کوئی دِن ایسا نہیں گزرتا کہ جب بھارتی مسلح افواج کی طرف سے نہتے کشمیریوں کو ظلم اور بربریت کا نشانہ نہیں بنایا جاتا اور لائن آف کنٹرول پر آباد شہریوں کو زک نہیں پہنچایا جاتا۔ حد تو تب ہوئی جب اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے دو اہلکاروں نے ایک شہری کو بری طرح گاڑی تلے کچل دیا۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جب اِن اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا تو بھارت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کو سفارتی عملے کیلئے جیل میں تبدیل کر دیا۔ سفارتی ذرائع کے مطابق نہ صرف پاکستانی سفارتخانے کا محاصرہ کیا گیا بلکہ بھارتی ایجنسیوں کی جانب سے عملے کو ہراساں بھی کیا گیا۔ پاکستان نے ہمیشہ ہمسایہ ملک بھارت کیساتھ خوشگوار اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن بھارت کی طرف سے کبھی کسی خوشدلی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ بھارت کی طرف سے نہ صرف پاکستان میں دہشت گردوں کی حمایت کی گئی بلکہ لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی اور مقبوضہ کشمیر میں نہتے مسلمانوں کا قتلِ عام بھی کیا گیا۔ اِس قتلِ عام کے بعد بھی جب بھارتی وزیر دفاع کی طرف سے کشمیریوں کے بھارت کیساتھ کھڑا ہونے کا اعلان کیا گیا تو پاکستان کے وزیر خارجہ نے اُنہیں بجا طور پر دو ٹوک جواب دیتے ہوئے چیلنج کیا کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کشمیری ان کے ساتھ ہیں تو میں انہیں دعوت دیتا ہوں کہ عمران خان یا مجھے سری نگر میں کشمیریوں سے کھلی کچہری میں بات کرنے دیں یا خود مظفرآباد آ کر یہاں کے کشمیریوں کے جذبات سنیں،اُنہیں حقیقت کا پتا چل جائے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔شاہ محمود قریشی نے بجا طور پر کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکام کی آنکھیں کھولی ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ تمام بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کے حق میں آواز بلند کی جائے تاکہ وہاں کے نہتے عوام کو بھارتی افواج کے مظالم سے نجات مل سکے۔