• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب انگریز یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے واٹر لو کی جنگ فلاں اسکول کے کھیل کے میدانوں پر جیتی تو وہ ایک طرح سے اپنے تعلیمی اداروں کی برتری کا دعویٰ کرتے ہیں۔ گویا فیصلہ کن جنگوں کے فیصلے ان درسگاہوں میں کئے جاتے ہیں جہاں بچوں کے ذہن اور ان کے کردار کی تشکیل صحیح انداز میں کسی جائے۔ تو کیا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ نظریہ پاکستان کا بھرم سندھ میں میٹرک کے امتحانوں میں کھل گیا؟ یہاں یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ واٹرلو کی جنگ کا انگلستان کے مشہور اسکول ایٹنی کے کھیل کے میدانوں سے کوئی رشتہ ہو یا نہ ہو، ہمارے پبلک امتحانوں میں جس طرح نقل کی جاتی ہے اس کا تعلق نظریہ پاکستان سے کیسے جوڑا جاسکتا ہے۔ میرا جواب یہ ہے کہ جسے ہم نظریہ پاکستان کہتے ہیں اور اس کی تشریح کسی طرح بھی کی جائے اگر اس کی جڑیں ہماری قومی زندگی، ہمارے کردار و عمل میں پیوست نہیں ہیں تو پھر اس کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ امتحانات میں حصہ لینے والے کسی امیدوار کو ساری دعائیں یاد ہوں اور وہ ریٹرننگ آفیسر کو اپنی پاکبازی کا یقین دلاچکا ہو لیکن اسے امتحانوں میں کی جانے والی نقل سے کوئی شکایت نہ ہو اور وہ اس کے وسیع مضمرات سے بالکل پریشان نہ ہو۔ ایسی صورت میں آئین کی دفعہ 62 اور 63 کا پرچم اٹھا کر نظریہ پاکستان کا دفاع کرنے والے کیا کہیں گے؟ ہوسکتا ہے انہیں اس بات کی کوئی پروا نہ ہو کہ انتخابات کی جنگ جو دراصل پاکستان میں جمہوریت کی جنگ ہے، وہ کن میدانوں میں لڑی اور جیتی یا ہاری جائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ جمہوریت سے ان کی وابستگی بس واجبی ہو اور نظریہ پاکستان سے ان کا لگاؤ والہانہ ہو۔ اس سے قطع نظر کہ جمہوریت کی شکل و صورت اور اس کی سیرت کو واضح طور پر بیان کیا جاسکتا ہے اور نظریہ پاکستان کے بارے میں پائے جانے والے اختلافات پاکستان کی شناخت کے بحران کا پتہ دیتے ہیں۔ اس الجھن کو سلجھانے کا سب سے اہم ذریعہ شاید جمہوریت ہی ہے۔
یہ جو میں نظریہ پاکستان کا رشتہ امتحانوں میں کی جانے والی نقل سے جوڑنے کی کوشش کررہا ہو تو اس کی ایک وجہ تو محض یہ ہے کہ سندھ میں میٹرک کے امتحان اسی ہفتے شروع ہوئے اور نظریہ پاکستان پر کی جانے والی گفتگو بھی حالیہ سرخیوں اور تبصروں کا موضوع رہی ہے۔ انتخابات کے اس موسم میں اگر اہم قومی مسائل پر نظر ڈالی جائے تو نظریاتی تناؤ اور سیاسی کشمکش کے سائبان میں تعلیم جیسے اہم مسائل جی توجہ اور تشریح کے محتاج ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہو کیا رہا ہے۔ ہمارے اجتماعی رویے کیا ہیں۔ اور ان حقائق کی روشنی میں نظریہ پاکستان کی کیا تصویر بنتی ہے۔ اور اگر نظریہ پاکستان کا ہماری عملی زندگی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے تو پھر ہمیں اس کی اہمیت پر اتنا زور دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اگر ہماری اجتماعی زندگی میں مہم گیر تبدیلی وقت کا تقاضا ہے تو اس جستجو میں ہمیں دنیا سے سیکھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ معاشرے کیسے ترقی کرتے ہیں۔ وہ کونسی بنیادی خصوصیات ہیں جو عوام کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت بن سکتی ہیں۔ ان عوامل کا مشاہدہ ہم عہد حاضر کی تاریخ میں کرسکتے ہیں۔ پاکستان کا نظریہ خواہ کچھ بھی ہو، نہ یہ ملک دنیا سے الگ ہے اور نہ اس کا معاشرہ۔ قدرت کے، معاشرت کے اور سائنس کے جو قوانین دنیا پر لاگو ہیں ہم بھی ان کے اسیر ہیں۔ مثلاً یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم امتحانوں میں مسلسل نقل کرتے رہیں اور ہماری افرادی قوت کی تعلیمی فکری اور عملی استعداد میں اضافہ بھی ہوتا رہے۔ اگر ہم دنیا میں سب سے الگ ہیں تو شاید اس حد تک کہ ہمارے مقتدر حلقوں کو اور ان میں سیاسی رہنما بھی شامل ہیں یہ دکھائی نہیں دے رہا کہ ہمارے ملک میں تعلیم، صحت اور سماجی انصاف کی صورتحال کیا ہے۔ حساس اور باشعور پاکستانی یہ سب دیکھ رہے ہیں اور پریشان ہیں۔
امتحانوں میں نقل کا ذکر میں بہت دکھے دل کے ساتھ کرتا ہوں۔ میرے لئے یہ ایک علامت ہے اس ذہنی ، تہذیبی اور تعلیمی پسماندگی کی جس سے ہم دوچار ہیں۔ اس ماحول میں تو نظریہ پاکستان کے موضوع پر بھی بے خوفی اور علمی حوالوں کے ساتھ گفتگو ممکن نہیں دکھائی دیتی۔ انتہا پسندی اور عدم برداشت کا دور دورہ ہے۔ تلواریں بے نیام ہیں اور سوچ پر پہرہ ہے۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ کون نظریہ پاکستان کا مخالف ہے اور اسے کیا سزا دی جائے۔ سب سے بڑا جبر شاید یہ ہے کہ ماضی کو یعنی تاریخ کو تبدیل کردیا جائے۔ محمد علی جناح کون تھے۔ ان کی زندگی اور خیالات کیا تھے۔ انہوں نے کیا چاہا اور کیا کہا اور پاکستان بننے سے پہلے کیا ہوا اور بعد میں کیا ہوتا رہا، ان تمام باتوں کو اب نئی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ نظریہ پاکستان کی ایک خاص تشریح کرنے والے، چوراہوں پر کھڑے، ہر گزرنے والے کو یہ عینک پہنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ویسے یہ بھی سچ ہے کہ اگر ہم سارے منظر کو کسی رنگین شیشے کی عینک کے بغیر بھی دیکھیں تو ہمیں کئی تضادات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان تضادات کو سمجھنا یقیناً بہت ضروری ہے لیکن فوری طور پر ہمیں پاکستان کی موجودہ صورتحال اور اس کی بقاء کی فکر کرنا ہے۔ نظریہ پاکستان کی اس سے بڑی توہین کیا ہوگی کہ ہم پاکستان کو آج کی دنیا اور نئے خیالات سے بچانے کی کوشش کرتے رہیں۔
اسی لئے تو جمہوریت ہماری ضرورت ہے۔ انتخابی عمل شروع ہوچکا ہے۔ اگلے ہفتے، جب الیکشن کمیشن امیدواروں کی حتمی، نظرثانی شدہ فہرست شائع کردے گا تو انتخابی گہما گہمی میں مزید اضافہ ہوگا۔ لیکن امن و امان کی صورتحال سے ڈر لگتا ہے۔ دہشت گرد کتنے منظم اور طاقتور ہیں، اس کا اندازہ تیراہ میں کی جانے والی فوجی کارروائی سے لگایا جاسکتا ہے۔ جمعرات کو، حیدرآباد میں، ایم کیو ایم کے انتخابی امیدوار فخر الاسلام کے قتل نے تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔ اسی سوال کی سرسراہٹ ہم اب بھی محسوس کرتے ہیں کہ کیا انتخابات واقعی ہوجائیں گے اور کیا جمہوریت پاکستان کے نصیب میں ہے۔ جمہوریت کا مطلب کیا ہے اس پر اختلاف رائے کی گنجائش بہت کم ہے۔ نظریہ پاکستان کی ایک خاص انداز میں تشریح کرنے والے حضرات بھی آئین کی پاسداری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ جو دو آرٹیکل 62 اور 63 ہیں وہ آئین میں موجود تو ہیں چاہے ان میں تبدیلی جنرل ضیاء الحق ہی نے کیوں نہ کی ہو۔ البتہ آئین کے آغاز میں ایک ایسی دفعہ ہے جس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ اور یہ آئین میں شروع سے شامل ہے۔ لیجئے، آرٹیکل 3حاضر ہے! ”استحصال کا خاتمہ مملکت استحصال کی تمام اقسام کے خاتمے اور اس بنیادی اصول کی تدریجی تکمیل کو یقینی بنائے گی کہ ہر کسی سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے اور ہر کسی کو اس کے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے“۔
تازہ ترین