لاہور ہائی کورٹ میں پیٹرول کی قلت کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی جس کے دوران چیف جسٹس محمد قاسم خان نے اٹارنی جنرل پاکستان سے استفسار کیا کہ پیٹرول کی قیمتیں بڑھا کر آپ نے کمپنیوں کو کتنا فائدہ پہنچایا؟ مہینہ پورا ہونے سے قبل پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے سے کمپنیوں کو کتنا فائدہ ہوا؟
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے پیٹرول کی قلت پر اراکینِ پارلیمنٹ پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز دے دی۔
عدالت کی جانب سے چیئرپرسن اوگرا کو جرمانے کے1 لاکھ روپے بار ایسوسی ایشن اسپتال میں جمع کرانے کا حکم بھی دیا گیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی پیٹرول کی قلت پر حکومتی اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیں۔
انہوں نے کہا کہ اراکینِ پارلیمنٹ پر مشتمل کمیٹی کو 15 دنوں میں معاملے کی تحقیقات کرنے کی ہدایت کی جائے، اگر اسپیکر قومی اسمبلی پیٹرول کی قلت پر کمیٹی نہیں بناتے تو قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا۔
درخواست گزار نے اس موقع پر عدالت سے استدعا کی کہ پیٹرول کی قلت دور ہو چکی ہے، اس لیے میں اپنی درخواست واپس لینا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ کی درخواست واپس لینے کی استدعا مسترد کرتا ہوں۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل پاکستان نے وزیرِ اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری کی عدم پیشی پر عدالتِ عالیہ سے ایک روز کے استثنیٰ کی استدعا کر دی۔
چیف جسٹس محمد قاسم خان نے کہا کہ آپ کو میری 10 سالہ پریکٹس کا پتہ ہے، میرے آرڈر پر عمل نہ ہو تو میں آگے نہیں چلتا، مجھے لگتا ہے کہ وزیرِ اعظم کے پرنسپل سیکریٹری کو وارنٹِ گرفتاری جاری کر کے بلانا پڑے گا۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے عدالت کو بتایا کہ وزیرِ اعظم کے پرنسپل سیکریٹری کابینہ کی میٹنگ میں مصروف ہیں۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ سنا ہے کہ وہ بولتے ہیں تو ان کے منہ سے قانون نکلتا ہے، یہ بات ہے تو چلو ان سے بات کر کے دیکھتے ہیں۔
عدالتی معاون ملک اویس خالد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پیٹرول کی درآمد اور اسٹوریج کو ملک کی ضرورت کے مطابق ریگولیٹ کرنا اوگرا اور وزارتِ پٹرولیم کی ذمے داری تھی۔
انہوں نے کہا کہ اوگرا، وزارتِ پٹرولیم، آئل کمپنیز اور عوام اسٹیک ہولڈرز ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ پیٹرول کی قیمتیں بڑھا کر آپ نے کمپنیوں کو کتنا فائدہ پہنچایا؟ مہینہ پورا ہونے سے قبل پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے سے کمپنیوں کو کتنا فائدہ ہوا؟
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ پیٹرول کمپنیوں کی اسٹوریج کی گنجائش کتنی ہے؟ عدالتوں میں آنے سے کسی کی توہین نہیں ہوتی۔
عدالتِ عالیہ نے چیئر پرسن اوگرا کو روسٹرم پر طلب کر لیا اور ان سے استفسار کیا کہ آپ کب سے اوگرا میں تعینات ہیں؟
اوگراکی چیئرپرسن عظمیٰ عادل نے عدالت کو بتایا کہ میں 2016ء سے چیئر پرسن تعینات ہوں۔
یہ بھی پڑھیئے:۔
پٹرول قلت پر وزیرِ پٹرولیم کو مستعفی ہونا چاہئے تھا، لاہور ہائیکورٹ
لاہور ہائی کورٹ، وزیرِ اعظم کے پرنسپل سیکریٹری طلب
پیٹرولیم قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ
چیف جسٹس نے انہیں حکم دیا کہ مجھے 2016ء سے آج تک کی رپورٹ دیں کہ کمپنیوں کے پاس کتنا پیٹرول رہا ہے؟
چیف جسٹس محمد قاسم خان نے کہا کہ آپ نے پیٹرول کی قیمتوں کا تعین کرنے کے لیے فارمولہ تبدیل کر دیا جو بظاہر بد نیتی پر مبنی لگتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اوگرا حکام کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ یہ بہت بڑا بحران ہے جو ملک میں آیا ہے، اب اس کی شفاف طریقے سے کیسے تحقیقات کرنی ہیں؟
چیف جسٹس محمد قاسم خان نے حکم دیا کہ حکومت اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل کمیٹی بنائیں، پیٹرول بحران، قیمتوں کے بڑھانے پر ایک رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کریں، اراکینِ پارلیمنٹ پر مشتمل کمیٹی وہ رپورٹ عدالت کو بھی پیش کرے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ پارلیمنٹ یہ کام نہ کرنا چاہے تو عدالت کی معاونت کریں کہ ضابطۂ فوجداری کے تحت کمیشن بنا دیں، اسپیکر یہ کام نہ کرنا چاہیں اور کمیٹی کو 15 دن میں تحقیقات مکمل کرنے کا نہیں کہتے تو قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا تو اس کے راستے کی رکاوٹ بننے والا کوئی بھی نہیں بچے گا، اس راستے کی رکاوٹ بننے والا خواہ وہ سیکریٹری ہو یا کوئی ڈی جی ہو، وہ نہیں بچے گا، حکومت خود اس پر کچھ کر لیتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔
چیف جسٹس نے چیئرپرسن اوگرا پر عائد جرمانے کو چندے میں تبدیل کرنے کی استدعا منظور کر لی۔
عدالتِ عالیہ نے کیس کی مزید سماعت 9 جولائی تک ملتوی کر دی جبکہ متعلقہ حکام سے شق وار جواب مانگ لیا۔