ایوانِ صدر ’’جمہوریت کی آخری نشانی‘‘ کے آسیب سے پاک کر دیا گیا تو ساری توجہ جنرل پرویز مشرف کی رسم تاج پوشی پر مرکوز ہو گئی۔ میں نے پہلی بار پانچویں منزل پر کتوں کو بھی دیکھا جن کی باگیں اہلکار تھامے ہوئے تھے اور وہ کونوں کھدروں میں لمبی تھوتھنیاں آگے بڑھائے کچھ سونگھتے پھر رہے تھے۔
سیکورٹی کے ایسے سخت انتظامات تھے جیسے آج پہلی بار کوئی صدر اس ایوان میں داخل ہو رہا ہو۔ میں پرنسپل سیکرٹری سعید احمد صدیقی کے کمرے میں جا بیٹھا۔ فیکس پر ایک فرمان موصول ہوا۔
اس کا سرنامہ تھا ’’چیف ایگزیکٹیو کا آرڈر نمبر 3مجریہ 2001ء‘‘ اس کا اہم ترین حصہ تھا: ’’خود کو حاصل تمام تر اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا چیف ایگزیکٹیو بصد مسرت و انبساط اس فرمان کا اجرا کرتا ہے کہ کسی بھی وجہ سے صدرِ مملکت کا عہدہ خالی ہو جانے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا چیف ایگزیکٹیو، اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کا صدر بن جائے گا‘‘۔
تقریب حلف برداری کا وقت سہ پہر چار بجے تھا۔ ساڑھے تین بجے تک دربار ہال مہمانوں سے کھچا کھچ بھر چکا تھا، جشن کا سا سماں تھا۔ پانچ منٹ پہلے، سیاہ شیروانی میں ملبوس جنرل مشرف بھی آگئے۔ وہ پانچویں منزل پر مخصوص صدارتی کمرے میں بیٹھ گئے۔ چار بج گئے۔
تقریب شروع نہ ہوئی۔ میں نے بریگیڈیئر راشد کو پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر آتے جاتے دیکھا۔ پوچھا ’’کیا مسئلہ ہے؟‘‘ بریگیڈیئر راشد سرگوشی کے انداز میں بولے ’’چیف جسٹس نے پھڈا ڈال دیا ہے سر، کہتے ہیں میں بھی جنرل مشرف کے ساتھ ہی ہال میں جائوں گا‘‘۔ بات پرویز مشرف تک پہنچی تو انہوں نے کہا ’’جیسے وہ کہتے ہیں ایسے ہی کریں‘‘۔
جنرل پرویز مشرف اور جسٹس ارشاد حسن خان ایک ساتھ، پہلو بہ پہلو، نپے تلے قدم اٹھاتے ہال کی طرف بڑھے، چیف جسٹس کی سج دھج دیدنی تھی۔ رسمی عدالتی پوشاک، سر پہ جناح کیپ، کندھوں پہ سیاہ ریشمی عبا جو کسی برگزیدہ مور کے پنکھوں جیسی طویل دم کی طرح بہت پیچھے تک چلی گئی تھی۔ ایک دراز قامت باوردی حاجب ریشمی عبا کی دُم کو فرش سے کوئی دو فٹ اوپر اٹھائے بصد احترام کئی میٹر پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔
’’پاک سرزمین شادباد‘‘ کی دلنواز گونج کے بعد قاری صاحب نے تلاوت فرمائی۔ سورۂ آل عمران کی وہی آیات کریمہ جو ایسے مواقع کے لئے مخصوص کر دی گئی ہیں۔ ’’آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے۔ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے...‘‘
جنرل پرویز مشرف نے آئین کے بجائے اپنا تراشیدہ حلف لیا ’’میں اپنے فرائض منصبی اپنی بہترین اہلیت اور صلاحیت کے ساتھ پوری دیانت سے 14؍اکتوبر 1999ء کی اعلان کردہ ایمرجنسی، پی سی او نمبر ایک مجریہ 1999ء اور وقتاً فوقتاً اس میں کی گئی ترامیم کی روشنی میں انجام دوں گا‘‘۔
جسٹس ارشاد حسن خان نے کچھ نہ پوچھا کہ یہ کون سا حلف ہے؟ مجھے اچھا لگا کہ صدر مشرف نے کمال دیانت سے کام لیتے ہوئے، آئین پاکستان کے تحفظ کو اپنے حلف سے خارج کر دیا۔ شاندار گارڈ آف آنر کے بعد صدر پرویز مشرف اپنی گاڑی میں بیٹھ کر رخصت ہو گئے جس پر اب صدارتی پرچم لہرا رہا تھا۔
سب سے اونچی مسند انصاف پر جلوہ فگن، جسٹس ارشاد حسن خان نے سنہری گوٹا کناری والی لمبی سیاہ ریشمی عبا کے ساتھ ایوانِ صدر تشریف لاتے ہوئے کسی سے نہ پوچھا کہ یہاں محمد رفیق تارڑ نامی ایک شخص ہوا کرتا تھا، وہ کہاں گیا! کیا اُس نے استعفیٰ دے دیا ہے؟ اگر نہیں تو کوئی اور شخص کیسے حلف اٹھا سکتا ہے؟
موسم پرستوں اور وقت شناسوں کی نگاہیں آئینی و قانونی نکات پر نہیں اپنی ترقی ٔدرجات پر مرکوز رہتی ہیں۔ 14جولائی کو صدر مشرف آگرہ گئے تو ارشاد حسن خان نے قائم مقام صدر کا حلف اٹھایا (وہی جو صدر مشرف نے اٹھایا تھا) صدارتی دفتر میں دو پرچموں کے درمیان بچھی کرسی پر آ بیٹھے جو ان کی منحنی سی جسامت اور باطنی قامت کے حوالے سے خاصی بڑی تھی۔
مختلف زاویوں سے تصویریں بنوائیں اور صدارتی تام جھام کے ساتھ ٹھنڈے مقامات کی سیاحت کو نکل گئے۔ بہت کوشش کی لیکن تین سالہ توسیع کا راستہ نہ بنا لیکن 6جنوری 2002ء کو ریٹائر ہونے کے ایک ہفتہ بعد تین سال کے لئے چیف الیکشن کمشنر تعینات کر دیئے گئے۔
تین سالہ عہد بے ننگ و نام میں پہلے حیا باختہ ریفرنڈم پھر 2002ء کے بے چہرہ انتخابات کے ذریعے اپنی بیاضِ ندامت میں ایک اور بابِ خجالت کا اضافہ کر کے رخصت ہو گئے۔
سابق صدر تارڑ سے ایک بار ایک نوجوان صحافی نے پوچھا ’’سر! 20جون کو جب آپ کو نکالا گیا تو آپ نے سپریم کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا؟‘‘ تارڑ صاحب نے سنجیدگی سے کہا ’’بیٹا میں گیا تھا سپریم کورٹ، لیکن دربان نے بتایا کہ چیف جسٹس صاحب جنرل مشرف کو صدارت کا حلف دینے ایوانِ صدر گئے ہیں، باقی سارے جج بھی وہیں تھے، سو میں واپس آ گیا‘‘۔
سات سال، ایک ماہ اٹھائیس دن بعد، 18اگست 2008ء کو حبس زدہ شام، صدر مشرف گارڈ آف آنر کا معائنہ کر چکے تھے، ان کی گاڑی اُسی پورچ میں کھڑی تھی، وہ گاڑی میں بیٹھے تو مسلح افواج کے سربراہوں نے انہیں سلیوٹ کیا، مشرف صاحب کا جوابی سلیوٹ بہت مضمحل اور ناتواں تھا جیسے کوئی خزاں رسیدہ شاخ ہوا کے جھونکے سے کپکپائی اور نیچے گر پڑی ہو۔
اُن کی گاڑی سے دونوں پرچم اتر چکے تھے۔ پانچوں بھاری بھرکم عہدے نجانے کہاں رہ گئے تھے۔ صدر تارڑ رخصت ہوئے تو ان کے چہرے پر گہرا سکوت تھا۔ مشرف گئے تو اُن کے چہرے پر کسی مفتوحہ شہر کے ’’سقوط‘‘ جیسی شکستگی تھی۔ ان کی بے بال و پر گاڑی، کئی گاڑیوں کے جلو میں مارگلہ کی پہاڑیوں کو کھلنے والے اسی شمالی گیٹ سے باہر نکل گئی جس سے محمد رفیق تارڑ کا بے آب و رنگ قافلہ نکلا تھا۔
ایک برس بعد وقت نے ایک عجیب کروٹ لی۔
_______________(جاری ہے)