حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے شمسی توانائی کےایسے منصوبے کی منظوری دی ہے جو دنیا کا آٹھواں اور امریکا کا سب سے بڑا شمسی توانائی کا منصوبہ ہوگا۔یہ لاس ویگاس میںبنےگا اورایک اندازے کے مطابق وہاں کے دو لاکھ ساٹھ ہزار گھروں کو قابلِ تجدید توانائی فراہم کرے گا۔ اس پرلاگت کا تخمینہ ایک ارب ڈالرزلگایا گیا ہے ۔امریکی محکمہ داخلہ کے مطابق اس تین سالہ منصوبے سے لاس ویگاس کے شہریوں کے لیےسات سو تیرہ ملین ڈالرز کی معاشی سرگرمیاں پیدا ہوں گی اور انہیں تعمیراتی کاموں سے متعلق نو سو نئی ملازمتیں بھی ملیں گی۔ اس کے علاوہ گیارہ سو دیگر انتظامی اور معاونت کی ملازمتیں بھی میسر آئیں گی ۔یہ منصوبہ 690 میگاواٹ بجلی پیداکرے گا اور اس کے لیے سات ہزار ایک سو ایکڑ سرکاری اراضی حاصل کی گئی ہے جو لاس ویگاس شہر سےپچّیس میل شمال میں واقع ہے۔
وہاں ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی حاصل کرنے کے لیے نہ صرف سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے ، بلکہ اس سے روزگار کے نئے مواقعے بھی پیدا ہورہے ہیں
امریکا کے سابق صدر براک اوباما کی حکومت نے 2010 میں Sunshot Initiative نامی ایک پُرعزم مہم کا آغاز کیا تھا۔ اس مہم کا بنیادی مقصدیہ تھاکہ گرڈسےمربوط شمسی توانائی کے نرخ کم کرکے پاورگرڈ میں پہلے سے موجود بجلی کی قیمت کے برابر لایا جائے۔اس وقت ان کے اندازے کے مطابق اس گرڈ پاورکےنرخ چھ سینٹ فی یونٹ اور گرڈ سے مربوط شمسی توانائی کے نرخ اٹھائیس سینٹ فی یونٹ تھے۔انہوں نے 2020 تک شمسی توانائی کے نرخ چھ سینٹ تک نیچے لانے کا عزم کیاتھا۔چناں چہ 2017تک امریکی گھریلو استعمال کے لیےشمسی توانائی کے نرخ باون سینٹ سے گھٹاکرچالیس سینٹ اور تجارتی استعمال کے لیے شمسی توانائی کے نرخ سولہ سینٹ گھٹا کر گیارہ سینٹ تک لے آئے۔ رواں سال کے آخر تک امریکی انتظامیہ ان اعدادکو بالترتیب دس اور آٹھ سینٹ تک مزید نیچے لانا چاہتی تھی ۔ ممکن ہے کہ اب تک یہ اہداف حاصل کرلیے گئے ہوں ۔
آج شمسی توانائی بجلی کی فراہمی کا ایک اہم وسیلہ ہے اور دنیا بھر میں بجلی کی تقسیم کے نظاموں کا حصہ ہے۔2015 میں عالمی سطح پر شمسی توانائی کی تنصیبات میںتیس فی صد اضافہ ہواجو وقت کے ساتھ مزید آگے بڑھا۔عالمی سطح پر اس صنعت میں مزید پھیلاؤ کا رجحان موجود ہے۔ ٹیکساس، کولوراڈو اور امریکا کی دیگر ریاستوں نےشمسی توانائی اور قابلِ تجدید توانائی کے دیگر وسائل کو اتنی کا م یابی سے گرڈ میں شامل کر لیا ہے کہ اب سال کے بعض حصوں میں پچاس فی صد سے زاید بجلی قابلِ تجدید ذرایع سے حاصل کی جاتی ہے۔
قابلِ تجدید توانائی کےعالمی ادارے (IRENA )کا گزشتہ برس کہنا تھا کہ 2020ء میں شمسی توانائی کے جن منصوبوں سے بجلی حاصل کی جائےگی ان میں سے تیراسی فی صدمنصوبے سستے ترین ایندھن سے تیار ہونے والی بجلی سے بھی سستی بجلی فراہم کریں گے۔ادارے کےسروے کے مطابق شمسی توانائی کے منصوبوں کا فی یونٹ کا اوسط ٹیرف 4.8 سینٹ ہوگا، یعنی Sunshot Initiative کے ہدف سےبھی کم۔اس ادارے کےمطابق رواں برس پن بجلی اورشمسی توانائی کے ذرایع دنیا بھر میں کوئلے سے پیدا کی جانے والی سات سو گیگا واٹ آپریشنل بجلی سے بھی زیادہ بجلی پیدا کریں گے۔یعنی رواں برس نہ صرف مالی بلکہ آپریشنل بجلی کی سطح پر انقلاب برپا ہوگا۔
امریکامیںدس بارہ برسوں میں سرکاری پالیسیز کی مددسےامریکی سرمایہ کاروں اور موجدوں نے ماحول دوست توانائی کی اہم ٹیکنالوجیز تیارکرنے اور انہیںاپنانے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ وہاں 2014تک سورج کی روشنی اور ہوا سے بجلی کی پیداوار دگنی ہوچکی تھی۔اس کے نتیجے میں وہاں 2012 میں، تقریبا بیس سالوں میں پہلی مرتبہ کاربن سے آلودگی کم ترین سطح پر آگئی تھی۔وہاں ماحول دوست ٹیکنالوجی پر آنے والی لاگت میںکمی کا رجحان جاری ہےاور یہ ٹیکنالوجی پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ توانائی پیدا کر رہی ہے۔یعنی اس کی استعداد بھی پہلے سے بہتر بنائی جا چکی ہے۔ اس ملک میں 2012 میں بجلی کی نئی پیداواری صلاحیت کا سب سے بڑا ذریعہ ہوا تھی جو تمام نئی تنصیبات کاتینتالیس فی صدبنتی ہے۔ مجموعی طور پر امریکا نے ہوا سے پیدا کی جانے والی ساٹھ گیگا واٹ بجلی کے لیے آلات نصب کیے ہیں جوپندرہ ملین گھرانوں کو بجلی فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں ۔
ہوا سے پیدا ہونے والی توانائی کی تنظیم کے مطا بق، وہاں ہوا سے بجلی کی پیداوار میں اس ترقی نے اس شعبے میں امریکی صنعت کاری کومہمیزدی ہے اور 2012 تک امریکا میں اس شعبے میں اسّی ہزار سے زاید افراد کام کر رہے تھے۔شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والی ٹیکنالوجیز پرآنے والی لاگت میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے۔ 2008 کے بعدشمسی پینلزکی قیمت میں پچھہتّر فی صد تک کمی ہوئی اورشمسی تنصیبات میں تیرہ کےفیکٹر تک اضافہ ہوا۔اس کے علاوہ امریکی حکومت کی اعانت سے دنیا کے سب سے بڑے شمسی منصوبوں میں سے بعض کو شروع کرنے میں بھی مدد ملی ہے۔
امریکا کی شمسی تو انائی کی مارکیٹ میں سب سے بڑا حصہ کیلی فورنیاکا ہے، لیکن دیگر ریا ستیں ، خاص طور پر میساچوسٹس، نیویارک اور ٹیکسس بھی شمسی توانائی کی تنصیبات میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہیں۔شمسی توانائی اب لاگت میں کوئلےاور آلودگی پیدا کرنے والے توانائی کے دیگر ذرایع ل پر آنے والی لاگتوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ اسی وجہ سے شمسی توانائی کی نصب شدہ گنجایش میں 2014 کے مقابلے میں 2015 کے دوران سولہ فی صد اضافہ ہوا۔شمسی توانائی کی صنعتوں کی ایسوسی ایشن نے کہاہےکہ امریکامیںشمسی توانائی ریکارڈرفتار سے ترقی کر رہی ہے۔
امریکا میں وفاقی زمینوں پر قابلِ تجدید توانائی کے منصوبے لگانے کی اجازت ہے۔ 2009 سے سرکاری زمینوں پر منظور شدہ منصوبوں کی تعداد فی الواقع صفرسےبڑھ کرتقریبا پچاس ہوگئی ہے۔ سورج، ہوا اور زیرِزمین حرارت سے چلنے والے منصوبوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان میں قایم شدہ بجلی کے گرڈز تک ترسیلی راستے اوربنیادی ڈھانچے بھی شامل ہیں۔ تکمیل پر یہ منصوبے 13300 میگا واٹ بجلی کا اضافہ کریں گے - جو 4.6 ملین گھروں کو توانائی فراہم کرنے کے لیے کافی ہوگی۔
ہوا سے بجلی پیدا کرنا اب امریکا میں آلودگی سے پاک توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ موجودہ پیداواری گنجایش کے لحاظ سے اس نے اب پن بجلی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہوا سے بجلی کی پیداوار میں اب ان ریاستوں میں اضافہ ہو رہا ہے جہاں بہ کثرت ہوا چلتی ہے، خاص طور سے ٹیکسس اور وسط مغربی ریاستوں میں۔ امریکا کے توانائی کی معلومات کے ادارے نے تخمینہ لگایا ہے کہ 2016 میں پاور گرِڈ کے لیے بجلی پیدا کرنے کی گنجایش میں جتنا اضافہ ہوا،اس کاساٹھ فی صدحصہ ہوا اور شمسی ذرایع سے حاصل ہوا۔
جیسے جیسے قیمتیں گری ہیں اور ٹیکنالوجی بہتر ہوئی ہے،ہوا سے حاصل ہونے والی بجلی، روایتی ذرایع سے حاصل ہونے والی بجلی سے مسابقت کر نےلگی ہے۔ 2008 سے 2017 تک ہواسے بجلی بنانے والے ٹربائنزکی قیمتوں میںبیس سے چالیس فی صدتک کمی آچکی تھی۔بعض مقامات،جیسےکولو راڈو میں ہوا سے پیدا کی جانے والی بجلی روایتی بجلی گھروں میں پیدا ہونے والی بجلی کی جگہ لے رہی ہے ۔یاد رہے کہ چین کے سوا امریکا میں کسی بھی ملک کے مقابلے میں زیادہ بجلی ہوا سے پیدا ہوتی ہے۔
امریکی اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ 2005 سے 2017 کے درمیان امریکا میں آلودگی پھیلانے والی گیسز کے اخراج میں تیرہ فی صد حقیقی کمی آئی، حالاں کہ امریکی معیشت میں انیس فی صد سے زاید افزایش ہوئی۔اس کام یابی میں زیادہ تر دخل توانائی کی اختراعی ٹیکنالوجیزکی تیاری اور اُن کےاستعمال کاہے۔ اِس کے علاوہ اس میں جوہری توانائی، شیل گیس، کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی ٹیکنالوجیز میں بہتر تبدیلیاں، توانائی کے قابلِ تجدید وسائل، بیٹریزمیں بجلی ذخیرہ کرنا اور توانائی کی کارکردگی میں اضافہ شامل ہیں۔سستی، قابل اعتماد اورصاف توانائی کےساتھ توانائی کی بہتر کارکردگی سے امریکا میںنئی ملازمتیں پیدا ہورہی ہیں اور بین الاقوامی منڈی میں نئے مواقعے کی تلاش میں امریکی حکومت کمپنیز کی مدد کر رہی ہے۔
امریکی حکومت کی سرمایہ کاریوں اور ایندھن کی بچت کے معیارات کی وجہ سے وہاںایندھن کی بچت کرنے والی گاڑیوں کی تعداد بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ماہرین کے مطابق اس صورت حال میں ابھی مزید بہتری آئے گی۔ ایندھن کی بچت کے نئے معیارات کے تحت،موٹر کارز اور ٹرکس کے لیے ایندھن کی اوسط استعداد تقریبا دگنی ہو جائے گی۔ 2025 تک گاڑیوںکی اوسط کارکردگی تقریبا پچپن میل فی گیلن( 4.28 لیٹر فی 100 کلومیٹر) تک ہو جائے گی۔
ان معیارات کی وجہ سے، زیادہ استعداد والی کارز اور ٹرکس بننے شروع ہو چکے ہیں ۔جب یہ معیارات 2025 میں مکمل طور پر نافذ العمل ہو جائیں گے تو ان سے امریکا کی تیل کی برآمدات میں 2.2 ملین بیرل روزانہ تک کمی ہو جائے گی اور کاربن سے آلودگی چھ بلین میٹرک ٹن تک کم ہو جائے گی۔واضح رہے کہ یہ مقدار 2013 کے دوران امریکا میں کاربن کے مجموعی اخراج کے برابر ہے۔
ایندھن کی بچت میں بہتری کے علاوہ اس ملک میںجدید طرز کی گاڑیوں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ قیمتوں میں کمی اور برآمدی منڈی میں بہتری آنے کی وجہ سے پلگ۔اِن برقی گاڑیوں کی مانگ میں ہائی برڈ گاڑیوں کی ابتدائی مانگ کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔واضح رہے کہ 2008 کے بعد برقی گاڑیوں کےکفایتی نظام کو چلانے والی بیٹریزکی قیمتوںمیںپچاس فی صدتک کمی ہوئی ہے ۔
توانائی کے قابلِ تجدید ذرایع، جن سے اس وقت دنیا بھر میں پچاس لاکھ سے زاید افراد کا کاروزگار وابستہ ہے، عالمی افرادی قوت کے لیے روزگار کی مشین ثابت ہو رہے ہیں۔ان میں سے اٹھارہ لاکھ سے زاید کارکن شمسی توانائی، ہوا سے بجلی پیدا کرنے، بایو انرجی اورجیوتھرمل جیسے ذرایع سے بجلی پیدا کرنے کے شعبے میں کام کرتےہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہےکہ اس شعبے میں روزگار کے مواقعے میں 2014 اور 2015 کے درمیان عالمی سطح پر پانچ فی صد سے زاید کا اضافہ ہوا اور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھا۔اس کے علاوہ مزید تقریبااکتّیس لاکھ انسان مختلف ملکوں میں ہائیڈل پاور ورکس یا پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام کرتے ہیں، جن میں ڈیمز کی تعمیر، انہیں فعال رکھنا اور بجلی کی پیداوار کے لیے پانی کے وسیع ذخائر کی دیکھ بھال کے شعبے شامل ہیں۔
قابلِ تجدید توانائی کے شعبے میں روزگار کے نئے مواقعے میں چین، برازیل اور امریکا بہت آگے ہیں۔تاہم شمسی توانائی کے شعبے میں روزگار کے حوالے سے چین دنیا بھر میں سب سے آگے ہے ۔ قابلِ تجدید توانائی کے عالمی ادارے ’’اِیرینا‘‘ کے مطابق قابلِ تجدید اور ماحول دوست توانائی کے ذرایع ایسے شعبے ہیںجن میں روزگارکےمسلسل نئے مواقعے پیدا ہونے کی وجہ یہ عالمی افرادی قوت کے لیے ’’روزگار کی مشین‘‘ بن گئے ہیں۔
عالمی سطح پر توانائی کے قابلِ تجدید ذرایع پر انحصار کے رجحان میں اضافے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہےکہ توانائی کی ایسی ماحول دوست تنصیبات پر آنے والی لاگت آج ماضی کے مقابلے میں کافی کم ہو چکی ہے اور پھر ایسی تنصیبات کے حق میں کیے جانے والے اقتصادی فیصلوں کو ممکن بنانے کے لیے سیاسی حالات کار بھی بہت بہتر ہو چکے ہیں۔ماہرین کو امید ہے کہ گرین انرجی کے حصول کے لیے یہ رجحان آئندہ بھی نہ صرف جاری رہے گا بلکہ زیادہ سے زیادہ ملکوں میں ماحول دوست توانائی کے سلسلے میں ایسی پیش رفت کی توقع کی جا رہی ہےجو پیرس میں طے پانے والے عالمی ماحولیاتی معاہدے میں طے کردہ اہداف کے حصول میں مددگار ثابت ہو گی۔
اس وقت قابلِ تجدید توانائی کے ذرایع میں عالمی سطح پر سب سے زیادہ کارکنوں کا روزگار شمسی توانائی سے وابستہ ہے۔ ان کارکنوں کی تعداد تہتّر لاکھ بنتی ہے۔ مجموعی طورپر ان میں سے بیاسی لاکھ افراد اس شعبے کے کل وقتی کارکن بتائے جاتے ہیں۔ایرینا کے مطابق عالمی سطح پر جن ملکوں میں ماحول دوست توانائی کے شعبے سے سب سے زیادہ افراد کا روزگاروابستہ ہے، ان میں پہلے نمبر پر سب سے زیادہ آبادی والا ملک چین ہے۔چین میں اس شعبے کے کارکنوں کی مجموعی تعداد تقریبا اکہتّر لاکھ بتائی جاتی ہے۔
چین کے بعد پونے چار لاکھ سے زاید کارکنوں کے ساتھ جاپان دوسرے،تقریبا دو لاکھ افراد کے ساتھ امریکا تیسرے اور سوا لاکھ سے زاید کارکنوں کے ساتھ بنگلا دیش چوتھے نمبر پر ہے۔ بہت حوصلہ افزا بات یہ بھی ہے کہ صرف بنگلا دیش کے دیہی علاقوں میں گزشتہ برسوں میں ایسے تقریبا سات لاکھ سولر ہوم سسٹم فروخت ہوئےجن کی مددسےلوگوںنےتوانائی کی اپنی روزانہ کی ضروریات قابلِ تجدید ذرایع سے پوری کرنا شروع کیں۔ ان میںسےلاکھوں بنگلا دیشی شہری ایسے تھےجنہیں ایسے ذرایع کی مدد سے زندگی میں پہلی مرتبہ بجلی استعمال کرنے کا موقع ملا۔اسی طرح دنیا کے جن تین ملکوں میں گزشتہ برسوں میں ماحول دوست توانائی کے شعبے میں روزگار کے سب سے زیادہ نئے مواقع پیدا ہوئےوہ چین، بھارت اور برازیل تھے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین کو توقع ہے کہ عالمی سطح پر قابلِ تجدید توانائی کے شعبے میں روزگار کے مواقعے آئندہ برسوں میں مزید بڑھیں گے اور2030تک اس اقتصادی شعبےکے کارکنوں کی مجموعی تعداددوکروڑ چالیس لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔
اس ضمن میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کووِڈ۔انیس کی وباکےدوران دنیابھرمیں قابلِ تجدید توانائی کے ذرایع سے بجلی کی پیداوار، ترسیل میںخلل اورتعمیراتی امور میںتاخیرکے باوجود تین فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔عالمی توانائی ایجنسی کی حال ہی میں جاری کردہ’’توانائی کی عالمی صورت حال کے بارے میں رپورٹ‘‘کے مطابق کروناکی وباکےدوران قابلِ تجدیدتوانائی کے ذرایع سے بجلی کی پیداوار، دیگر ذرایع کے مقابلے میں بجلی کی ترسیل میں لچک داری اور مزاحمت جیسے عناصر کےباعث نمایا ں رہی ہے۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق اس شعبے سےعالمی سطح پر بجلی کی پیداوار چھبّیس سے تیس فی صد تک بڑھ گئی ہےجو تمام تر رکاوٹوں کے باوجود قابلِ ذکر شرح ہے۔ طرح اس شعبے نے پانچ فی صد کی شرح سے ترقی کی ہے۔علاوہ ازیں یہ اندازہ لگایاگیا ہے کہ دنیا بھر میںلائسنسڈ اورزیرِتعمیرمنصوبوںکی تکمیل کی صورت میں رواں برس قابلِ تجدید توانائی کی پیداوار میں اضافہ ہو گا۔
ماہرین کے مطابق شمسی توانائی کی سستی ہوتی ہوئی ٹیکنالوجی روزگار کے نئے مواقع پیدا کررہی ہے۔وسیع پیمانے پرشمسی توانائی کے استعمال سے فضائی آلودگی میں ڈرامائی کمی آئے گی جس کے نتیجے میں صحت اور اقتصادی شعبوں میں فواید حاصل ہوں گے۔شمسی توانائی کے ذریعے دور درازعلاقوں میں اورکم آمدن والے افراد تک گرڈ کے منہگے بنیادی ڈھانچے کے بغیر بجلی فراہم کی جاسکے گی۔ اسی وجہ سےچینی،بھارتی اور امریکی حکومتیں شمسی توانائی کی ٹیکنالوجیز میں بھاری سرمایہ کاری کررہی ہیں۔