ملک طویل عرصے سے مختلف بحرانوں کا شکار ہے جب سے عمران حکومت اقتدار میں آئی ہے ملک وقوم اور خود حکومت گھمبیر صورتحال سے دو چار ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے خلوص ملک کو مختلف بحرانوں کا بالخصوص مالی بحران سے نکالنے کے جذبے سے انکا رنہیں کیا جاسکتا۔ مگر ان کی ٹیم کے بعض لوگ اپنی ناتجربہ کاری غفلت و لاپرواہی اور نااہلی کی وجہ سے ان کے کئے دھرے پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ وزیراعظم کی ٹیم ان کے ہم آہنگ دکھائی نہیں دیتی۔
کبھی گندم، چینی کا سکینڈل، کبھی پٹرول کا سکینڈل کبھی ٹڈی دل کا مسئلہ اور اس پر قابو پانے میں تاخیر گندم و چینی سکینڈل کی باز گشت ابھی کم نہیں ہوئی تھی کہ پٹرول کی قلت کے سکینڈل نے سر اٹھا لیا۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے مختصر عرصے میں41 روپے لیٹر سستا کیا پٹرول کی قیمتوں میں تاریخی کمی کی گئی۔ اس کا کریڈٹ حکومت اور وزیراعظم کو ملنا چاہئے مگر وزیر پٹرولیم عمر ایوب اور مشیر پٹرولیم ندیم بابر کی غفلت سے پٹرول کی قلت پیدا کر دی گئی لوگ پٹرول کیلئے مارے مارے پھرنے لگے قیمتوں میں زبردست کمی کا کریڈٹ ڈس کریڈٹ کر دیا گیا۔
ابھی تک پٹرول کمپنیوں نے صورتحال بہتر نہیں کی اور نہ ہی وزارت پٹرولیم سے ٹھوس اقدامات یا انتظامات کئے اس کو وزارت یا وزراء کی نااہلی غفلت کرپشن یا وزیراعظم کیخلاف سازش قرار دیا جائے حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ ملک کی دو بڑی جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن بکھری پڑی ہیں وہ حکومت کیخلاف کوئی موثر تحریک چلانے کے قابل نہیں مگر بعض حکومتی وزراء خود ہی اپوزیشن کا کردار ادا کر دیتے ہیں اور ایسا کمزور چھکا مارنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کمزور اپوزیشن باؤنڈری پر آرام سے کیچ کر لیتی ہے وزیراعظم عمران نے ایک بہت بڑا فیصلہ کیا کہ چینی سکینڈل کو طشت ازبام کیا جائے گا اور وزیر اعظم نے اس سکینڈل کو منظر عام پر لائے جس کی اپوزیشن کو قطعاً توقع نہیں تھی اپوزیشن و الے ششدر رہ گئے انہیں بالکل توقع نہیں تھی جس سکینڈل میں جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار کا نام آرہا ہے اس لئے یہ سکینڈل دبا دیا جائے گا۔
کیونکہ خسروبختیار وزیراعظم عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھی ہیں اس لئے سکینڈل میں ملوث لوگوں کو منظر عام پر نہیں لایا جائے گا مگر عمران خان نے سب کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور انہوں نے سکینڈل میں ملوث بااثر لوگوں کو بے نقاب کر دیا مگر اقدام کو بھی جہانگیر ترین کو ان کے بیٹے کے ہمراہ باہر بھجوا کر ڈس کریڈٹ کر دیا گیا۔پٹرول سکینڈل میں وفاقی کابینہ کے اہم ارکان بھی عمر ایوب اور ندیم بابر کا یہ استدلال مانے کیلئے تیار نہیں کہ پٹرول کی قلت مافیا نے کی ہے مگر کابینہ کے سنیئر وزراء نے وزرراء کو بھی ذمہ دار قرار دیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ملک میں تین بڑےسکینڈلوں میں وزیراعظم کے مشیر ندیم بابر کا نام آرہا ہے جس میں آئی پی پیز سکینڈل شوگر سکینڈل اور اب پٹرول قلت سکینڈل شامل ہے آئی پی پیز سکینڈل میں بھی کھربوں کا گھپلا کیا گیا ہے۔
اس کی تحقیقات بھی تقریباً مکمل ہو چکی ہے مگرابھی تک مافیا پرہاتھ نہیں ڈالا گیا اب سنا ہے اس سکینڈل میں ملوث با اثر لوگ مک م کا کرنے کیلئے تیار ہیں اگ ایسا ہوا تووزیراعظم عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے کے قابل ہونگے حکومت کو یہ بڑا امیج ملے گا اس طرح اب چینی میں 70 روپے کلو فروخت کرے کے ا قدامات ہورہے ہیں وفاقی بجٹ پیش ہو چکا ہے حسب سابق حکومتی ارکان فری ٹیکس بجٹ قرار دے کر تعریفیں کررہے ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتیں اسے غریب کش بجٹ قرار دے کر مسترد کررہی ہے۔ کسی حکومت میں بھی اپوزیشن نے بجٹ کو کبھی اچھا نہیں کیا۔
درحقیقت تباہ معیشت انتہائی خراب مالی حالات میں کوئی بہت اچھا بجٹ پیش بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ وفاقی وزیر حماد اظہر نے معیشت کو صحیح سمت پر لانے اور بہتر بنانے کیلئے بہت کوششیں کررہے تھے مگر کرونا نے رہی سہی کسر بھی نکال لی اور اس بجٹ میں سرکاری ملازمین اور بزرگ پنشنروں کو ایک پائی کا فائدہ نہیں پہنچایا جاسکا۔ کرونا وائرس نے پاکستان کی معیشت تو کیا دنیا کی بڑی طاقتوں اور امیر ترین ممالک کو کھوکھلا اور تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اپنے آپ کو سپر پاور کہلانے والے ممالک معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں امریکہ برطانیہ جیسے ممالک میں حکمرانوں نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ امریکہ نے واپس آنے والے پاکستانیوں نے بتایا کہ امریکہ میں صرف سوا لاکھ نہیں کئی لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں اولڈ ہائوسز خالی ہوگئے ہیں۔
سبزیوں اور پھلوں کے کولڈ سٹوریجز سب لاشیں رکھی جارہی ہیں حکومت بالکل بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ذرا سی بیماری دے کر بتا دیا ہے سپرپاور میں ہوں کوئی دوسرا نہیں۔ کرونا ختم بھی ہوگیا تو اس کے اثرات پوری دنیا پر کئی دہائیوں تک رہینگے۔ بالخصوص پاکستان کی معیشت کو سنبھلنے میں ایک طویل عرصہ لگے گا اللہ تعالیٰ ہماے حال پر رحم کرے مگرافسوس ابھی بھی بعض تاجر پیشہ اور کرپٹ لوگ اللہ کے قہر وغضب سے نہیں ڈرتے۔ کئی پرائیویٹ ہسپتال ڈاکٹر اور رویہ ساز ادارے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں کوئی ادویات کی بلیک میں فروخت کررہا ہے کوئی آکسیجن سلنڈر مہنگے داموں فروخت کررہا ہے کوئی کرونا ٹیسٹ کے منہ مانگے پیسے وصول کررہا ہے۔ کوئی ہسپتال کرونا مریضوں سے ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے یومیہ چارج کررہا ہے خوف خدا ختم ہوگیا ہے۔ پاکستان میں غریب تو غریب بڑے بڑے سیاستدان صنعتکار پیسے والے لوگ کورونا میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ جن میں مسلم لیگ ن کی آدھی سے زیادہ فرنٹ لائن قیادت کورونا میں مبتلا ہو کر آئسو لیشن میں چلے گئے، مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں شہباز شریف دو سابق وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی، سابق اسپیکر سردار ایاز موجودہ اسپیکر اسد قیصر جو اب صحت یاب ہو کر واپس آگئے ہیں۔
وفاقی وزیر شیخ رشید احمد سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب ان کی و الدہ رکن اسمبلی طاہرہ اورنگزیب، اسپیکر کے پی کے اسمبلی مشتاق غنی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش لال اور بڑی تعداد میں اراکین قومی اسمبلی اور ارکان صوبائی اسمبلی شامل ہیں کئی موجودہ اور سابق وزراء اور اراکین اسمبلی کورونا وائرس کی وجہ سے اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد زیر علاج ہیں ان میں بڑی تعداد میں تشویشناک حالت میں ہیں یہ بات بھی درست ہے50 ہزار لوگ صحت یاب بھی ہوئے ہیں اس المناک وبا کی ابھی تک کوئی ویکسین نہیں ایجاد ہوئی۔ بس اس کا ایک ہی علاج آئسولیشن اور گھروں سے باہر نہ نکلنا اور جو لوگ باہر نکلیں بھی وہ مالک اور دیگر احتیاطی تدابیر میں ہیں۔ مگر وزیراعظم عمران خان کی اپیلوں اور میڈیا کی خبروں کا عوام کوئی اثر نہیں لے رہے۔