اسلام آباد(انصار عباسی) بیرون ملک اثاثوں کے بارے میں شریف خاندان کا انکار اور پھر اقرار سامنے آیا لیکن مشرف دور حکومت میں نیب کے پاس ان معاملات کو احتساب عدالت میں لے جانے کیلئے خاطر خواہ ثبوت نہیں تھے۔شریف خاندان کو 90کی دہائی کے وسط سے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں آف شور کمپنیوں سے منسلک کیا جاتا رہا ہے اورقومی احتساب بیورو( نیب) نے جنرل مشرف کے دور حکومت میں ان کی لندن میں جائیدادوں کی چھان بین کی تھی لیکن شواہد کی کمی کے باعث کوئی ریفرنس دائر نہ کیا جاسکا۔ ایک آمر کے دور میں نیب کے پاس اتنے ثبوت نہیں تھے کہ وہ ان معاملات کو احتساب عدالت میں لے جاسکے ۔ تاہم دلچسپ طور پر اب جبکہ یہ کیسز نیب کے بڑے کیسوں کی فہرست میں شامل نظر نہیں آتے، وزیر اعظم نواز شریف نے دونوں آف شور کمپنیوں کی اور لندن میں جائیدادوں کی ملکیت کو تسلیم کرلیا۔ ان کا دعویٰ ہےکہ یہ آف شور کمپنیاں اور لندن میں جائیدادیں 2006میں خریدیں گئیں لیکن مقامی اور غیرملکی میڈیا ان کو شریف خاندان کے اثاثے 90کی وسط سے بتاتا رہا۔ مشرف دور میں ایون لندن پراپرٹی کے بارے میں نیب نے تحقیقات کی تھیں،جوکہ مبینہ طور پر 90کی دہائی کے آغاز سے ہی نواز شریف کے خاندان کی ملکیت تھی۔ اب ان ہی جائیدادوں کو آف شور کمپنیوں سے جوڑا جارہا ہے ، جوکہ اس وقت وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے سامنے بار بار آرہا ہے۔ دلچسپ طورپر شریف خاندان کے خلاف لندن میں جائیدادوں کی تحقیقات کی عکاسی نیب کی جانب سے مرتب کردہ 179بڑے کیسز کی فہرست میں نہیں ہوتی۔ نیب کی جانب اس بابت کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی کہ وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف لندن میں جائیدادوں کی انکوائری کا مقدر کیا ہے۔ مشرف کے دور حکومت میں نیب نے احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے تھے، لیکن ان میں سے کوئی کیس ان کے خلاف ثابت نہ ہوسکا۔ یہ ریفرسنز1) حدیبیہ پیپر ملز لمیٹڈ کیس ، جس میں نیب نے میاں نواز شریف ، میاں شہباز شریف ، مرحوم میاں عباس شریف ، حسین نواز ، حمزہ شہباز شریف ، مسز شمیم اختر ، مسز صبیحہ عباس ، مسز مریم صفدر اور مرحوم میاں محمد شریف کو شامل کیا، (2) اتفاق فاؤنڈریز کوجان بوجھ کر 1.06 ارب روپے کیلئے بینک دیوالیہ قرار دینے کے کیس میں میاں نواز شریف ، شہباز شریف ، میاں عباس شریف، مرحوم میاں محمد شریف ، کمال قریشی اور مختار حسین کو ملزم قرار دیا گیا،3) اثاثہ جات کیس میں الزام عائد کیا گیاکہ نواز شریف کے پاس ظاہر ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے اور رائیونڈ میں متعدد پرتعیش گھر اور حویلیاں ہیں۔ درج بالا تینوں کیسز بشمول حدیبیہ پیپر ملز کیس اور جان بوجھ کر بینک دیوالیہ کیس کا فیصلہ شریف خاندان کے حق میں آیا۔ ان ریفرنسز کے علاوہ مشردف دورحکومت میں نیب میں شریف خاندان کے 6 معاملات کی تحقیقات کی گئیں ۔ ان میں 1) میاں نواز شریف کے خلاف ایف آئی اے میں غیر قانونی تقرریوں کا کیس،2) میاں نواز شریف کے خلاف بطور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب رائیونڈ تا شریف ہاؤس سڑک کی تعمیر میں اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے قومی خزانے کو 12کروڑ50لاکھ روپے کا نقصان پہنچانے کا کیس،3) نواز شریف کے خلاف شریف ٹرسٹ کیس میں، جس میں ٹرسٹ پر منی لانڈرنگ، ٹرسٹ کے فنڈزکے غبن، اور شریف ٹرسٹ کے نام پر بے نامی اثاثہ جات حاصل کرنے میں ملوث ہونے کاالزامات عائد کیا گیا،4) لندن جائیداد کیس نواز شریف و دیگر کے خلاف دائر کیا گیا، جوکہ ایون فیلڈز جائیداد کی ملکیت کے حوالےسے تھا،5) نواز شریف کی جانب سے پی آئی اے میں غیر قانونی تقرریاں،6)لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی(ایل ڈی اے) کے پلاٹوںکی الاٹمنٹ میں بدعنوانی کے حوالےسے سابق وزیر اعلیٰ نواز شریف، سابق ڈی جی ایل ڈی اے بریگیڈئر منظور ملک، سابق ڈائریکٹر اسٹیٹ اور شاہد رفیع کے ملوث ہونے کا کیس۔ اس کے علاوہ مشرف دور حکومت میں نیب میں شریف خاندان کے خلاف دو اور انکوائریاں ہوئیں تھی، جس میں ایل ڈی اے کے پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی شکایت اور مبینہ طور پر ایک اور شکایت جس میں الزام عائد کیا گیا کہ میاں عطا اللہ کو گلشن راوی اسکیم میں ایک پلاٹ الاٹ کرنے کے بجائے 12پلاٹ الاٹ کرکے سرکاری زمین پر گھپلا شامل ہے۔ اس وقت ان 6 تحقیقاتوں اور 2 انکوائریوں میں سےصرف دو کیسز نیب کی بڑے کیسز کی فہرست میں شامل ہیں، جن میں 1) میاں نواز شریف کے خلاف ایف آئی اے میں غیر قانونی تقرریوں کا کیس، 2) میاں نواز شریف کے خلاف بطور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب رائیونڈ تا شریف ہاؤس سڑک کی تعمیر میں اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے قومی خزانے کو 12کروڑ50لاکھ روپے کا نقصان پہنچانے کا کیس شامل ہیں۔ نیب کی جانب سے میڈیا کو کبھی نہیں بتایا گیاکہ دیگر انکوائریوں اور تحقیقاتوںکا مقدر کیا بنا۔