اسلام آباد (صباح نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان میں صدارتی ریفرنس کیخلاف مقدمہ کی سماعت کے دوران صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ذاتی حیثیت میں پیش ہوکر عدالت کو بتایا ہے کہ انکی اہلیہ ویڈیولنک پر لندن میں جائیدادوں سے متعلق سپریم کورٹ کو وضاحت دینے پر تیار ہیں۔
دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جوڈیشل کونسل صدر مملکت سے جج کے خلاف کارروائی کیلئے مزیدشواہد مانگ سکتی ہے، انہوں نے حکومتی وکیل فروغ نسیم سے کہا کہ آپ جذباتی ہورہے ہیں وکیل بہتر طور پر کیس پیش کرسکتا ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ ایگزیکٹو کو شتربے مہار کی طرح نہیں چھوڑ سکتے ایگزیکٹو کے اختیارات کا جائزہ لینے کیلئے عدالتی فیصلے میں کچھ چیزوں کا تعین کیا گیاہے، افتخار چوہدری کے ریفرنس کی طرح اس میں بھی سنگین غلطیاں ہیں، فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیس ایف بی آر کو بھیجنے کی تجویز منظور نہیں۔
جس پر حکومتی وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ ان کی اہلیہ قابل قبول وضاحت دے دیں تو مقدمہ ختم ہوجائیگا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ کا 10 رکنی فل کورٹ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں کر رہا ہے۔
حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدالت کے ایک سوال پر صدر مملکت اور وزیراعظم سے مشاورت کی ہے، وزیراعظم کہتے ہیں انہیں عدلیہ کا بڑا احترام ہے، ہمیں معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، ایف بی آر 2 ماہ میں فیصلہ کر لے، ایف بی آر کے ساتھ درخواست گزار جج اور اہلیہ تعاون کریں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت میں جواب داخل کرایا ہے، وزیر اعظم نے کہا ہے لندن میں میری ایک پراپرٹی بھی نکلے تو ضبط کر لیں اور پیسہ قومی خزانے میں ڈال دیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے اس جواب کا جائزہ نہیں لیا جب کہ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ جج نے نہیں کہا یہ جائیدادیں وزیراعظم کی ہیں۔
جواب میں ویب سائٹ کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔فروغ نسیم نے کہا کہ جج نے جواب میں وزیراعظم کے نام لندن کی پراپرٹیز بتائی ہیں۔کیس سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی عدالت میں پہنچے اور فروغ نسیم کے دلائل کے دوران عدالت سے بات کرنے کی اجازت مانگی۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری اہلیہ ویڈیو لنک پر جائیدادوں کی وضاحت دینا چاہتی ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جج صاحب آپ آئے ہیں تشریف رکھیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جج صاحب ماسک کی وجہ سے ہم آپ کو ٹھیک سے سن نہیں پا رہے، جس پر جسٹس قاضی فائز نے جواب دیا کہ مجھے میری اہلیہ نے ماسک ہمیشہ پہنے رکھنے کی تلقین کی ہے، تاہم انہوں نے چہرے سے ماسک اتارتے ہوئے کہا کہ اپنی اہلیہ کی تلقین کی خلاف ورزی کررہا ہوں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری اہلیہ ویڈیو لنک پر جائیدادوں کی وضاحت دینا چاہتی ہیں، جس پر ججز مشاورت کےلیے اٹھ کر اندر چلے گئے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ شہزاد اکبر نے گزشتہ روز ٹی وی پر آ کر زیر التواء مقدمے پر بات کی۔
کونسل میں ریفرنس سے بڑا جواب حکومت نے داخل کرا دیا ہے، حکومتی وکیل نے کہا کہ اہلیہ سلائی مشین چلاتی ہیں جس سے 5 یا 6 ملین پاؤنڈ آتے ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایسی بات نہیں ہے، جسٹس قاضی امین نے اس نقطے پر حکومتی وکیل کو روکا تھا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے لیے آپ کا بڑا احترام ہے لیکن آپ درخواست گزار ہیں۔
آپ کے وکیل موثر انداز میں یہ بات کر سکتے ہیں، آپ جذباتی ہو سکتے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں جذباتی نہیں ہوں، سابق اٹارنی جنرل نے کہا ساتھی ججز نے درخواست تیار کرنے میں مدد کی، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ اس بات کو چھوڑ دیں۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں التجا کرتا ہوں کہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کی جائے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے توہین عدالت کی کاروائی کی ہے۔میں آج اپنی اہلیہ کا اہم پیغام لایا ہوں۔
وہ جائیدادوں کے ذرائع بتانا چاہتی ہیں، اہلیہ کے والد کو کینسر کا عارضہ لاحق ہے، اہلیہ کہتی ہیں کہ ایف بی آر نے ان کی تذلیل کی ہے، اہلیہ ویڈیو لنک پر جائیداد سے متعلق بتانا چاہتی ہیں، عدالت اہلیہ کو ویڈیو لنک پر موقف دینے کا موقع دے۔