیوز چینلز دیکھنے سے بھی گریز کریں جو معاشرے کو پراگندہ کر رہے ہیں۔ ہر سطح پر غور فکر اور تدبر سے کام لیا جائے، کسی بات پر صرف اس لئے آنکھیں بند کر کے یقین نہ کر لیا جائے کہ یہ کسی حکمران نے کہی ہے وہ زیادہ تر اپنی نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ہمارا اصل موضوع کووڈ 19 برطانیہ میں مختلف سطح پر کس طرح مختلف انداز میں اثرات مرتب کر رہا ہےآج یہاں یہ معاملہ سمجھنے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔کورونابرطانیہ کی اقلیتی برادریوں کو کس تناسب سے متاثر کر رہا ہے یعنی جب آپ تقابلی طور پر جائزہ لیں تو میزبان کمیونٹی کے متاثر ہونے کی شرح کیا ہے اور دیگر کمیونٹیز کی اور پھر مختلف طبقات کے مابین کیا تفاوت ہے؟ ۔مرد عورت، مختلف شعبوں میں کیا تفاوت ہے؟ مختلف ملازمتوں کے متعلقین پر اس کا اثر کیا یکساں ہے یا الگ الگ ہے،؟ برطانیہ کے مختلف علاقوں میں یعنی جغرافیائی اعتبار سے اس کا بریک ڈاؤن؟ اگر ایک وائرس ہے تو پھر اس کی طرف سے یہ جنس نسل رنگ کی تمیز کیوں؟ کیا یہ وائرس بذات خود متعصب ہے جو کہ ظاہر ہے کہ ایک آؤٹ آف کویسچن out of question ہے یا پھر مختلف افراد کے اپنے رویے، انداز فکر، طرز رہائش، بودوباش ہے جو اس صورت حال کا عکاس ہے، اگر مرد حضرات زیادہ متاثر ہوئے ہیں تو پھر ہم کو بلاججھک یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوتی ہیں یا پھر ان کی قوت مدافعت بہتر ہے اور وہ زیادہ سمجھ داری کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اگر مختلف ملازمتوں سے متعلق لوگ زیادہ متاثر ہوئے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ وہ ملازمین تھے جن کے وسائل بہت کم تھے ملازمت پر جانے کے سوا چارہ نہیں تھا یا پھر فرنٹ لائن ورکرز جن میں بعض کی تنخواہ تو شاہد کافی بہتر ہے مگر ان کے فرائض منصبی اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ دیگر لوگوں کو سہولت فراہم کرنے کے لئے جاب پر جائیں اور پھر یہ لوگ خود شکار ہو گئے اس میں شاید حکومت کی نااہلی بھی سامنے آئے۔ تازہ ترین ڈیٹا کے اس انکشاف کے بعد کہ برطانیہ کی بلیک اتھنک مینارٹیز. BAME سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں کووڈ 19 سے متعلق اموات کا امکان سفید فام افراد white British ethnicity کی نسبت تقریباً دوگنا ہےجس کے بعد یوکے ایکوالٹی واچ ڈاگ کی طرف سے کی گئی ایک انویسٹی گیشن کو لانچ کیا گیا ۔المختصر تمام تر غیر موافق حالاتکی سنگینوں کے باوجود ہم پرامید ہیں کہ اس موذی وباء کے مہلک اثرات جلد ختم ہوں گے اور انشااللہ زندگی ایک با ر پھر مسکرائے گی۔ تحقیق، اور تعلیم کے ذریعے سمجھ میں بہتری لائی جائے، تحقیقی اکیڈمک طرز کی رپورٹس کا مطالعہ کیا جائے، بچوں کو ریسرچ کی عادت ڈالیں، رٹہ لگانے rote Learning پر کم انحصار کیا جائے اور جستجو تخلیق، تحقیق کو فروغ، BLOOM taxanomy ہے تعمیری تنقید سے نہ صرف کورونا بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے کی امنگ پیدا ہو گی۔ سائنسدان وبائی امراض پر جو جانفشانی سے تحقیق شائع کرتے ہیں ان سے استفادہ کیا جائے۔ اگر برطانیہ جیسے جدید ملک میں بھی ہم جو ایک اقلیت کے طور پر رہ رہے ہیں اپنی بودوباش، طرزمعاشرت اور فکر و نظر کے زاویوں میں تبدیلی نہیں لائیں گے اور اپنے َاردگرد کے لوگوں سے کچھ بہتر سیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے قوی خدشات ہیں کہ بہت پیچھے رہ جائیں گے _۔فکر اور سوچ میں تبدیلی کی ضرورت واضح ہوتی ہے سائنسی انداز فکر کو اپنانے کرونا ! اور ہماری غیر حقیقی اپروچ کو ترک کرنے کی ترغیب ملتی ہے، ورنہ کل کا مصنف اور مورخ یہ لکھنے پر مجبور ہو گا کہ کرونا ! اندازے سارے غلط نکلے۔۔۔Disparities in the risk and outcomes ofCOVID-19یہ 89 صفحات پر مشتمل ہے، چند اہم نکات پیش خدمت ہیں، یہ ریویو ظاہر کرتا ہے کہ کووڈ 19 نے پہلے سے موجود عدم برابری کی سطح کو نہ صرف متاثر کیا ہے بلکہ اس عدم برابری میں مزید اضافہ کر دیا ہے، یہ نتائج ہماری اس پینڈیمک کے متعلق سمجھ بوجھ میں اضافہ کرسکتے ہیں جن سے صورت حال کے تدارک میں شاید مدد مل سکے۔ اس سے پبلک ہیلتھ رسپانس لوگوں کی صحت پر مستقبل کے رسپانس پر مدد ملے گی، سب سے زیادہ جو عنصر سامنے آیا ہے وہ عمر کا ہے، لوگ جن میں کووڈ 19 کی تشخیص کی گئی ہے ان میں جو افراد 80 سال یا اس سے زائد عمر کے ہیں وہ 40 سال کی عمر کے لوگوں کی نسبت ستر فیصد زیادہ موت کا شکار ہونے کے امکانات رکھتے ہیں۔ورکنگ ایج میلز کی نشاندہی کی گئی ہے، مرد حضرات میں یہ رسک خواتین کی نسبت زیادہ پایا گیا ہے، جو زیادہ پسماندہ علاقوں میں رہتے ہیں وہ کم افلاس زدہ علاقوں کی نسبت زیادہ خطرات سے دوچار ہیں. اسی طرح سفید فام گروپوں کے مقابلے میں بلیک، ایشیائی اور مینارٹیز گروپوں میں زیادہ متاثر ہونے کے چانسز ہیں، یہ مشاہدہ عمر، جنس، پس منظر، خطہ، اور اقلیتوں کے پس منظر کو شمار کرتا ہے، بہت سے نگہداشت کے پیشوں، کئیرنگ، اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے والے، نرسنگ سٹاف، گھروں کے اندر نگہداشت کا کام کرتے ہیں، جو اپنے زندہ رہنے کے لیے روڈ پر مسافروں کو سروس مہیا کرتے ہیں بشمول ٹیکسی، منی کیب ڈرائیور، شوفرز اور سیکورٹی گارڈزکی نشاندہی کی گئی ہے یہ رسک پر ہیں۔تاہم یہ جائزہ بھی مکمل صورتحال کی منظر کشی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اس کا سکوپ محدود تھا، جب اینالسز کیا گیا تھا تو اکثر ٹیسٹنگ ان کو آفر کی گئی تھی جو ہسپتالوں میں طبی ضرورتوں کے تحت ایڈمٹ تھے اس لیے کنفرم کیسیز صرف ان واقعات کی نمایندگی کرتے ہیں جو شدید نوعیت کے تھے اوریہ انفیکشن کے مطابق نہیں اس نظرثانی میں بعض مشاہدات پروژنل ہیں اور ان کو امپروو کرنے کے لیے کام جاری ہےمزید تحقیق کام کی پلاننگ کی جا چکی ہے، اس کے نتائج اور عواقب اور عوامل کو وسیع تر پیمانے پر ڈسکس کرنے کی ضرورت ہے اور تمام سٹیک ہولڈرز کی خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں تاہم اہم امور پر پہلے سے ہی کام شروع کر دیا گیا ہے، یہ واضح ہے کہ متعلقہ گاییڈینس، مخصوص عوامل کی ریکارڈنگ اور رپورٹنگ کی جا رہی ہے تاکہ جو خطرات سامنے لائے گئے ہیں ان کی ذمہ دار اداروں کو نشان دہی کی جائے جس سے اس بیماری یا وباء کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملے۔ ریجنل اعتبار سے لندن زیادہ متاثر ہوا ہے اس کے بعد نارتھ ویسٹ، نارتھ ایسٹ اور ویسٹ مڈ لینڈز،ساوتھ ویسٹ میں اس کی شرح تناسب کے لحاظ سے کم تھی، خواتین کے حوالے سے نارتھ ایسٹ اور نارتھ ویسٹ میں لندن کی نسبت زیادہ تشخیص ریٹ نوٹ کیا گیا ہے مگر لندن میں اموات کی شرح زیادہ تھی۔غربت، کسمپرسی اور افلاس زدہ علاقوں میں رہائش پذیر deprivation سے کووڈ 19 کی اموات کی شرح دوگنی سے بھی زیادہ معلوم ہوئی ہے کہ جب کم محروم زدہ علاقے سے موازنہ کیا جائے، اور اس کیٹیگری کے متاثرین میں مردوں اور عورتوں کی شرح بھی قابل ذکر طور پر یکساں نوٹ کی گئی ہے۔اقلیتی پس منظر ethnicity، یہ انکشاف کیا گیا ہے پچھلے برسوں کی سٹڈیز میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ایشیائی اور بلیک ایتھنک مینارٹیز میں مورٹیلیٹی ریٹ mortality rate ،سفید فام لوگوں کی نسبت کم تھا۔مگر اب اس کے برعکس صورت حال ہے، کہ عمر،جنس، پس منظر، خطے کے مشاہدے شمار کرنے کے بعد یہ بات آشکار ہورہی ہے کہ کووڈ 19 سے ایشیائی اور بلیک ایتھنک مینارٹیز سفید فام لوگوں سے مختلف صورتوں سے دوچار ہیں. کووڈ 19 سے بچ جانے والے افراد اور اقلیتوں کا ایک تفصیلی اینَالسز analysis یہ ظاہر کرتا ہے کہ بنگلہ دیشی َ افراد سے لوگوں میں سفید فام لوگوں کی نسبت اموات کے خدشات تقریباً دوگنا زیادہ ہیں، چائنیز، انڈینز، پاکستانی، دیگر ایشیائی، کریبین، بلیک اور دیگر بلیک مینارٹیز میں دس سے پچاس فیصد تک اس خطرات زیادہ لاحق ہو سکتے ہیں، یہ مشاہدہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ برطانیہ کی اقلیتی برادریاں انتہائی غیر متوازن طور پر موازنہ کے اعتبار سے کووڈ 19 سے متاثرہ ہیں ادھر ایک اور میڈیا رپورٹ میں یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ ماہرین کو یقین ہے کہ ی گہرا تفاوت سوشل اور ریشل یعنی سماجی اور نسلی عدم مساوات کا مظہر ہے جبکہ اقلیتوں اور صحت کے مابین یہ ایک پیچیدہ ترین ریلشنپ، تعلق ہے، جو متعدد فیکٹرز، عوامل کا نتیجہ ہے، یہ اقلیتی طبقات اربن ایریاز میں رہتے ہیں، پر ہجوم رہائش گاہوں میں رہنے پر مجبور ہیں اس طرح کی جابز، ملازمتوں میں ہیں جو ان کے لیے خطرات بڑھا دیتے ہیں اس پر مزید مستزاد. کہ زبان اور ثقافت کی رکاوٹوںکے باعث متعلق سروسز کے حصول میں بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی صحت کے متعلق رپورٹ 2 جون کو شائع کی گئی ہے اس کےمتعلق تسلیم کیا ہے کہ کووڈ 19نے برطانیہ کی صحت میں عدم برابری اور تفاوت کو وسیع طور پر ایکسپوز کر دیا ہے۔ آخر میں ہمارے ٹائون لوٹن کے محمد کامرانؔ ہاشمی کی نظم ’’کورونا‘‘ سے اشعار
نئی اِک بلاء کا ہر اِک سُو ہے رونا
سبھی کہہ رہے ہیں کہ کُچھ تو کورونا
یہ عِبرت کے لمحے ہیں گر سوچیے تو
گھڑی بھر میں برباد شاہوں کا ہونا
تازہ ترین