• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس فائز عیسیٰ کو دھمکی، یہ کیا ہورہا ہے، FIA کچھ نہیں کررہا، چیف جسٹس، ڈی جی ایف آئی اے طلب

جسٹس فائز عیسیٰ کو دھمکی، یہ کیا ہورہا ہے، FIA کچھ نہیں کررہا، چیف جسٹس


اسلام آباد(رپورٹ، رانا مسعود حسین ) اعلیٰ عدلیہ کیخلاف توہین آمیز کلمات اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دھمکی پر مبنی ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے ملزم آغا افتخار الدین مرزا کونوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا ہے،جبکہ ڈی جی ایف آئی اے کو بھی آئندہ سماعت پر ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ملزم مرزا افتخار کو پولیس حراست سے چھوڑنے کا حکم دیتے آئندہ سماعت پر پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل دو رکنی بینچ نے جمعہ کے روز ملزم افتخار الدین کے خلاف آئین کے آرٹیکل 204(جسے توہین عدالت آرڈیننس کی دفعہ3کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے گا )کے تحت لئے گئے از خود نوٹس توہین عدلت کے کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان پیش ہوئے۔

فاضل چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے،ایف آئی اے کچھ نہیں کر رہا ہے؟ جس پر انہوںنے کہاکہ اسی ویڈیو سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے بھی تھانہ سیکرٹریٹ میں مقدمہ کے اندراج کی درخواست دی تھی۔

تاہم معاملہ سائبر کرائمز سے متعلق ہونے کی بناء پر پولیس نے تحقیقات کیلئے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو بھجوا دیا ہے جو الیکٹرانک کرائم کے قوانین کی روشنی میں ملزمان کے خلاف کارروائی کرر ہے ہیں،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے کے پاس تو پہلے بھی ججوں کے معاملات ہیں، لیکن ایف آئی اے نے آج تک کوئی نتائج نہیں دئیے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس ویڈیو میں ملک کے انصاف کے سب سے بڑے ادارے کے متعلق انتہائی قابل اعتراض باتیں کرکے توہین عدالت کرنے کے ساتھ ساتھ اسی عدالت کے ایک جج کی بھی توہین کی گئی ہے۔ بعد ازاں فاضل عدالت نے مذکورہ بالا حکم جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 2 جولائی تک ملتوی کر دی۔ 

واضح رہے کہ اس موقع پر ملزم افتخار الدین خود بھی سپریم کورٹ کی بلڈنگ میں گیا تو ا سلام آباد پولیس نے حراست میں لے لیا، دوران سماعت ملزم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کا موکل خود عدالت میں پیش ہونے کیلئے آیا تھا لیکن پولیس نے اسے حراست میں لے لیا ہے جس پر فاضل عدالت نے پولیس اہلکاروں کو طلب کرکے گرفتاری کی وجہ پوچھی، تو وہ کوئی ٹھوس جواز پیش نہ کرسکے ،جس پر عدالت نے اسے چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے اسے آئندہ تاریخ سماعت پر عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو بھی آئندہ سماعت پر ذاتی طور پر پیش ہو کر عدالت کی معاونت کر نے کی ہدایت کی اور ان سے ایسے معاملات کی نگرانی کے میکنزم سے متعلق استفسار کی تو انہوں نے بتایا کہ ایسا کوئی میکنزم نہیں کہ سوشل میڈیا کی ہر چیز کو مانیٹر کیا جا سکے، دوسری جانب اسی کیس میں جنگ جیو میڈیا گروپ کے سینئر اینکر پرسن حامد میر نے بھی فریق بننے کی درخواست دائر کردی ہے۔

سماعت کے بعد ملزم وکیل کے ہمراہ باہر نکلا تھا تو میڈیا کے نمائندوں نے اس سے مختلف سوالات کئے لیکن اس نے کسی ایک بھی سوال کا جواب نہ دیا تاہم اس کے وکیل نے کہا کہ ہم اسی کیس میں انکوئری کا سامنا کرنے کے لئے ایف آئی اے حکام کے پاس جارہے ہیں، ایف آئی اے کے مقدمات میں انکوائری کی سطح پر ملزم کو گرفتار نہیں کیا جاتا ہے۔ 

دریں اثناء اسٹاف رپورٹر کے مطابق عدلیہ کیخلاف نفرت انگیز تقریر کرنے کے معاملے پر سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے آغا افتخار الدین مرزا کیخلاف فوری فوجداری قانون کے تحت کارروائی کا مطالبہ کردیا ہے۔ 

بار نے اپنی قرار داد میں کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ کے معزز جج اور ایماندار شخصیت ہیں، آغا افتخار الدین مرزا کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے، آغا افتخار الدین مرزا کے سوشل اکاوئنٹس فوری بند کیے جائیں۔

تازہ ترین