• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کا ہر لمحہ بھاری ہے، کوئی بہتری کی امید نہیں، شاہد خاقان

کوئی بہتری کی امید نہیں، شاہد خاقان 


کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”جرگہ“میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ حکومت کا ہرلمحہ بھاری ہے،کوئی بہتری کی امید نہیں،ملک کیلئے کوئی سمت نہیں،معیشت تباہ ہوچکی، کورونا پرکوئی پالیسی نہیں ہے،سابق وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کورونا ایک مشکل بیماری ہے اس میں اثرات نظر نہیں آتے لیکن جسم بڑا کمزور پڑ جاتا ہے مجھے چنددن بخار ہوا اس کے علاوہ کوئی زائد اثرات نہیں تھے لیکن بالکل ہی ایک کمزور کا احساس اوربے چینی کا احساس رہتا ہے اور اس میں انسان کو نفسیاتی اور جذباتی پہلوؤں کو قابو میں رکھنا پڑتا ہے۔ملک میں ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے اپوزیشن تنقید کرسکتی ہے متبادل رائے دے سکتی ہے حکومت اگر ناکام ہوجائے تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔آج بدقسمتی سے حکومت بالکل ختم ہوچکی ہے ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے ملک کے لئے کوئی سمت نہیں ہے ۔ معیشت تباہ ہوچکی ہے کورونا کے بارے میں کوئی پالیسی نہیں ہے میں حکومت کے دو سال دیکھتا ہوں کوئی مثبت چیز ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں مجھے نظر نہیں آتی ۔آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں ہمارا وہ کردار نہیں رہا جو ہونا چاہئے تھااس کی بھی وجوہات ہیں لیکن اپوزیشن نے اپنا کردار ادا کیا ہے تنقید بھی کی متبادل رائے بھی دی ہے حکومت کی ناکامی، کرپشن کو بھی اٹھایا ہے ۔ حکومت نے ایک منصوبہ بندی کے تحت پارلیمنٹ کواور میڈیا کو مفلوج کیا ہے جتنا کنٹرولڈ میڈیا آج ہے میں نہیں سمجھتا کہ پاکستانی تاریخ میں پہلے کبھی ہوا ہے ۔لائن ایک ہی ہے کہ ملک دستور اور قانون کے مطابق چلے اس میں کسی کا اعتراض نہیں ہے یقیناً اپوزیشن پر دباؤ ڈالا گیا ہے ہر قسم کے مقدمے بنائے گئے جیلوں میں ڈالا گیادھمکیاں دی گئیں اور یہ بدقسمتی ہے کہ ایک حکومت جب مجبور ہوجائے اور خود کام نہ کرسکے وہ اپنی دلیل یا کام سے قائل نہ کرسکے اور اس قسم کے ہتھکنڈوں پر مجبور ہوجائے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ حکومت تو ناکام ہوچکی ہے۔ اگر ملک میں جمہوریت صحیح معنوں میں ہوتی او ر اپوزیشن کو کھل کر اظہار رائے کا موقع ملتااور پریس اس کو کور کرتاتو یقیناً حالات اس سے بہتر ہوسکتے ہیں۔کوئی بھی سیاسی لیڈر ملک کی یا معیشت کی ناکامی کو انجوائے نہیں کرسکتایہ ممکن نہیں ہے یقیناً جو الیکشن میں ہم نے بات کی تھی آج اس کے اثرات عوام تک پہنچے ہیں ہم نے کہا تھا کہ یہ حکومت غیرنمائندہ ہے اس کے اثرات ملک پر پڑیں گے اور دو سال میں ہم نے دیکھ لیا کے معیشت تباہ ہوگئی آج گورننس نہیں ہے یقیناً ہماری جو رائے تھی اس کی فتح ہے ۔ہم پارلیمنٹ میں اس لئے بیٹھے ہیں کہ ہم کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے یہ جمہوریت چاہے لولی لنگڑی ہووہ خطرے میں چلی جائے اس لئے ہم نے کہا کہ الیکشن متنازع ہیں مگر جیسی بھی حکومت ہے ایک موقع دیں ۔آج معیشت اس حال پر پہنچ گئی ہے کہ اگر آپ اس کو آج سے بہتر کرنا شرو ع کریں تو 31 مئی 2018 ء تک پہنچنے میں آ پ کو پانچ سال لگیں گے۔اس حکومت کا ہر لمحہ بھاری ہے کوئی بہتری کی امید نہیں ہے اگر یہ حکومت پانچ سال پورے کرتی ہے تو میں سوچ نہیں سکتا ملک کے کیا حالات ہوں گے۔ہم کسی غیر جمہوری عمل سے حکومت کو نہیں ہٹانا چاہتے پہلے بھی یہ کام ہوئے ہیں کیونکہ وہ نقصان اس نقصان سے بہت زیادہے تو جو عمل ہوگا وہ اندر رہ کردستور کے اندر رہ کر کرنا پڑے گا۔اسمبلیوں سے استعفیٰ دینا بھی مستقل حل نہیں ہوتا وہ بھی آپ کو غیر جمہوری عمل کی طرف دھکیل سکتا ہے اور وہ زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگا۔

تازہ ترین