• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

(1)جونہی ان کی آنکھوں میں ایک پل کے لئے نیند آنے لگی تو اس مسافر نے اُلٹی سیدھی باتیں شروع کردیں کہ ’’ان ناپاک نسل لوگوں پر لعنت ہو جو سراسر یا محض نام و ناموس اور غرور و ریا کا مجسمہ ہیں۔ وہ لباس تو بظاہر پاکیزہ پہنتے ہیں لیکن ان کا اعتقاد برائی کا حامل ہے‘ وہ پارسائی فروش اور دھوکے باز ہیں۔ بھلا وہ شکم پرست (معروف کی طرف اشارہ ہے) جو نیند میں مست ہے‘ وہ یہ کیونکر جان سکتا ہے کہ ایک بیچارے نے تو آنکھ تک نہیں جھپکی؟‘‘

اس نے معروف کو کچھ ایسا ناقابلِ برداشت برا بھلا کہا کہ وہ اس (مسافر مریض) سے ایک لمحے کے لئے بھی غافل ہو کر کیوں سو گیا؟ شیخ (معروف) نے اس کی ایسی (تکلیف دہ) باتیں ازراہِ مہربانی برداشت کرلیں یا پی گئے‘ تاہم پردےمیں رہنے والیوں نے یہ باتیں سن لیں‘ چنانچہ ایک (بیوی) نے خفیہ طور پر معروف سے کہا کہ ’’تو نے سنا ہے اس فریادی درویش نے (تیرے بارے میں) کیا کہا ہے؟ تو (معروف) جا اور اس سے کہہ کہ وہ اپنی راہ لے‘ ناراض نہ ہو‘ جا کسی اور جگہ جاکے مر۔ نیکی اور رحم و کرم اپنی جگہ ٹھیک ہے‘ یعنی دوسروں کے ساتھ ایسا سلوک کرنا چاہئے‘ لیکن اس قسم کے برے لوگوں کے ساتھ نیک سلوک اچھی بات نہیں ہے۔ کمینے اور گھٹیا آدمی کے سرہانے تکیہ نہ رکھ‘ کیونکہ کسی ایسے ستمگر کا سر پتھر پر ہی ہو تو وہ بہتراور مناسب ہے۔ اے نیک بخت (معروف) تو بروں کے ساتھ نیکی نہ کر‘ کیونکہ نادان آدمی ہی بنجر زمین ہی میں درخت بوتا ہے(جو سراسر بےحاصل امر ہے)۔ میں یہ تو نہیں کہتی کہ لوگوں سے اچھا سلوک نہ کر لیکن (اتنا ضرور کہوں گی کہ) اپنی بخشش و نوازش گھٹیا اور بزدلوں پر ضائع نہ کر۔ کسی سخت و درشت آدمی کے ساتھ خوش اخلاقی سے نرم رویہ اختیار نہ کر‘ اس کی مثال یوں ہے کہ لوگ بلی کی پشت کو تو سہلاتے ہیں لیکن کتے کی پیٹھ نہیں سہلاتے۔ اگر تو سچی اور انصاف کی بات سننا چاہے تو ایک حق شناس کتا سیرت کے لحاظ سے ایک ناشکرے آدمی سے کہیں بہتر ہے۔ ایسے خسیس آدمی پر ٹھنڈے پانی کے ساتھ رحم نہ کر‘ اگر تونے رحم کیا تو پھر اس کی جزا ایسی ہی ہوگی جیسے پانی پر کوئی نقش بنایا ہو‘ یعنی ایسے شخص پر رحم کرنا بیکار قسم کی بات ہوگی۔ میں نے آج تک ایسا انتہائی فریبی آدمی نہیں دیکھا‘ لہٰذا تو ایسے گھٹیا آدمی پر قطعاً رحم نہ کر‘‘۔

معروف یہ باتیں سن کر ہنس دیے اور بولے کہ ’’اے میری دل آرام ساتھی! تو اس کی اس پریشان خیالی سے فکرمند نہ ہو۔ اگر اس نے اپنی بیماری کے باعث مجھ پر غصہ نکالا ہے تو میرے کانوں میں اس کا یہ ناراض رویہ اچھا ہی لگا ہے۔ اس قسم کے آدمی کے جوروتلخی پر ہمیں کان نہیں دھرنے چاہئیں جو بےچینی و بےقراری کی بنا پر نیند سے محروم رہا۔ جب تو خود کو تندرست و توانا اور خوشحال پائے تو اس کے شکرانے کے طور پر ضعیفوں‘ کمزوروں کا بوجھ اٹھا یعنی ان کے سخت رویے کے باوجود اس سے پیار اور محبت سے پیش آ۔ اگر تیری یہی صورت و شکل ہے‘ یعنی تو بھی ایسی ہی مصیبت میں گرفتار ہے تو طلسم کی مانند تیری موت واقع ہو جائے گی اور جسم کی مانند تیرا نام بھی مرجائے گا‘ ختم ہو جائے گا۔ اگر تو رحم و کرم و سخاوت کا درخت پالے تو تجھے یقیناً نیک نامی کا پھل کھانے کو ملے گا۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ شہر کرخ میں بہت سی قبریں ہیں لیکن معروف کی قبر کے سوا کسی کو بھی اس جیسا درجہ حاصل نہیں ہے۔ حکومت و سلطنت سے صرف ان لوگوں کو سرفرازی و بلند مرتبہ حاصل ہوتا ہے جنہوں نے غرور و تکبر کا تاج پھینک دیا۔ شان و شوکت کا متوالا غرور و تکبر میں رہتا ہے‘ اسے یہ علم ہی نہیں کہ یہ حشمت و شوکت صرف حلم و بردباری میں ہے‘ یعنی اسی حلم سے انسان کو عظمت حاصل ہوتی ہے۔

(2) ایک گستاخ شخص نے کسی صاحب دل یا روشن ضمیر آدمی کے آگے دستِ سوال دراز کیا؛ لیکن اس وقت اس صاحب دل کے پاس نقدی نہیں تھی۔ اس کے ہاتھ خالی تھے۔ بصورت دیگر وہ اس سوالی پر درہم و دینار نچھاور کردیتا۔ وہ آشفتہ سر سوالی ؍ فقیر باہر نکل گیا اور کوچے میں اس صاحب دل کو برا بھلا کہنے لگا۔ ’’دیکھیو! ان خاموش بچھوئوں سے بچ کے رہنا‘ یہ تو گویاچیر پھاڑ کرنے والے چیتے ہیں۔ یہ تو بلی کی مانند زانو سینے کی طرف سمیٹ کر بیٹھتے ہیں اور اگر کوئی شکار ان کے سامنے آجائے تو کتے کی طرح اس پر جھپٹ پڑتے ہیں۔ یہ لوگ مکر و فریب کی خاطر سفید اور سیاہ پیوند لگاتے ہیں (اشارہ ہے صوفیا کی گدڑی کی طرف جس میں ایسے پیوند لگے ہوتے ہیں) اور خفیہ طور پر مال و دولت جمع کرتے ہیں۔ یہ کیسے گندم نما جَو فروش یعنی دھوکے باز‘ دغا باز ہیں۔ دنیا کی سیر کرتے پھرتے اور راتوں کو پہرا دیتے ہیں۔ تو ان کی عبادت کی طرف مت دیکھ کہ اس وقت یہ بوڑھے اور سستی کے مارے ہوئے ہیں‘ لیکن رقص و وجد کے موقع پر یہ جوان اور چست ہوتے ہیں۔نہ تو یہ لوگ متقی و پرہیز گار ہیں اور نہ عقل و دانش ہی سے ان کا تعلق ہے‘ بس اتنا ہی کافی ہے کہ یہ دین بیچ کر دنیا کھاتے ہیں۔ وہ (حضرت) بلال ؓکی طرح جسم پر عبا پہنتے ہیں‘ لیکن حبش کی آمدنی سے زنانہ لباس پہنتے ہیں۔ تجھے ان میں سنت (نبویؐ) کی پیروی کا کوئی نشان و اثر نظر نہیں آے گا‘ وہ تو صرف ظہر کی نیند اور صبح کی روٹی ہی کے چکر میں رہتے ہیں۔ ان کا پیٹ کثرتِ خوراک سے حلق تک بھرا ہوتا ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح گداگروں کا تھیلا 70رنگوں سے پُر ہوتا ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین