مجیب ظفر انوار حمیدی
آپ نے اکثر یہ جملہ سنا ہوگا کہ کسی ملک کی ترقی میں نوجوانوں کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ذرا سوچیے!نوجوان کسے کہتے ہیں؟نوجوانی آپ کی عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے،جب آپ بچپن کے دور سے نکل چکے ہوتے ہیں،لیکن ابھی پختہ عمریا سنِ شعور کی حدود میں داخل نہیں ہوئے ہوتے،یہاں پر شاید لفظ’’سن شعور‘‘پڑھ کر آپ ٹھٹھک گئے ہوں گے۔شاید آپ میں سے اکثر کواپنے والدین سے کبھی نہ کبھی یہ سننا پڑا ہوگا کہ تمہیں تو کسی چیز کا شعور ہی نہیں۔اگرچہ ہم عام بول چال میں عقل و شعور ملا کر بولتے ہیں،لیکن در حقیقت ان دونوں الفاظ کےمعنی الگ الگ ہیں۔
عقل تو وہ صلاحیت ہےجو آپ کے اندر اللہ تعالیٰ نےآپ کی پیدائش کے ساتھ پیدا کی ہے،لیکن شعور،یعنی صحیح اور غلط اور فائدے اور نقصان کےدرمیان تفریق کا ادراک اور اس ادراک کی روشنی میں کسی بھی عمل کو سرانجام دینا،یہ وہ صلاحیت ہے،جو علم ،مشاہدے اور تجربے کے ساتھ حاصل ہوتی ہے۔آپ کے بزرگ استاد وغیرہ اپنی عمر کے جس حصے میں داخل ہو چکے ہیں،وہاں انہیں اپنے مشاہدوں اور تجربوں اور شاید اپنی غلطیوں سے بھی،بہت سی ان باتوں کا ادراک ہو چکا ہے،جو ابھی شاید آپ کو نہیں ہے۔
لہذاان کے مشورے، نصیحتیں اور کبھی کبھی جھنجلا کے کہا گیایہ جملہ کہ تم کوکسی چیز کا شعور نہیں،دراصل ان کی وہ خیرخواہی ہے،وہ آپ کو ان غلطیوں سے بچانا چاہتے ہیں،جنہیں وہ یا تو خود کر چکے ہیں یادوسروں کو کرتے دیکھ چکے ہیں یا آپ کو دیکھ رہے ہیں،ورنہ یہ یقین رکھیں کہ آپ کے بزرگ کو آپ کی عقل آپ کی صلاحیتوں پرکوئی شبہ نہیں،تبھی تو وہ آپ سے یہ کہتے ہیں کہ قوم کی تعمیر و ترقی میںنوجوانوں کا سب سے بڑا کردار ہے۔
درحقیقت نوجوانی کادور وہ دور ہوتا ہے جب انسان کے ارادے ،جذبے اور توانائی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔اگر ان جذبوں اور توانائی سے قوم و ملک فائدہ نہ اٹھا سکیں تو یہ انتہائی بڑا نقصان ہے۔اگر ہم اعدادوشمار کا جائزہ لیں توپاکستان کی آبادی کاتقریباً ساٹھ فی صدحصہ نوجوانوں پرمشتمل ہے۔یہ وہ نوجوان ہیں جو صلاحیتوں سے بھرپور ہیں۔جن کے عزائم بلند ہیں۔جن کے ارادے جوان ہیں۔جو مایوس نہیں ہیں اور جن کو اپنے ملک سے محبت ہے اور اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے۔
ضرورت اب صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے سامنے ایک واضح خاکہ اور منصوبہ بندی ہو تاکہ ہمارے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے کس طرح ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔یہ کام حکومت، والدین ،اساتذہ کرام اور خود نوجوانوں ،سب کو مل کر کرنا ہے۔اس وقت چوں کہ ہمارے مخاطب نوجوان ہیں اس لیے جو کام انہیں کرنا ہے اس پر ہم زیادہ بات کریں گے۔
اس حوالے سے سب سے بنیادی چیز بہترین تعلیم کا حصول ہے۔بہترین تعلیم کا مطلب مہنگے اور مشہور تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا نہیں ہے،بلکہ اپنے وسائل اور استعداد کے مطابق آپ جہاں بھی تعلیم حاصل کررہے ہوں،وہاں آپ کا ایک ایک لمحہ سیکھنے کے عمل میں استعمال ہو رہا ہو۔اس وقت آپ کے والدین اورآپ کے اردگرد کا سارا ماحول آپ کے تعلیم حاصل کرنے میں آپ کاممدومعاون ثابت ہورہا ہے،اس لیے اس وقت کو ضائع نہ ہونے دیں۔زیادہ سےزیادہ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ایسا علم جو آپ کو بہترین مسلمان اور اچھا انسان بنائے اور آپ کی صلاحیتوں کو ابھارنے میںمعاون ثابت ہو۔اگر آپ میں پڑھنے،سمجھنے،بولنے اور لکھنے کی بہترین استعداد ہوگی تب ہی آپ ملکی معاملات میںاپنا کردار بہتر طور پر ادا کر سکیں گے۔
تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کو ئی نہ کوئی ہنر سیکھنے کی کوشش بھی ضرور کریں۔یہ ہنر ایک تو آپ کے اپنے لیے بھی کار آمد ہوگا کہ آپ کے لیے عملی زندگی میں ایک سے زیادہ راستے ْْْْْْْْْْْْ کھل جائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کے لیےانسانوں کو انسان سمجھنا زیادہ آسان پو جائے گا۔ہم معاشرے کے کچھ لوگوں کو ان کے پیشوں سے ہٹ کراپنے جیسا انسان سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔کوئی لوہار ہوتا ہے،تو کوئی کمہار،کوئی مستری تو کوئی پلمبر۔جب ہم خود ان میں سے کوئی ہنر سیکھیں گے تو ہمیں احساس ہوگا کہ یہ کوئی ذاتیں نہیں ہیں،بلکہ یہ تو بس کچھ ہنرہیں جنھیں سیکھ کر کچھ محنتی لوگ اپنی روزی کم رہے ہیں
ایک اور اہم کام جو آپ کو کرنا ہے وہ یہ کہ آپ کو ایک باخبر انسان بننا ہے۔اپنی تاریخ سے بھی باخبر اور مستقبل میں بھی کیا ہوتا نظر آرہا ہے،اس سے بھی باخبر۔ آپ ہی وہ نسل ہیں جنہیں آگے چل کرملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔اس لیے آپ کو معلوم ہونا چاہیے ،ماضی کی غلطیاں کیا تھیں،جنہیں اب نہیں دہرانا چاہیے اور بہتر مستقبل کے لیےزمانے کے موجودہ وسائل اور ایجادات کاکیسے صحیح استعمال کرنا ہے،یہ جان لینا چاہیے۔کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالیے،اچھی اور علمی صحبت تلاش کیجیے۔انٹرنیٹ کی سہولت سے مثبت استفادہ کیجیے۔فیس بک،یو ٹیوب،وٹس ایپ،یہ سب چیزیں وقت ضائع کرنے کا باعث بھی بن سکتی ہیں اور ان سے فائدہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔لہذا آپ ان سے فائدہ اٹھانے والے بن جائیے۔
آپ کو اپنے ارد گرد رہنے والے انسانوں اور ان کے مسائل سے بھی باخبر رہنا ہوگا، تاکہ ایک دن جب آپ ڈاکٹر،جج،وکیل،صحافی،استاد یاکسی بھی پیشے کی حیثیت میں عملی طور پر مصروف عمل ہوں تو معاشرے میں موجود نسلی ،لسانی اور طبقاتی اونچ نیچ سے بالا تر ہوکر معاشرے کی ان نا انصافیوں کو دور کرنے کا باعث بننے والے ہوں۔پیارے دوستو!یاد رکھیے!جس معاشرے میں انصاف ہوتا ہے وہی معاشرہ ترقی کرتا ہے اور پھر اجتماعی طور پروہ پوری قوم ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتی ہے۔
ٓآپ کواپنی زندگی میں نظم و ضبط اور اپنے کام میں حسن اور ترتیب بھی ضرور پیدا کرنی ہوگی۔آپ کتنی ہی محنت سے کوئی کام کریں لیکن اگر اس میں بے ترتیبی ہوگی تووہ نتیجہ حاصل نہیں ہوگاجو اتنی محنت کے بعد ہونا چاہیے۔آپ کو اپنی ذات کو بھی ایک اچھے نمونے میں ڈھالنے کی کوشش کرنا ہوگی۔گھر کے اندر اور باہر آپ کا اخلاق ایس ہو کہ لوگ آپ سے خوش ہوں اور آپ کی صحبت میں رہنا پسند کریں۔قوم کی تعمیر میں آپ کا ذاتی اخلاق ، خاص طور پر گھر کے اندرآپ کے اخلاق اور لوگوں کے اخلاق میںکیا نسبت ہے اس کو اس طرح سمجھیے کیوں کہ جس طرح ایک گھر میں رہنے والے افرادسے معاشرہ بنتا ہے اور معاشرے کے افراد مل کر ہی ایک قوم تشکیل دیتے ہیں، اسی طرح ہمارا اچھا سلوک اور اعلیٰ اخلاق ملک و قوم کی تعمیر اور ذاتی ترقی کے کاموں میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
آج گھروں کے اندر رشتوں میں چپقلش اور نا اتفاقی بڑھتی جارہی ہے۔جب اس ماحول سے نکل کر ایک فرد باہر کے ماحول سے معاملہ کرتا ہے تو مزاج کی وہ برہمی ان معاملات پر بھی اثرانداز ہونا شروع ہوجاتی ہے۔دکان دار ،گاہک سے الجھ رہا ہوتا ہے،پڑوسی دوسرے پڑوسی کی شکل سے بیزار نظر آتا ہے اور الجھی کیفیت میںذاتی و ملکی مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا کوئی کار آمد نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔لہذا اس ماحول کو بدلے کی کوشش کیجیے۔
ایک بیٹا،بیٹی ،بہن یا بھائی کی حیثیت سے اپنے گھر میں، طالب علم اور دوست کی حیثیت سےاپنے تعلیمی ادارے میں اور اپنے محلے کے افراد کے ساتھ معاملات میں آپ کی ذات لوگوں کے لیے پرسکون اور خوشی کا باعث ہو۔آپ تلخیوں اور غلط فہمیوں کو دور کرنے والے ہوں نہ کہ ان کو بڑھاوا دینے والے۔اگر ہم سے ہر شخص اور خاص طور پر آپ نوجوان ،اپنی ذات سے اس چیز کی ابتدا کر دیں تو کچھ وقت تو ضرور لگے گا لیکن یہ بے سکونی اور جھنجھلاہٹ کی فضا ضرور بدلے گی۔ان شاء اللہ!