• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان ہائیکورٹ نے گزشتہ ہفتے بلوچستان ہائیکورٹ بار کے سابق صدر محمد ساجد ترین کی پٹیشن پر 10ویں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کی تشکیل سے متعلق صدرکے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے دیا نیز مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور وفاقی سیکریٹری خزانہ کی تقرری کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دینے کا حکم بھی دیا۔ ہائیکورٹ نے صدر پاکستان کو آئین کے آرٹیکل 160کے تحت نئے ٹرمز آف ریفرنس جاری کرنے کی ہدایت کی۔ معزز عدالت نے آرٹیکل 160کی تشریح کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو غیر آئینی کام کرنے سے روک دیا۔ واضح رہے کہ 12مئی 2020ء کو صدر پاکستان نے دسویں نیشنل فنانس کمیشن کی تشکیل کی تھی جس کے خلاف بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا نے صدائے احتجاج بلند کی۔ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے اس کمیشن کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئےکہا کہ 10واں نیشنل فنانس کمیشن 18ویں ترمیم اور آئین کے آرٹیکل 160کے دائرے سے باہر تشکیل دیا گیا ہے، یہ بھی کہا گیا کہ وفاقی حکومت صوبوں کے اُس حصے میں کٹوتی کی کوشش کر رہی ہے جو این ایف سی ایوارڈ کے تحت ان کا آئینی حصہ ہے۔ اس کمیشن کی تشکیل سے قبل افواہیں گردش پذیر تھیں کہ پی ٹی آئی حکومت ایک مخصوص فارمولے کے تحت مقرر کردہ صوبوں کے مالی حصہ میں ایک بہت بڑی تبدیلی لانے کیلئے کوشاں ہے۔ جیسا کہ ہم د یکھ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کےکچھ وفاقی وزرا نے 18ویں ترمیم کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے۔ وفاقی وزراء نے تو یہاں تک کہا کہ 18ویں ترمیم فیڈریشن کے حق میں نہیں ہے۔ دوسری طرف صوبوں کا خیال ہے کہ 18ویں ترمیم نے صوبوں کے حقوق کو یقینی بنایا ہے۔ صوبوں کے خدشات میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے پرائیویٹ ممبروں کو متعلقہ صوبوں کی بجائے باہر سے لیا گیا مزید یہ کہ حفیظ شیخ (مشیر برائے خزانہ) اور وفاقی سیکریٹری خزانہ کو بھی دسویں کمیشن کا ممبر بنایا گیا۔

صدر پاکستان کی جانب سے 10ویں نیشنل فنانس کمیشن کی تشکیل کے 12مئی کے نوٹیفکیشن کے تحت (مشیر برائے خزانہ) کو وفاقی وزیر خزانہ کی غیر موجودگی میں این ایف سی کمیشن کے سربراہی کی بھی اجازت دی گئی۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم عمران خان کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 160کے تحت وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ نیشنل فنانس کمیشن کی صدارت نہیں کر سکتے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کمیشن میں فنانشل ایکسپرٹ کے ممبر کی حیثیت سے وفاقی سیکریٹری خزانہ کی تقرری پر بھی خدشات ظاہر کئے۔ سینئر وکیل محمد ساجد ترین جو بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما ہیں، نے جاوید جبار کی بلوچستان سے ممبر کی حیثیت سے تقرری، مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور وفاقی سیکریٹری خزانہ کی این ایف سی میں ممبر کی حیثیت سے تقرری اور کمیشن کی تشکیل کے دوران صدر کے ذریعہ مقرر کردہ ٹی او آرز کے خلاف اپنی پٹیشن دائر کی تھی۔ جناب ساجد ترین نے اپنی پٹیشن میں مؤقف اپنایا کہ آئین کے تحت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے اخراجات وفاقی حکومت اپنے حصے سے ادا کرتی ہے، لیکن اگر وفاقی حکومت ان علاقوں کو مزید رقم دینا چاہتی ہے تو وہ بھی اپنے حصہ سے ہی ادا کرے، صوبے اپنے حصہ کسی اور کو دینے کیلئے تیار نہیں ہیں، درخواست میں یہ بھی موقف اپنایا گیا کہ جاوید جبار فنانشل ماہر نہیں ہیں۔ اس پٹیشن پر بلوچستان ہائیکورٹ نے جاوید جبار، وفاقی حکومت، چاروں صوبائی حکومتوں اور دیگر کو نوٹس جاری کر دیے، جس پر جاوید جبار نے استعفیٰ دے دیا۔ عدالت میں چند سماعتوں اور دونوں فریقوں کے دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نذیر لانگو نے فیصلہ سنایا، جس میں معزز عدالت نے پٹیشن کو منظور کرتے ہوئے قراردیا کہ صدر کی طرف سے جاری کیا گیا نوٹیفکیشن خلاف آئین ہے لہٰذ اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے جبکہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور وفاقی سیکریٹری خزانہ کی تقرری کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دینے کا بھی حکم دیا۔ ہائیکورٹ نے صدر پاکستان کو آئین کے آرٹیکل 160کے تحت نئے ٹرمز آف ریفرنس جاری کرنے کی ہدایت کی۔اس طرح بلوچستان ہائیکورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ دیا اور آرٹیکل 160کی درست تشریح کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو غیر آئینی کام کرنے سے روک دیا۔ اس فیصلے کو آئین کی بالادستی سے تعبیر کرتے ہوئے ملک کے طول وعرض میں اس کا زبردست خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہاتھی کے کان میں سوئے اربابِ اقتدار بھی اس حقیقت کا ادراک کرلیں کہ صوبوں کی معاشی خود کفالت سے وفاق کمزور نہیں بلکہ مضبوط و خوشحال ہوگا۔

تازہ ترین