وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے نئے مالی سال 2020-21ء کیلئے 18ارب 37کروڑ خسارے کا 1241ارب 12کروڑ روپے کا بجٹ پیش کر دیا جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔ شعبہ زراعت کیلئے 40فیصد اضافے کیساتھ 34ارب، تعلیم کیلئے 10.2فیصد اضافے کیساتھ244، صحت کیلئے 16فیصد اضافے کیساتھ 139ارب روپے، امن وامان کیلئے 113اعشاریہ 87ارب روپے اور سب سے زیادہ اضافہ محکمہ سماجی بہبود کیلئے کیا گیا ہے جو 1360فیصد ہے۔ اس میں 20ارب روپے سندھ پیپلز سپورٹ پروگرام کے تحت رکھے گئے ہیں اور 2ارب روپے غربت کے خاتمے اور غریب کسانوں کی مدد کیلئے رکھے گئے ہیں جبکہ سماجی بہبود کا مجموعی بجٹ 1.86ارب سے بڑھا کر 27.11ارب روپے کیا گیا ہے۔ کورونا سے نمٹنے کیلئے 24ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، غیر ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 968.99بلین روپے ہے، ترقیاتی اخراجات 232.94ارب روپے ہے اور کیپٹل اخراجات کا تخمینہ 39.19بلین ہے۔ کل وصولیوں کا تخمینہ 1222.75ارب روپے ہے جس میں وفاقی ٹیکس وصولیاں 760.30بلین (65فیصد)، صوبائی وصولیاں 313.39بلین (26.8فیصد)، کیپٹل وصولیاں 25ارب روپے (2.1فیصد)ہیں اور دیگر ٹیکس وصولی (FPA & PSDP) 67.05بلین (5.9فیصد) ہیں۔ غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ صرف 7فیصد تک محدود ہے۔ شعبہ صحت کیلئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں موجودہ آمدنی کے کل اخراجات 139.1بلین روپے رکھے گئے ہیں جبکہ ترقیاتی اسکیموں کیلئے مختص رقم 23.5بلین روپے ہے۔ پولیو، ٹی بی، ہیپاٹائٹس اور دیگر بیماریوں سے بچائو کیلئے بجٹ میں 7ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ انڈس اسپتال کراچی کو خصوصی گرانٹ کے طور پر 4ارب روپے NICVDکراچی کیلئے 5.1 بلین روپے SICVDکیلئے 5.1بلین روپے، ایس ایم بی بی ٹراما سینٹر کراچی کیلئے 1.7 بلین روپے، SIUTکیلئے 5.6بلین روپے، تعلیم کے شعبے کا بجٹ بڑھا کر 244.5بلین روپے، تعلیم کے شعبے میں 397جاری 11نئی غیر منظور شدہ منصوبوں کیلئے مجموعی طور پر 21.1بلین روپے مختص کیے ہیں۔ محکمہ اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی نے 265جاری اسکیموں اور 4نئی اسکیموں کیلئے 13.2بلین روپے مختص کیے ہیں۔ یونیورسٹیوں اور بورڈز کی ترقیاتی ترجیحات کیلئے 3.3بلین روپے مختص، یونیورسٹیز کیلئے 5ملین روپے کی گرانٹ مختص، حکومت کراچی سرکلر ریلوے پروجیکٹ جس کی لاگت 207.5ہے، 3بلین روپے کے سی آر روٹ کیساتھ ریلوے کراسنگ پر انڈر پاس اور اوور ہیڈ برج کی تعمیر بی آر ٹی ایس اورنج لائن 4کلومیٹر طویل راہداری BRT Connecting گرین لائن کیلئے مختص کئے ہیں۔ اس منصوبے کی جون 2020ءتک تکمیل متوقع ہے۔ آئندہ مالی سال میں 74بلین روپے کی تخمینہ لاگت کے دو نئے منصوبے شامل ہیں۔ دوسری جانب صوبہ خیبر پختونخوا نے بھی کورونا سے نمٹنے کیلئے سندھ کی طرح 24ارب روپے مختص کئے ہیں حالانکہ آبادی کے لحاظ سے اور کورونا مریضوں کے لحاظ سے وہ بہت پیچھے ہے جبکہ علاج معالجہ کیلئے پورے خاندان کیلئے مفت ہیلتھ کارڈ مہیا کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس کیلئے 10ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ تعلیم کیلئے بھی سندھ سے زیادہ بجٹ رکھا گیا ہے، نیز انہوں نے 25ہزار بھرتیاں کرنے کیلئے بھی بجٹ مختص کیا ہے، عوام کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی کیلئے 30ہزار اضافی طبی عملہ بھی بھرتی کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ بلوچستان اسمبلی نے بھی صوبے میں تعلیم کیلئے بجٹ کا 17.3فیصد، صحت کیلئے 10.40فیصد اور مواصلات کیلئے 9.14فیصد، آبپاشی کیلئے 4.38فیصد، بلدیات کیلئے 4.2فیصد، زرات کیلئے 3.56، ہیلتھ انجینئر کیلئے 3.17فیصد، کھیل و امور نوجوانان کیلئے 1.49فیصد مختص کیا ہے۔ صحت کے شعبہ کیلئے ترقیاتی فنڈ 23.981بلین سے بڑھا کر 31.405بلین رکھا گیا ہے جو گزشتہ سال کی نسبت 32فیصد زیادہ ہے اور ترقیاتی مد میں 7.050بلین روپے رکھے گئے ہیں جبکہ 30بستروں پر مشتمل نئے اسپتال کا قیام 8اضلاع میں اسپتالوں میں بیچلرز ہاسٹلز کا قیام، ضلعی اسپتالوں میں تھیلیسیمیا سنٹر کا قیام، گوادر میں سول اسپتال کی نئی عمارت کا قیام، شیخ زاید اسپتال کوئٹہ میں کینسر کے علاج کیلئے نئے بلاک کا قیام اور بولان میڈیکل کمپلیکس میں امراض قلب کیلئے آئی سی یو سنٹر کا قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے 8ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور کورونا وائرس ریلیف پروگرام کیلئے 3ارب روپے رکھے گئے ہیں جب 1991ءمیں وزیراعلیٰ سندھ کے والد جناب عبداللہ شاہ وزیراعلیٰ تھے تو اس وقت کراچی کیلئے 21ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا، جب کیبنٹ کی میٹنگ شروع ہوئی جس میں محترمہ بینظیر صاحبہ نے بھی شرکت کی تھی، تو میں نے کہا جب آپ نے 21ارب کا بجٹ رکھا ہے تو اس میں سے 8ارب روپے جو اس وقت انویسٹمنٹ کمپنیوں کے ساٹھ ستر ہزار متاثرین تھے ان میں تقسیم کر دیں، جس طرح پنجاب نے بینک ڈیفالٹر میں تقسیم کئے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ صرف 5ارب روپے خرچ کئے اور باقی سندھ میں لگا دیے، پھر دبئی میں میری محترمہ بینظیر صاحبہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے گلہ کیا کہ کراچی والے ہمیں ووٹ نہیں دیتے تو میں نے اس وقت ان کو یاد دلایا کہ اگر اس وقت آپ میری بات مان لیتیں اور کراچی کے عوام کو 8ارب روپے دے دیتیں تو آج یہ حال نہ ہوتا، اس وقت بینظیر صاحبہ نے کہا کہ واقعی مجھے کراچی والوں کو 8ارب روپے دے دینے چاہئے تھے۔ اس بات کا ذکر میں نے اپنی کتاب یادِ رفتہ میں بھی کیا ہے۔ اگر پی ٹی آئی نے بھی کراچی کے عوام کیلئے کچھ نہ کیا تو آئندہ اسے بھی ووٹ نہیں ملیں گے۔