5جولائی1977ء ملکی تاریخ کی ایسی بدترین کالی رات ہے جس نے عوامی جدوجہد کے ذریعے آزادیٔ جمہوریت اور معاشرتی و معاشی مساوات کے سفر کو نہ صرف روک دیا بلکہ ترقی کے پہیے کو اُلٹا گھما دیا اور ملک کو معاشرتی و سیاسی تباہی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ جنرل ضیاء نے فوجی بغاوت کے ذریعے بزورِ طاقت عوام کے سیاسی حقوق کو سلب کر لیا اور اپنے ہی ملک پر حملہ آور ہو کر آئین کو ختم کیا اور ریاست کے اداروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ 5جولائی اس لحاظ سے بھی بدترین ہے کہ اس روز پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا نہ صرف تختہ اُلٹا گیا بلکہ عدلیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ اور سازش کے ذریعہ انہیں تختہ دار پر بھی لٹکا دیا گیا۔ یہ تھا اجر اُس وزیراعظم کا جس نے ایک شکست خوردہ پاکستان کی تعمیر نو کی جس نے 90ہزار فوجیوں کو دشمن کی قید سے آزاد کرایا۔ جس نے 5ہزار مربع میل کا علاقہ دشمن کے تسلط سے واگزار کرایا۔ جس نے ملک و قوم کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے ایٹمی پروگرام دیا۔ جس نے سرزمین بے آئین کو پہلا متفقہ آئین دیا جبکہ یہ کام پاکستان کی بانی سیاسی قیادت ربع صدی تک انجام نہ دے سکی۔ جس نے ملک کے مفلوک الحال طبقوں کو سر اُٹھا کر جینے کا حوصلہ دیا اور اُنھیں سیاسی شعور دیا۔ جس نے محنت کش طبقہ کیلئے اندرون و بیرون ملک روزگار کے دروازے کھولے۔ جس نے پاکستان کو دنیا میں سر اُٹھا کر جینے کی ہمت بخشی اور پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی بنیاد رکھی۔
قیام پاکستان کے موقع پر قائداعظم نے پاکستان میں آئین سازی کی ضرورت پر زور دیا اور بنیادی اُصول وفاقی جمہوریت کو قرار دیا مگر بدقسمتی رہی کہ ابتدا ہی سے پاکستان ایک مستحکم جمہوری ریاست نہ بن سکا۔ ریاست آئین سے محروم رہی اور عوام کو نہ تو اُن کے بنیادی حقوق میسر آئے اور نہ ہی اُنھیں حق حکمرانی دیا گیا۔ 1967ء میں عوام نے عظیم جدوجہد کا آغاز کیا جس کی بدولت پاکستان میں ایک شخص ایک ووٹ کی بنیاد پر 1970ء کے انتخابات منعقد ہوئے۔ جنرل یحییٰ نے اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کرکے اور سازش اور تشدد کے ذریعے ملک کو دولخت کر دیا اور بادل نخواستہ شکست خوردہ پاکستان کا اقتدار پیپلز پارٹی اور بھٹو صاحب کے سپرد کرنا پڑا جنہوں نے تنکا تنکا جوڑ کر تعمیر کا سفر شروع کیا اور قوم کو راکھ کے ڈھیر سے دوبارہ زندہ کیا۔ وہ ملک جو 25سال تک اپنا آئین نہ بنا سکا بھٹو صاحب نے پہلے اُسے اسمبلی کا مرتب کر دہ عبوری آئین دیا اور پھر قوم کو پہلا متفقہ آئین دیا۔ جس میں اسلامی فلاحی ریاست کے بنیادی اصول وضع کئے گئے اور عوام کو پہلی دفعہ آئین کے ذریعہ ان کے بنیادی حقوق دیے گئے۔ وفاق کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ صوبوں کو صوبائی خودمختاری کا حق دیا گیا۔ بھٹو صاحب نے عوام سے کئے گئے عہد نبھاتے ہوئے پانچ سال میں ایسے شاندار کام کئے کہ ایک عالم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا اور پاکستان تیزی سے ترقی و خوشحالی کی منزلیں طے کرنے لگا۔
1977ء میں پہلی دفعہ جمہوری حکومت کے زیر نگرانی عام انتخابات کا انعقاد ہوا کوئی بھی جماعت پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رکھتی تھی لہٰذا خفیہ ہاتھوں نے مختلف جماعتوں پر مشتمل پاکستان نیشنل الائنس (PNA) کی بنیاد رکھی۔ تمام تر کوششوں کے باوجود یہ اتحاد شکست سے دوچار ہوا کیونکہ عوام قائدِ عوام کے ساتھ تھے۔ انھیں خفیہ قوتوں نے اپوزیشن جماعتوں کو بھٹو صاحب کی حکومت کے خلاف تحریک شروع کرنے کا کہا اور دھاندلی کے الزامات پر شروع کی جانے وای تحریک نے ’’تحریک نظام مصطفیٰ‘‘ کا لبادہ اوڑھ لیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جمہوری روایات کے تحت اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مذاکرات شروع کئے۔ حکومتی ٹیم ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں عبدالحفیظ پیرزادہ اور مولانا کوثر نیازی پر مشتمل تھی اور PNAکی طرف سے مولانا مفتی محمد کی قیادت میں نوابزادہ نصر اللہ خان اور پروفیسر غفو احمد مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھے۔فریقین 4جولائی کو باہمی رضا مندی سے سمجھوتا تک پہنچ گئے لیکن مذاکرات کی کامیابی کے باوجود 5جولائی کو جنرل ضیاء نے ملک میں طویل ترین وحشت ناک مارشل لا نافذ کر دیا اور ملک کو لمبی تاریک رات کی طرف دھکیل دیا۔
تو ہی بتا دے کیسے کاٹوں
رات اور ایسی کالی رات
عوام آج بھی اس سیاہ دور کے اثرات کو بھگت رہے ہیں، اس فوجی بغاوت نے ہمارے معاشرتی اقدار کو بدترین زوال سے ہمکنار کر دیا۔ منافقت، جھوٹ، فریب، دھوکا دہی، خود غرضی، حرص، لالچ اور تشدد کو سماجی معمول بنا دیا گیا۔ ارتکازِ دولت اور بیس گھرانوں کی خوشحالی کا دور دوبارہ بدترین شکل میں واپس آگیا اور عوامی جدوجہد کے ذریعہ حاصل کیا گیا حقِ حکمرانی پھر غصب کر لیا گیا۔ پاکستان کے موجودہ تمام مسائل کی جڑیں اسی فوجی بغاوت سے ہی جڑی نظر آتی ہیں اور اس کی نحوست کے سائے آج بھی اس ملک پر موجود ہیں۔ عدم برداشت، فرقہ واریت، مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی، کلاشنکوف کلچر، ہیروئن، لسانی سیاست، کرپشن، لوڈشیڈنگ سمیت تمام مسائل کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق 5جولائی کی آمریت سے ہے۔ جس کا اندازہ ہم آج اپنے معاشرتی و معاشی نظام کی شکست و ریخت اور عالمی برادری میں اپنے بے وقار مقام سے بخوبی کر سکتے ہیں۔
جنرل ضیاء کے سیاہ دور میں سیاسی کارکنوں، نوجوانوں، محنت کشوں اور محروم طبقات کو بدترین ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ عوامی حقوق اور جمہوریت کے لیے ابھرنے والی مزاحمتی تحریکوں کو بزورِ طاقت خون میں ڈبو دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے سینکڑوں کارکنوں کو ذوالفقار علی بھٹوکی تقلیدمیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ ہزاروں کارکنوں کو سر عام کوڑے مارے گئے۔ بے شمار کارکنوں کو بدنام زمانہ عقوبت خانوں اور اذیت گاہوں میں بدترین جسمانی اور ذہنی تشدد کے ذریعہ مفلوج کر دیا گیا اور اَنگنت لوگوں کو محترمہ بینظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کی قیادت میں قید و بند کی صوبتوں کے حوالے کر دیا گیا اور زندان حریت پسندوں کا مسکن ٹھہرے۔ تمام جبر کے باوجود پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے محترمہ بینظیر بھٹو اور محترمہ نصرت بھٹو کی قیادت میں عظیم جدوجہد کی مثال قائم کی اور لازوال قربانیوں کی داستانیں رقم کیں۔
ہم پہ جو گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے