• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فرانس کی ڈائری :رضا چوہدری۔۔پیرس
بدعنوانی کے خلاف مہم معاشرے کو بہتری کی طرف لانے کوشش ہوتی ہے فرانس کی عدالت نے ملک کے سابق وزیر اعظم کوکرپشن پر 5 سال قید، دس سال کے لیے نااہلی اورپونے چار لاکھ یوروجرمانے کی سزا سنادی ہے۔ جبکہ ان کی اہلیہ کوبھی سزا سنائی گئی۔فرانس کے سابق وزیراعظم فلوں اور ان کی اہلیہ پینی لوپ کو کرپشن کےجرم نے کہیں کا نہ چھوڑا۔ ان کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ بتیس ویں چیمبر کےسامنے سنایا گیا ۔فلوں پر یہ جرم ثابت ہوگیا ہے کہ انہوں نے اپنی اہلیہ پینی لوپ کو جعلی نوکری کے نام پر سرکاری خزانے سےدس لاکھ یورو ادا کروائے تھے جو تنخواہ پینی لوپ کو بحیثیت پارلیمانی معاون دی گئی وہ فرانس میں عام افراد کی تنخواہ سے نو گنا زیادہ تھی تاہم اس بات کے شواہد نہیں تھے کہ انہوں نے کوئی کام بھی کیا ہو۔ سابق وزیراعظم کو سنائی گئی پانچ برس کی سزائے قید میں سے تین برس کمیونٹی خدمات میں صرف کیے جاسکیں گے۔ ا ن کی اہلیہ پینی لوپ کو تین برس معطل سزا، پونے چار لاکھ جرمانہ دینا ہوگا جبکہ وہ دو برس تک الیکشن بھی نہیں لڑسکیں گی۔ فلوں کو اپنی بیٹی میری اور بیٹے چارلس کو سن دوہزار پانچ سے سن دوہزار سات تک بطور معاون رکھنے کا بھی دفاع کرنا پڑا تھا اور دونوں کو تنخواہوں کی مد میں ایک لاکھ سترہ ہزار یورو دیے گئے تھے۔فلوں فرانس کے سابق صدر نکولا سرکوزی کی سینٹر رائٹ حکومت میں سن دوہزار سترہ سے سن دوہزار بارہ تک وزیراعظم رہے تھے۔فلوں کے خلاف یہ اسکینڈل مقامی ہفت روزہ میں شائع ہوا تھا جو پورے ملک میں عوام کی دلچسپی کا باعث بن گیا تھا اس اسکینڈل نے فلوں کے صدربننے کا خواب چکنا چور کردیا تھا۔اس وقت کے سروے کے مطابق فلوں ہی واضح طورپر کامیاب ہونا تھے مگر اسکینڈل سامنے آنے پر وہ پہلے مرحلے کو بھی عبورنہیں کرسکے تھے۔اس صورتحال میں ایمانویل میکرون الیکشن جیت گئے تھے۔دونوں کے وکلا نے فیصلے کے خلاف اپیل کااعلان کیا ہےچھیاسٹھ برس کے فلوں کا کہنا ہے کہ ا ن کی بیوی نے ایمانداری سے کام کیا تھا۔اسی طرح دوہفتے قبل ایک فرانسیسی عدالت کے فیصلے سے کراچی میں 1994 بم دھماکے کی گونج ایک دفعہ پھر فرانس بھر سنائی جارہئی تھی جس میں11فرانسیسی نیول انجینئرز سمیت14افراد جان بحق ہوئے تھے۔فرانسیسی عدالت کے فیصلہ کے بعد مقامی میڈیاآگوسٹا آبدوزاسکینڈل اور ’کراچی افیئر‘ کے نام سے مشہورہے کہ یہ بم دھماکا 1994میں آگوسٹا آبدوز کے سودے میں مبینہ رشوت کی عدم ادائیگی کے انتقام کے طور پر کیا گیا تھا ۔اس حوالے سے پیرس کی عدالتوں میں زیر سماعت ایک مقدمہ کا پیر کے روز پیرس کی ایک عدالت نے تین سابق فرانسیسی عہدیداروں اور تین دیگر افراد کو 1994ء میں پاکستان اور سعودی عرب کو اسلحہ ڈیل میں سے لاکھوں یورو کی کک بیکس پر دو سے پانچ سال کی سزا سنا دی ہےجبکہ 90سالہ سابق وزیراعظم ایدوار بلادور اور 77سالہ وزیر دفاع فرانکوئس لیوٹارڈ کو بھی اس جرم میں شامل کیا گیا اور آئندہ ماہ کورٹ آف جسٹس میں ان دونوں کیخلاف ٹرائل ہوگا۔فرا نسیسی وزیراعظم پر الزام تھا کہ انہوں نے اس ڈیل سے حاصل کردہ رقم کے ذریعے 1995 ء میں اپنی صدارتی مہم کی فنڈنگ کی تھی۔ 90 ؍ سالہ سابق فرانسیسی وزیراعظم بالادور 1993ء سے 1995ء کے درمیان وزیراعظم رہے اور انہوں نے 1995ء میں صدارتی انتخابات لڑنے کی بھی کوشش کی تھی۔3سابق فرانسیسی عہدیداروں میں ایدوار بلادور کی صدارتی مہم کے منیجر نکولس بیزارے، وزیر دفاع فرانکوئس لیوٹارڈ کے سابق مشیر ریناؤڈ ڈونیڈو اور اس وقت کے بجٹ منسٹر نکولس سرکوزی کے سابق معاون ٹھیری گوبارڈ شامل ہیںسال ٹونٹی ٹونٹی تمام نقطۂ ہائے نظر کی غیر جانبدارانہ ترجمانی کرتے ہوئے ۔ معتدل نقطہ نظر ناقابلِ گفت و شنید کے ساتھ گزر رہا ہے جو تمام مضامین نگاروں اور جملہ صارفین و منتظمین کے لیے واجب العمل ہے۔کوروناو ائرس وباء کی گھن گرج میں اورسیز پاکستانیوں یہ نوید بھی سنی اور پڑھی کہ آئندہ چھ ماہ کے دوران دیار غیر میں خالق حقیقی سے جا ملنے والوں کو مرنے کے بعد وطن عزیز کی مٹی بھی نصیب نہیں ہو گی اور ان کی زندگی آخری امید پر پانی پھیر گیا ہےیہ خبر ان کےلئے مرنے سے پہلے ہی قیامت سے کم نہیںکہ پاکستان کی قومی ائرلائن " پی آئی اے" کو یورپ میںآپریشن سے روک دیا گیا اس کی وجوہات کئی ایک بیان کی جارہی ہیں ہر ایک کا نکتہ نظر اپنا اپنا ہے۔ اس سارے معاملے کے اثرات کا سامنا صرف اورسیز پاکستانیوں کو کرنا پڑے گا اور اس کی بھونڈی سیاست اور بیان بازی ہے وہ بھی اسمبلی فورم پر۔ اس کے بعد انٹرنیشنل سطح پر پاکستانی ڈرائیونگ لائسنس، تعلیمی اسناد، ڈپلومہ سمیت تمام کاغذات کون تسلیم کرے گا ۔ یورپی اور مشرق و سطیٰ میں آباد اورسیز پاکستانی وطن عزیز سے وابستہ کئی معمولات میں متعدد مسائلستان کا شکار ہیں وہ جعلسازی سے متعدد بار لوٹ چکے ہیں ہزاروں اورسیز پاکستانیوں کو وطن عزیز میں پروقار پرامن ماحول میں چھت فراہم کرنےکے نام پر متعدد جعلی اور صیح ہاوسنگ سوسائٹیوں کے نمائندے چھت کی فراہمی کے نام پر ساری زندگی کی کمائی سے محروم کر چکے ہیں ہزاروں اورسیز پاکستانیوں کو گھروں کےلئے پلاٹ کے نام پر لوٹا جا چکا ہے ہزاروں متاثرین کے گھروں میں پلاٹوں کی فائلیں بریف کیسوں میں پڑ ی ہیں ، ہزاروں اورسیز پاکستانی وطن عزیز میں اپنی جائیدادوں سے محروم ہو چکے ہیں اور تعجب کی بات یہ ہے ہر دور حکومت اورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کی نوید سنا کر گئی ۔بہروپئے کالے چشمے لگائے ہاتھوں میں بریف کیس اٹھائے بڑی دلیری سے اوورسیز پاکستانیوں کو سبز باغ دیکھ کر لوٹنے میں مصروف ہیں اور مختلف ممالک میں اپنی شاخیں قائم کرر ہے ہیں اور عہدوں کی تقسیم کے نام پر سیروتفریحی کے ساتھ ساتھ دعوت شیراز اڑا ر ہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہر دور میں ان نو سر بازوں کے تانے بانے وطن عزیز میںبرسراقتدار حکومتی عہدیداروں سے جا ملتے ہیں۔ اب عالمگیر کوروناوائرس وباء میں بھی سب سے زیادہ متاثر اورسیز پاکستانی ہیں ۔اگر ہاوسنگ سوسائٹیوں کے تو سب سے نشانہ اورسیز پاکستانی بنے ہیںاگر تنظمات اور عہدیداروں کی نامزدگیاں ہوں تو سب سے زیادہ مذاق اورسیز پاکستانیوںسے ہوتا ہے اور اب اگر آمدورفت کےلئے قومی ا یئر لا ئن کو ترجیح دینے والے سب سے متاثر اورسیز پاکستانی ملک و قوم کو ذرمبادلہ کی فراہمی میں پیش پیش اورسیز پاکستانی چند مانگنا ہو تو پہلی ترجیح اورسیز پاکستانی ہوتے ہیںاب چھ ماہ کےلئے پی آئی اے پر یورپ میں پابندی لگی تو سب سے زیادہ متاثر اورسیز پاکستانی ہوںگے اوردنیا فانی سے جانے کے بعد ان آخری خواہش وطن کی مٹی اور ڈیڑھ گز زمین کا ٹکڑا ہوتا ہے جو اب کم از کم آئندہ چھ ماہ کے دوران دنیا فانی سے رخصت ہونے والوں اور دیگر اورسیز پاکستانیوں کو نصیب نہیں ہو سکے گی ۔اوورسیز پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اس جمہوریت سے ہم کو کیا حاصل وصول ہوا اگر کرپشن کی بات ہو تووہ عروج پر کی داستیں زبان زدعام ہیں ، انتقام کی کہانیاں بھی سب پر عیاں ہیں لوگ کہ بغیر مقدمہ کے کئی کئی ماہ بے جرم بے خطا جیلوں میں ہیں روزمرہ ضروریات زندگی کی اشیاء مہنگے داموں بھی عدم دستیاب ہیںمریضوں کو علاج کی کوئی سہولت بھی میسر نہیں جبکہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی بھی احساس کمتری کا شکار ہیں غیر منتخب منظور نظر افراد کی بھر مار ہے۔ بڑی ہی معذرت کے ساتھ ہم باز آئے ایسی جمہوریت سے کہ جس میں ملک کی ریڑھ کی ہڈی قرار پائے جانے والے بار بار لوٹ لئے جاتے ہیںوہ خوار ہو ر ہے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کی بہتری کی بجائے تذلیل کے ساتھ ڈاکوؤں اور نوسربازوں کے رحم کرم پر چھوڑ کر غیر کی مٹی میں دفن ہونے پر مجبور ہیں اور ان لوٹنے والے ماضی اورحال میں سب کے سب حکمران عیش و عشرت کے ساتھ قیمتی محلوں میں زندگی گزار ر ہے ہیں اور نوبت یہ آتی جار ہی ہے کہ قوم کی رہنما ئی کرنے والے میڈیا کا گلہ بھی دبایا جارہا ہے جس کا پہلا نشانہ اس خاندان کو بنیا جارہا ہے جنہوں نے ہمیشہ پاکستان، دفاع پاکستان اور ملک کے عوام کے حقوق کی بات اور جدوجہد کی ہے۔ میری مراد میرخلیل الر حمٰن کے صاحبزادے میر شکیل الرحمٰن ہیںجو بغیر کسی وجہ کے گرفتار ہیں اور ان کی انصاف کے تمام تقاضوں کی راہ میں رکاوٹ کے ساتھ تین ماہ سے جیل میں بندش جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ان کا قصور یہ ہے کہ انہوں ہمیشہ میرٹ کی بات کی انصاف کے بول بالا کرنے کےلئے جدوجہد کی کرپشن کی نشاندہی کی اگر معاملات پر غور کیا جاتا تو آج وطن عزیز کی قومی ایئرلائن پی آئی اے کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔قوم نے ملک کے اداروں کی بہتری کےلئے میرٹ کی خاطر سیاست دانوں کی اقربا پروری، مورثی سیاست سمیت سب کچھ برداشت کیا اگر اداروں میں میرٹ پر عمل کیا جاتا تو آج ایشیاء کی سب سے بڑی کراچی سٹیل ملز کی بندنش نہ ہوتی خود ملک دیوالیہ پن کا شکار نہ ہوتا ہر طرف قرضوں کی بھر مار اور قرضوںکی ری شیڈولنگ کی آوازیں نہ سنائی دیتیں۔ ہر دور میں نا اہل لوگوں کی داستیں ہیں کہ ان کے کتوں کو علاج کےلئے بھی خصوصی جہاز ا ستعمال ہوتے ہیں۔ 21 ، 22 کروڑ آبادی والے ملک میں دو تین سو دیانتدار فرض شناس افراد بھی تلاش کرنا محال ہے جو بلا تفریق غیرجانبدار سخت احتساب کرکے لوٹی ہوئی دولت واپس لائے۔۔۔ہر شاخ پے الو بیٹھا ہے۔۔۔۔انجام گلستاں کیا ہوگا ۔۔۔۔اوورسیز پاکستانی کمیونٹی کی آنکھیں آشک بار ہے کہ قائداعظم کے پاکستان میں کیا کبھی انصاف کا بول بالا ہو گا کیا وہ پستی کی طرف جانے کی بجائے ترقی کی طرف گامزن ہو سکے گا ان حالات میں اللہ تعا لیٰ سے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ 
تازہ ترین