1973ء میں ریاض شاہد کی لکھی ہوئی فلم ’’زخمی‘‘ میں طارق عزیز نے ایک انقلابی شاعر کا کردار کیا۔ اس فلم میں وہ اسپتال میں مریض کی حالت میں اداکاری کرتے نظر آئے اور اُن پر حبیب جالب کا لکھا ہوا ایک گانا’’ یہ لوگ ہیں کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے
اس درد کی دُنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے‘‘
اور بروز بدھ 17جون کو طارق عزیز 84سال کی عمر میں واقعی اس گانے کے دوسرے مصرعے کو حقیقی رنگ دیکر واقعی اس درد کی موجودہ دُنیا سے دیکھتی آنکھوں اور سُنتے کانوں کو سوگوار کرکے رخصت ہوگئے۔ یہ عظیم سانحہ ٔ ارتحال ہے، یہ ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت کی موت ہے، جس کے بارے میں شاعر مشرق نے کہا تھا کہ
’’ہزار سال نرگس اپنی بے نُوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘۔ طارق عزیز کو کیا لکھیں صدا کار، اداکار، شاعر، سیات دان، صحافی، دانش ور، میزبان یعنی یہ وہ تمام لفظ بھی شاید کم پڑ جائیں، ان کی شخصیت کا احاطہ کرنے کے لیے۔
28اپریل 1936ء متحدہ ہندوستان کے تحصیل شاہ کوٹ جالندھر مشرقی پنجاب کے آرائیں خاندان میں وہ پیدا ہوئے۔ ان کے والد عبدالعزیز نے پاکستان بننے کے بعد اپنے نام کے ساتھ لفظ ’’پاکستانی‘‘ لگا کر اپنی تمام عمر اسی نام سے بسر کی۔ طارق عزیز نے عملی زندگی کا آغاز بہ طور صداکار ریڈیو لاہور سے کیا۔ اپنے ترقی پسندانہ نظریات کی وجہ سے وہ اپنے حلقے میں مشہور تھے۔ 1964ء میں پاکستان ٹی وی کا وجود میں آیا تو، وہ پہلے مرد انائونسر بنے۔ ٹی وی کے حوالے سے ان کا شمار ایک لیجنڈ کے طور پر ہوتا ہے۔ اسی سال ان کا ٹی وی ڈراما’’جیب کترا‘‘ نشر ہوا، جس میں انہوں نے ’’جیب کترے‘‘ کا کردار ادا کیا تھا۔
یہ ٹی وی کا ابتدائی دور تھا۔ ہدایت کار جمیل اختر، مصنف ریاض شاہد سے ان کے نظریاتی ہم آہنگی تھی، ان ہی دِنوں کا ذِکر ہے، جمیل اختر فلم ’’خاموش رہو‘‘ کی ڈائریکشن دے رہے تھے، جس میں انہوں نے طارق عزیز کو وکیل کا ایک مختصر کردار سونپا۔ یہ وہ فلم تھی، جس نے محمد علی کو عروجِ بام بخشا اور وہ وِلن سے ایک کام یاب ہیرو بن کر ابھرے۔ دو صداکار جب فلم کے عدالت والے آخری مناظر میں آمنے سامنے آئے، تو مکالمہ بازی شروع ہوئی اور اسی منظر نے محمد علی کی کایا پلٹ دی۔ طارق عزیز نے اس فلم میں وکیل کا مختصر کردار کرنے کے بعد تین سال تک کسی فلم میں کام نہیں کیا۔ وہ ٹی وی پر کام کرتے رہے۔ 1967ء میں شباب پروڈکشنر نے اپنی دو فلموں میں طارق عزیز کو سیکنڈ ہیرو کے طور پر کاسٹ کیا۔ ان میں ایک سپرہٹ اردو فلم ’’انسانیت‘‘ میں ان کا کردار ایک ایسے مریض کا تھا، جو زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا۔
نامور اداکارہ زیبا اس فلم میں ان کی وفاشعار بیوی کے کردار میں تھیں۔ وحید مراد فلم کے ہیرو تھے۔ زیبا اپنے والد کے کہنے پر طارق عزیز سے شادی پر رضامند ہو جاتی ہیں، جب کہ وحیدمراد کا کردار ڈاکٹر کا تھا۔ مریض اور ڈاکٹر کے درمیان کھڑی فلم کی ہیروئن ایک عجیب کش مکش میں تھی، ایک طرف اس کی محبت تھی ، دوسری طرف اس کا شوہر جس کے لیے وہ کہتی ہے’’میرے ہمدم میرے ساتھی میں تیری غم ساز ہوں‘‘۔؎
ان کی دوسری فلم ’’دل دیوانہ‘‘ تھی۔ اسی سال ہدایت کار رشید چوہدری کی پنجابی فلم ’’میلہ‘‘ ریلیز ہوئی، جس میں انہوں نے اداکارہ عالیہ کے شوہر کا کردار نبھایا۔ یہ فلم شباب کیرانوی کی سپرہٹ اردو گولڈن جوبلی فلم ’’مہتاب‘‘ کا ری میک تھی۔ اچھی کہانی کے باوجود ڈائریکشن کی کمزوری کی بِنا پر یہ فلم نہ چل سکی۔ اس سال ریلیز ہونے والی موسیقار ہدایت کار خواجہ خورشید انور کی منفرد سپنس موضوع پر کلاسیک اردو فلم ’’ہمراز‘‘ میں وہ اداکارہ نبیلہ کے شوہر کے کردار میں نظر آئے۔ ’’ہمراز‘‘ میں محمد علی اور شمیم آراء کے علاوہ آغا طالش نے اہم کرادار ادا کیے۔
طارق عزیز کے فلمی کیریئر میں کُل ریلیز شدہ فلموں کی تعداد 42ہے۔ ’’میلہ‘‘ کے بعد ہدایت کار حیدر چوہدری کی یادگار سپرہٹ فلم ’’روٹی‘‘ ان کی پہلی کام یاب فلم قرار پائی۔ اس فلم میں مرحوم اکمل اور فردوس نے مرکزی کردار ادا کیے تھے، جب کہ طارق عزیز نے ایک اہم رول پلے کیا۔ یہ فلم 1968ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اسی سال بہ طور ہیرو ان کی پہلی فلم ’’کٹاری‘‘ ریلیز ہوئی، جس میں اداکارہ زمرد نے طارق عزیز کے مدِمقابل ہیروئن کا کردار ادا کیا۔ فلم کے ہدایت کار رزاق تھے۔ موسیقار ایم اشرف نے اس فلم کے نغمات کمپوز کیے، جن میں ملکہ ترنم نور جہاں کا گایا ہوا یہ گیت’’ ؎
بنسری بجا کے تو نے نیندیا اُڑائی تو نے تیری قسم سانوریا میں تو تیری ہوگئی‘‘ بے حد مقبول ہوا تھا۔ اس فلم میں انہوں نے بنجارے کا کردار نبھایا تھا۔ اسی سال ریلیز ہونے والی بابا قلندر کی اردو فلم ’’زندگی‘‘ میں طارق عزیز نے ایک ایسے شاعر کا کردار ادا کیا، جو محبت میں ناکام ہوتا ہے۔ اداکارہ غزالہ فلم کی ہیروئن تھیں، جب کہ ٹی وی کے معروف اداکار شکیل فلم کے ہیرو تھے۔ یہ ٹرائی اینگل لو اسٹوری تھی۔ اس فلم میں اُن پر چند خُوب صورت گیت بھی فلمائے گئے، جن میں گلوکار احمد رشدی کا گایا ہوا یہ گیت ؎ میرے نغمات سے حسین میرے گیتوں سے حسین ؎ اور شہنشاہ غزل مہدی حسن کا گایا ہوا یہ گیت ؎کچھ آہیں کچھ آنسو لے کرپیار کا محل بنایا، ؎خاص طور پر مقبول ہوئے۔ ان گیتوں کے شاعر سلیم کاشر تھے، جب کہ موسیقار ماسٹر عبداللہ تھے۔
اسی عنوان سے 1978ء میں ہدایتکار نذرالاسلام نے ایک بہت ہی معیاری خُوب صورت فلم بنائی، جس میں ندیم اور بابرہ شریف نے اپنے فنی کیریئر کے یادگار کردار ادا کیے۔ یہ سپرہٹ فلم طارق عزیز کے کیریئر کی ایک ایسی فلم ثابت ہوئی، جس میں ان کا فلمی کردار ان کی حقیقی زندگی کے نظریات کی عکاسی کرتا دکھائی دیا۔ یہ کردار ایک ایسے مُحب وطن اور انسان دوست کا تھا، جس نے ایک ظالم کے سامنے حق بات کہتے ہوئے اپنی جان دی تھی۔ ظالم کا کردار فلم میں مصطفیٰ قریشی نے کیا تھا۔ طارق عزیز نے روحی بانو کے شوہر اور ندیم کے باپ کے کردار میں شان دار کردار نگاری کا مظاہرہ کیا تھا۔
1969ء میں ہدایت کار قمر زیدی کی گولڈن جوبلی نغماتی فلم ’’سالگرہ‘‘ کا شمار بھی طارق عزیز کے کیریئر کی ایک یادگار فلم کے طور پر ہوتا ہے۔ اس فلم میں انہوں نے اداکارہ شمیم آراء کے باپ کا رول کیا تھا۔ جس کی بیٹی بچپن میں اغوا ہو جاتی ہے۔ بعض جذباتی مناظر میں ان کی کردار نگاری پر حقیقی گمان گزرتا تھا۔ وحید مراد فلم کے ہیرو تھے۔ اسی سال فلم ساز و ہدایتکار اے جے کاردار نے انہیں اپنی بین الاقوامی معیار کی ایئرفورس کے موضوع پر بننے والی پہلی تجرباتی فلم ’’قسم اُس وقت کی‘‘ میں اُس وقت کے صفِ اول کی ہیروئن شبنم کے مقابل ہیرو کا کردار سونپا ، جو ایک فوجی پائلٹ کا تھا۔
ایئرفورس کی خدمات کو اس فلم کے ذریعے زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔ اس فلم کے فوٹو گرافی کے لیے انگریز فوٹوگرافر فاروق مارشل کو یورپ سے بلایا گیا تھا۔ یہ اُس دور میں کثیر سرمایہ سے بننے والی ایک بہت ہی خُوب صورت معیاری فلم تھی۔ سہیل رعنا، خان عطاء الرحمٰن خان اور نتھو خان نے اس فلم کے نغمات کی دُھنیں بنائی تھیں اور ان نغمات کے شاعر جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض اور فیاض ہاشمی تھے۔ خاص طور پر اس فلم کا ایک ترانہ جسے مجید عالم نے اپنی آواز میں ریکارڈ کروایا تھا’’قسم اس وقت کی جب زندگی کروٹ بدلتی ہے‘‘؎
آج بھی جب سماعتوں سے گزرتا ہے تو رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ یادگار فلم 12دسمبر عیدالفطر کے دن کراچی کے نشاط سنیما میں ایوری ریڈی پکچرز نے ریلیزکی تھی، کاروباری حوالے سے یہ فلم کوئی کام یابی حاصل نہ کرپائی، لیکن اس پروڈکشن نے پاکستان کی فلمی صنعت میں نئے تجربے کی بنیاد رکھی۔ فلم کے دیگر اداکاروں میں روزینہ، روزی، سورن لتا کے نام بھی شامل تھے۔ یہ اردو اور بنگلہ زبانوں میں بنائی گئی تھی۔ اگرچہ یہ فلم سپرہٹ ہو جاتی تو ممکن ہے کہ طارق عزیز بہ طور سولو ہیرو مزید کچھ اور فلموں میں کاسٹ کیے جاتے۔ ایک پائلٹ کی پیشہ وارانہ خدمات کو انجام دینے کا یادگار کردار طارق عزیز کے فلمی کیریئر کا بہت بڑا کردار تھا۔ یہ ان کے فلمی کیریئر کی واحد فلم تھی، جس میں وہ سولو ہیرو آئے تھے۔
1970ء میں جب وہ پاکستان ٹیلی ویژن پر ملازمت کررہے تھے، تو لاہور کے قریب ایک علاقہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہے، جہاں ان دنوں ایک کسان کانفرنس ہورہی تھی، جس میں سابقہ مشرقی پاکستان کے سوشلسٹ رہنما مولانا بھاشانی شریک ہوئے تھے۔ طارق عزیز بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ ان دنوں بے حد متحرک تھے۔ اس کانفرنس میں ان کا شعلہ بیاں خطاب ہوا، جس نے حکومتی ٹی وی پر ان کے لیے دروازے بند کردیے۔ ملازمت جانے کے بعد وہ فلموں میں بہ طور اداکار زیادہ دل چسپی لینے لگے۔ اس سال ان کی تین فلمیں ’’پرائی بیٹی، سوغات اور کردار ریلیز ہوئیں۔
یہ تینوں فلمیں کراچی میں بنیں تھیں۔ پرویز ملک کی سوغات میں ان کی کردار نگاری اور مکالموں کی ادائیگی کو فلم بینوں نے بے حد سراہا تھا۔ ندیم اور روزینہ کے ساتھ زمرد اور طارق عزیز کے کردار لوگوں نے بے حد پسند کیا۔ بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی اُن دنوں پورے ملک میں ’’ روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کے نعرے سے عوام میں مقبولیت حاصل کررہی تھی۔ طارق عزیز بھٹو کے سیاسی نظریات سے متاثر ہوکر اس میں عملی طور پر شامل ہوچکے تھے۔ 1971ء میں وہ سیاست میں زیادہ سرگرم رہے۔ اس سال سانحۂ مشرقی پاکستان پیش آیا اور ملک دولخت ہوگیا۔ مغربی پاکستان میں بھٹو حکومت قائم ہوئی، اس دو فلمیں ’’افشاں‘‘ اور ’’چراغ کہاں روشنی کہاں‘‘ میں طارق عزیز نے اولڈ کیریکٹر کیے۔1972ء میں شباب پروڈکشنز کی ’’بازار‘‘ اور اکبر علی اکبر کی ایکشن فلم ’’سوداگر‘‘ میں انہیں اہم کردار سونپے گئے۔ ان دونوں فلموں میں ان کی اداکاری میں سیاسی لیڈر کے رنگ نے لے لی، مکالموں کی ادائیگی میں تقریری انداز فلم بینوں پر گراں گزرا، تنقید نگار اور تجزیہ نگاروں نے ان کی اداکاری اور مکالموں کی ادائیگی پر اوور ایکٹنگ کا لیبل چسپاں کیا ، جو کسی حد تک صحیح بھی تھا، وہ اس انداز سے پھر باہر نے نکل پائے۔ 1973ء میں بھٹو دور میں بہ طور فلمساز انہوں نےاپنی ذاتی فلم ’’جئے بھٹو‘‘ کا آغاز کیا، جس پراعتراضات ہوئے اور یہ فلم بعد میں دو سال کے بعد 1975ء میں ’’ساجن رنگ رنگیلا‘‘ کے نام سے ریلیز ہوکر ناکام رہی، اس فلم میں صرف ملکہ ترنم نور جہاں کا ایک گانا’’ کانٹوں پر چلتی ہوئی آئی تیرے گائوں میں؎‘‘ اس فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوا۔ یہ مقبول سدابہار گانا اپنے دور کی سپر اسٹار ممتاز پر فلمایا گیا تھا۔ طارق عزیز نے اس فلم میں مزدور لیڈر کا کردار ادا کیا تھا، ان کے مدمقابل اداکارہ دیبانے ہیروئن کا کردار کیا تھا، جب کہ فلم کا مرکزی کردار رنگیلا اور ممتاز نے ادا کیے۔
فلم سالگرہ کے بعد ہدایت کار قمر زیدی نے 1974ء میں اپنی فلم ’’ایماندار‘‘ میں طارق عزیز کو اداکارہ دیبا کے عیاش اور ظالم شوہر کے کردار میں کاسٹ کیا۔ رنگیلا، نِشو، منور ظریف اور ننھا اس کی کاسٹ میں شامل تھے۔ اداکار قوی سے طارق عزیز کی دوستی بڑی گہری رہی تھی۔ ان کی ذاتی پروڈکشن میں بننے والی دو فلموں ’’بے ایمان‘‘ اور ’’منجھی کتھے ڈاہواں‘‘ میں طارق عزیز نے بہ طور مہمان اداکار بلامعاوضہ کام کیا۔ 1975ء میں اداکار حبیب کی ذاتی فلم ’’ہار گیا انسان‘‘ میں طارق عزیز نے ایک مفکر کا کردار کیا، جو دولت کے نشے میں خدا کو بھول جاتا ہے۔ نیر سلطانہ نے ان کی نیک بیوی کا کردار ادا کیا تھا ، جب کہ ندیم، حبیب اور اسلم پرویز ان کے بیٹے بنے تھے۔ فلم کے ایک منظر میں زلزلہ آتا ہے اور خدا کو بھولنے والے مفکرکو اس کی سزا ملتی ہے۔ بیوی بچے اور دولت سب اُس سے چلی جاتی ہے، تو اسے آواز آتی ہے’’ ہار گیا انسان خدا سے ہار گیا انسان خدا سے‘‘؎ بیوی بچوں کے بچھڑنے کے بعد اُسے اپنی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے، یہ بھارتی فلم ’’وقت‘‘ کا چربہ تھی۔ ایس ایم یوسف جیسے ہدایت کار کے فلمی کیریئر پر یہ فلم ایک بدنما دھبہ ثابت ہوئی۔ اسی سال ہدایت کار ایم سلیم کی پنجابی فلم ’’بلونت کور‘‘ میں طارق عزیز نظر آئے۔
سکھوں کے کلچر پر بننے والی اس فلم میں اداکارہ نیلو نے بلونت کور کا عنوانی کردار ادا کیا۔ سلطان راہی فلم کے ہیرو تھے، جن کا اس فلم میں ڈبل رول تھا۔ اداکارہ سنگیتا اور شاہد بھی اس فلم کے سیکنڈ پیئر بھی تھے۔ اس فلم سے متاثر ہوکر سکھوں کے رہن سہن اور ثقافت کو سنگیتا نے فلم ’’مٹھی بھر چاول‘‘ کے نام سے فلمائی۔ 1979ء میں فلم ساز و ہدایت کارہ شمیم آرا کی مس سیریز کی پہلی بلاک بسٹر ڈائمنڈ جوبلی فلم ’’مس ہانگ کانگ‘‘ کا شمار بھی طارق عزیز کی اعلیٰ کردار نگاری کے چند فلموں میں ہوتا ہے۔ اس فلم میں وہ ایک مُحب وطن سائنس دان پروفیسر ہوتے ہیں، جو ملک دشمن گروہ کے قیدی بنے ہوتے ہیں، وراسٹائل اداکارہ ماڈل بابرہ شریف نے اس فلم میں ’’مس ہانگ کانگ‘‘ کا پاور فلم کردار کرکے نئی تاریخ رقم کی تھی۔ بابرہ نے ڈبل رول میں چونکا دینے والی عمدہ اداکاری کی۔ طارق عزیز نے ان کےباپ کا رول کیا۔ بابرہ اور طارق عزیز کےمناظر پر فلم بین تالیاں بجا کر داد دیتے تھے۔ باکس آفس پر اس فلم نے بزنس کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔
بہ طور اداکار طارق عزیز کی چند قابل ذکر فلموں کے بعد ان کی دیگر فلموں میں ’’حکومت‘‘، ’’پرستان‘‘، ’’کبڑا عاشق‘‘، ’’اللہ میری توبہ‘‘، ’’شعلہ‘‘، نشانی‘‘، ’’پیاری‘‘، ’’ماں بنی دلہن‘‘ کے نام بھی شامل ہیں۔
فلمی دنیا میں کوئی نمایاں کام یابی نہ پانے والے اس اداکار پر قدرت ٹی وی پروگرام ’’نیلام گھر‘‘کے حوالے سے ایسی مہربان ہوئی کہ وہ اس پروگرام کے ذریعے پوری دُنیا میں معروف ہوگئے۔ نیلام گھر جب شروع ہوا اور اس کوئز پروگرام کو پاکستان کا طویل ترین کوئز پروگرام کا مقام حاصل ہوا، جو بعد میں بزم طارق عزیز کے نام سے بھی نشر ہوتا رہا۔ یہ ٹی وی کا پہلا پروگرام تھا، جو لوگوں کو علم بھی دیتا تھا اور انعامات بھی، جس کے دعوت نامے، پاسز کے لیے لوگ بڑی بڑی سفارشیں لگاتے تھے۔ ٹی وی کے اس معلوماتی پروگرام میں ایسے ایسے دل چسپ سیگمنٹس ہوتے تھے کہ سامعین کو اس پروگرام کا پورا ہفتہ انتظار رہتا تھا۔ بڑے بڑے فلمی اداکار بھی اس پروگرام میں شرکت کے متمنی ہوتے تھے۔
طارق عزیز کا انداز میزبانی جب وہ کہتے ’’دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام‘‘ تو لوگ ہمہ تن گوش ہوکر اس پروگرام سے لطف اندوز ہوتے۔ وہ پاکستان کے پہلے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اینکر پرسن تھے۔ ٹی وی کے پہلے انائونسر اور نیلام گھر کے لیجنڈ میزبان، پرائیڈ آف پرفارمنس، قومی اسمبلی کے ممبر طارق عزیز کے انتقال پرملال پر دیکھتی آنکھ آج اشکبار ہے تو سنتے کان اور بولتی زبانیں خاموش ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرما کر اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ (امین)