I can’t breath ۔ ’’میں سانس نہیں لے سکتا‘‘ یہ مختصر فقرہ امریکا میں ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی زبان سے اس وقت نکلا جب ایک سفید فام باوردی طاقتور سرکاری اہلکار گھمنڈ اور نفرت سے اپنا گھٹنا بے گناہ کی گردن پر جما چکا تھا، موت کے منہ میں جاتے ہوئے یہ چند الفاظ آج امریکا، کینیڈا، برطانیہ، یورپ سمیت تقریباً ہر زندہ معاشرے میں ایک زور آور تحریک کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ Black lives matterکا نعرہ لگاتے ہوئے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ رنگ ونسل کی بنیاد پر انسانیت کی بے توقیری اور تحقیر بند کی جائے۔آپ ہر روز ٹی وی اسکرینز پر دیکھ رہے ہیں کہ مہذب معاشروں کے مرد و خواتین، نوجوان اور بوڑھے کمزور اور حقداروں کے حق سلب کیے جانے کے خلاف انقلابی تبدیلی کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یقیناً ان غیر مسلموں نے ہمارے پیارے نبیﷺ کے حجۃ الوداع کے موقع پر آخری خطبہ کے ان الفاظ ’’کسی گورے کو کسی کالے، کسی کالے کو کسی گورے، کسی عربی کو کسی عجمی، کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں‘‘ کو شاید یقین سے پرکھ لیا ہے اور اب اس پر عمل چاہتے ہیں۔
وطن عزیز میں ریاست کے تین ستونوں کے مابین اشتراک اور طاقت کے توازن کے پیرا میٹرز متفقہ آئین پاکستان کے اندر طے ہیں مگر دیکھا جائے تو یہ 73ویں برس میں بھی عدم توازن کا شکار ہیں مگر نظام چل رہا ہے، اس سے بھی کہیں زیادہ گمبھیر معاملہ ریاست کے اہم ترین چوتھے ستون میڈیا کا ہے، جس کو آئین کے آرٹیکل 19کے تحت مکمل سچ اور حقائق بیان کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔ ریاست اور عوام کے مفاد کو لاحق خدشات اور حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کے اثرات کی تحریر، تصویر یا آواز کے ذریعے نشاندہی کرنا اس کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ بدقسمتی کہیے یا کچھ اور، اسی چوتھے ستون کی گردن زنی ہر دور کا حکمران اپنا فرض سمجھتا ہے اور آج پھر میڈیا کی گردن پر طاقتور گھٹنوں نے مسلسل دبائو ڈال کر جارج فلائیڈ کے الفاظ ’’میرا دم گھٹ رہا ہے‘‘ کہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ حالانکہ جبر کے ذریعے میڈیا کی جان لینے کے درپے عناصر کو اس غیر فطری وغیر آئینی اقدام کے نتائج کا اندازہ بے گناہ سیاہ فام کی جان لینے کے خلاف عالمی سطح کے احتجاج اور تاریخی مجسموں کے گرانے کے سخت ترین ردعمل سے لگا لینا چاہئے۔ تاریخ اور صحافت کے طالبعلم کی حیثیت سے میرے لئے قابل اطمینان بات یہ ہے کہ میرے وطن میں پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا پر شب خون مارنے کی کوششیں ملک میں آزاد سوشل میڈیا کے ذریعے آشکار ہو رہی ہیں مگر سوشل میڈیا کی بندش کا نئے بھیانک قوانین سے بندوبست کیا جا رہا ہے جو یقیناً کامیاب نہیں ہوگا۔
پاکستان بننے سے پہلے مسلمانانِ ہند کی آزادی کیلئے ’’جنگ‘‘ کا آغاز کرنے والے میرِ کارواں میر خلیل الرحمٰن کو انگریز نے حق و سچ کی آواز بلند کرنے کے گناہ پر پابند سلاسل کیا مگر وہ اٹل رہے اور پاکستان بننے کے بعد بھی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف سچائی سے ڈٹے رہے، ورثے میں ملنے والے اسی عظیم مقصد کو پیشہ ورانہ انداز میں آگے بڑھانے والے، ملک میں آزاد الیکٹرونک میڈیا کی بنیاد رکھ کر، جدید خطوط پر استوار کرنے والے ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے ایڈیٹرانچیف میر شکیل الرحمٰن کو سچ لکھنے، بولنے اور عوام تک پہنچانے کی سخت سزا دی جا رہی ہے، انہیں بغیر کسی مقدمے، بغیر کسی ریفرنس اور بغیر کسی تحقیقات کے پا بہ زنجیر کر کے کال کوٹھری میں ڈال دیا گیا ہے، مگر آفرین ہے کہ سو دن سے زائد قید تنہائی میں گزر جانے اور تاریخ پر تاریخ پڑنے کے باوجود معمر و بیمار شخص کے حوصلے کو شکست دی جا سکی اور نہ حقائق کو جھوٹ اور خوشامدی الفاظ میں ڈھالنے کے بدترین مقاصد کے سامنے جھکایا جا سکا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں اس غیر انسانی، غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کے خلاف آوازیں پہنچا رہی ہیں، عالمی صحافتی ادارے، انسانی حقوق، وکلا و تاجر تنظیمیں، مذہبی و سیاسی جماعتیں، مزدور اور صحافتی یونیز پُرعزم ہو کر نہتے شخص کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہیں، اپنے ادارے کے بے گناہ سربراہ کو سزا دینے کے خلاف جنگ، جیو اور دی نیوز کے کارکن اندرون و بیرونِ ملک ہر روز اس ناانصافی کےخلاف کیمپ لگائے ہوئے ہیں، کبھی نامعلوم کالز اور کبھی گولیاں پھینک کر ان کےعزم کو توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر وہ آزادیٔ صحافت کی جدوجہد سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ مارشل لا ادوار ہوں یا موجودہ سمیت ماضی کی جمہوری حکومتیں، ہر حکومت نے مرضی کا سچ نہ بولنے پر صرف میرے ادارے پر ہی ظلم کی سیاہ رات مسلط کی مگر ہر مرتبہ صبح ایک نیا خورشید تراش لائی اور ظالم فنا ہو گئے۔ آزادیٔ صحافت کی سانسوں کو بحال رکھنے والے پس زندان میر شکیل الرحمٰن اور ان کے ادارے سے وابستہ قلم کے سپاہی سڑکوں پر باہمت ہو کر سراپا احتجاج ہیں، ان کا استقلال حکمرانوں پر واضح کر رہا ہے ’’Media lives matter‘‘۔