کراچی(ٹی وی رپورٹ)سابق چیف جسٹس نے پروگرام جرگہ میں سلیم صافی کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے آپ کو صرف پاکستانی سمجھتے ہیں ، اکبر بگٹی مرحوم نے مجھے ایڈو کیٹ جنرل آف بلوچستان نامز د کیا ، جہاں تک نواب اکبر بگٹی کی بات ہے جب تک میں بلوچستان کا ایڈو کیٹ جنرل تھا مجھ سے جو کچھ ہوا میں نے ان کا کیا اور ان کے تمام خاندان کو اس کا پتا ہے ، لیکن جب میں ہائیکورٹ کا جج بن گیا اور ہائیکورٹ کا جج ایک حلف کے نیچے ہوتا ہے اور اس حلف کے نیچے آپ نے بغیر کسی ڈر و خوف کے اور بغیر کسی پسندیدگی کے فیصلے کرنا ہوتے ہیں ۔ انہوں نے پرویز مشرف کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدرپرویز مشرف کے ساتھ ان کا کوئی ذاتی جھگڑا نہیں تھا ، اختلاف صرف اس بات کا تھا کہ یا تو ریاستی قانون اس ملک میں چلنا ہے یا پھر شخص قانون ، اسی بات پر ان کے اور ہمارے اختلافات ہوئے کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ اب اس ملک میں آئین کا بول بالا ہونا چاہئے ۔ سلیم صافی کے سوال کہ پھر آپ نے پی سی او کے تحت حلف کیوں لیااور اس بینچ کا حصہ کیوں رہے جنہوں نے پرویز مشرف کے فیصلوں کو قانونی جواز فراہم کیا کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو نظام کی بقا ء چاہئے ہوتی ہے تو کسی جگہ آپ کو اس قسم کے فیصلے بھی لینا پڑتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسی فیصلے کی وجہ سے اللہ نے ہمیں موقع دیا کہ ہم نے اس ملک میں آئین کی بالادستی کا بول بالا کیا اور اب کسی کو اس ملک میں مارشل لاء لگانے کی جرات نہیں ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ جب پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا تو اس کے بعد نواز شریف کے ساتھ بہت سے لوگ آمریت کے خلاف جدوجہد کرتے اگر نواز شریف اس ملک میں موجود رہتے ، جب آپ کسی آمر کے ساتھ مفاہمت کرکے اس ملک سے باہر چلے جائیں تو اس ملک میں تبدیلی نہیں آسکتی ، میرے ایک انکار کرنے پر مجھ پر بدترین ریاستی جبر کیا گیا ۔ پی سی او پر حلف اُٹھانے کے حوالے سے انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے بینچز ہوتے ہیں، وہاں پر بیٹھ کر جب فیصلے ہورہے ہوتے ہیں تو اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ادارے کو آپ نے کیسے بچانا ہے ، پاکستان میں ہمیشہ عدلیہ نے ہی مزاحمت کی ہے۔ انہوں نے قوم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس قوم کے ہر اُس فرد کا شکریہ ادا کرتے ہیں جس نے آئین کی بحالی کے لیے جدوجہد کی، جس عدلیہ کو میں ہیڈ کررہا تھا اور جس کا میں آٹھ سال تک چیف جسٹس رہا ، ہم نے اس دوران ہر قسم کے کیس نمٹائے اور ان طبقات جن کی کوئی بات سُننے کو بھی تیار نہیں تھا ، ان کے ہم نے عدالتی فیصلوں کے ذریعے حقوق منوائے ۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے اندر رہتے ہوئے انہوں نے جس قدر بھی اصلاحات ممکن تھیں وہ میں نے متعارف کروائیں۔