• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پروفیسر ڈاکٹر اعجاز احسن
(1934-2020)
تحریر…اعتزازاحسن
وزیر ِاعظم کا فون تھا: ’’کیا پروفیسر صاحب آپ کے بھائی نہیں؟‘‘ عجیب ساسوال تھا کیوں کہ محترمہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ وہ میرے بھائی تھے ۔ بہرحال استفسا ر سے زیادہ یہ یاددہانی تھی ۔ لیکن اس سوال سے ایک سنجیدہ مسلہ کھڑا ہوگیا۔ اپنے کیئریر کے عروج کے زمانے میں ڈاکٹر اعجاز نے اُس انتہائی پرکشش عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جو طبی شعبے میں کسی بھی افسر کا خواب ہوسکتا ہے: یہ عہدہ پاکستان کے سب سے پرانے طبی سکول، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل کا عہدہ ہے ۔ ایشو وزیر ِاعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر ایک طالب علم کو داخل کرنے کا تھا جو میرٹ پر نہیں آتا تھا۔ جب وزیر ِاعلیٰ کا دبائو برقرار رہا تو بھائی جان کے پاس مستعفی ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ اُن کا کہناتھا کہ ممکن ہے کہ اُن کا جانشین یہ بات مان لے لیکن وہ اپنی مادرِ علمی کی ساکھ کو گزند نہیں پہنچا سکتے ۔
وزیر اعلیٰ کی پارٹی کے اراکین کم تھے لیکن ان کے تعاون سے ہی مخلوط حکومت وجود میں آئی ہوئی تھی۔ اسی اہم تعاون کے بل بوتے پر وہ خود بھی وزیر ِاعلیٰ بنے ہوئے تھے ۔ اس عالم نے ڈاکٹر اعجاز نے کولیشن حکومت کو خطرے سے دوچار کردیا تھا۔ وزیر ِاعلیٰ نے وزیر اعظم سے شکایت کی۔ محترمہ نے مجھ سے بات کی۔ گورنر الطاف سے خاندانی دوستی تھی ۔ اُنہوںنے اپنی خدمات پیش کیں کہ وہ خود ڈاکٹر اعجاز کے پاس جاتے ہیں ، لیکن میں جانتا تھا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیںہوگا۔ میرے ہمراہ گورنر الطاف کا وہاں جانا بے سود ثابت ہوا تھا۔
محترمہ نے مجھے فون کیاتو میں نے اُنہیں مشن کی ناکامی کا بتادیا۔ بی بی نے پوچھا، ’’کیا پروفیسر صاحب آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ ‘‘ میں نے جواب دیا کہ وہ میرے بھائی ہیں ۔ بی بی نے پوچھاتو پھر وہ آپ کی بات کیوں نہیں مان رہے ؟ میںنے الٹا سوال کردیا، ’’بی بی صاحبہ، کیا مرتضیٰ آپ کا چھوٹا بھائی ہے یا بڑا ؟‘‘ اُنھوںنے پریشان ہوتے ہوئے جواب دیا مرتضیٰ اُن سے چھوٹا ہے ۔ میں نے سوچاکہ وہ بات سمجھ گئی ہوں گی، اس لیے مرتضیٰ کے حوالے سے صرف ِنظر کرتے ہوئے پوچھا کہ پھر میں اپنے بھائی پر اثر انداز کیسے ہوسکتا ہوں؟ وہ مجھ سے گیارہ سال بڑے ہیں۔ بی بی نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھ گئی ہیں۔ پروفیسر اعجاز کے جانشین نے وزیر ِاعلیٰ کی بات مان لی ۔
بیس اپریل 1998: پولیس کے شدید لاٹھی چارج سے میرا سر پھٹ گیا تھا۔ سینٹ میں قائد ِحزب ِ اختلاف پر بھی پولیس کی بھرپور قوت استعمال کی گئی تھی ۔ زخمی ہونے کے باوجود میں اپنے قدموں پر کھڑا رہالیکن میرے ساتھیوںنے مجھے فوراً پمز اسلام آباد پہنچایا۔ اگلے چند ایک گھنٹوں میں اعجاز بھائی بھی اسلام آباد پہنچ گئے اور وہ میرے بستر کے پاس تھے ۔
لاہور میں میر ے انتخابات کے موقع پر وہ میرے الیکشن سیل کی رات کی شفٹ سنبھالے ہوئے تھے ۔ چھے گھنٹوںپر محیط یہ شفٹ بہت اہم تھی۔ اس دوران اُنھوںنے تمام معاونین سے ملنا تھا اور اُن سے میرے حلقے کی انتخابی ضروریات کا پتہ کرنا تھا، جیسا کہ انتخابی مواد، تشہیر، اہم افراد سے ملاقات، علاقے میں میرے دورے کی فیڈبیک وغیرہ۔ صبح گھر جانے سے پہلے وہ علاقے یا سیکٹر کی تمام ضروریات بھجواچکے تھے ۔ وہ اپنی اہم نائٹ شفٹ کا چارج سنبھالتے کیونکہ ایک سرکاری افسر ہونے کی وجہ سے وہ براہ راست انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتے تھے ۔ فرائض کی انجام دہی کے دوران وہ کسی پارٹی پرچم یا تشہیر ی مواد کی طرف اپنے جھکائو کو ظاہر نہ ہونے دیتے ۔ اس باوجود وہ تمام مواد کی تقسیم ممکن بناتے جبکہ میں انتخابی مہم میں مصروف ہوتا یا آرام کررہا ہوتا۔ پروفیسر اعجاز نے کبھی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل کے عہدے سے استعفیٰ دینے پر تاسف کا اظہار نہ کیا ۔ وہ ہمیشہ جو درست سمجھتے نتائج اور خوف سے بے پروا ہوکر کرگزرتے ۔ اصولوں کی بنیاد پر ملازمت سے استعفیٰ دیتے ہوئے اُنہوں نے اپنے خاندانی اصولوں کو نبھایا تھا۔ ہمارے داد چوہدری بہاول بخش ایک نوجوان پولیس افسر تھے ۔ جب اپنے پولیس اسٹیشن کی حدود میں ایک اکثریتی پارٹی کی طرف داری کا کہا گیا تو وہ اپنے سینئر افسر کو انکار کرکے ملازمت چھوڑ کر دفتر سے نکل گئے ۔ ہمارے والد صاحب، چوہدری احسن نے سول سروس سے استعفیٰ دے دیا تھا حالانکہ وہ ریونیو آفیسر ، مری کے انتہائی پرکشش عہدے پر تھے ۔ قائد ِاعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے استعفیٰ دے کر اپنے آبائی گھر گجرات چلے آئے اور 1946 ء کی تحریک کے دوران گرفتاری دے دی۔ بھائی جان نے خاندان کی اسی روایت کو نبھایا تھا۔اعجاز بھائی اپنی جماعت میں ہمیشہ اوّل آتے رہے ۔ اُنھوںنے اپنے چھوٹے بھائی بہنوں (نسرین، شیریں اور میں) کے لیے اعلیٰ ترین معیار قائم کیا ۔ ٹینس کھیلنے کا بھی شوق رکھتے تھے ۔ میں اُنہیں اکثر دیکھتا وہ سفید شارٹس پہنے سائیکل پر نہر کے کنارے چلے جاتے اور کنگ ایڈورڈ کالج کی گرائونڈز پر ٹینس کی بھرپور گیم کرتے ۔ آٹھ میل سائیکل چلاکر جانا اور واپس آنا اس کے علاوہ تھا۔ بھائی جان کے استعفے نے اُنہیں میڈیکل شعبے کا ہیرو بنادیا۔ اُنہیں بے پناہ عزت اور توقیر ملی۔ وہ پاکستان کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کے صدر منتخب ہوگئے ۔ اُنہوںنے علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور کے پرنسپل اور پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ ، لاہور کے ڈین کے طور پربھی خدمات سرانجام دیں۔ پروفیسر اعجاز کی تعلیم کے ساتھ لگن نے اُنہیں اپنے شعبے ، سرجری پر ایک مستند کتاب کی تدوین میں کردار ادا کرنے کی تحریک دی۔ یہ کتاب اتنی اہم ہے کہ ہاورڈ میڈیکل اسکول: ولیم پنجم میکڈرمٹ ایم ڈی کے پروفیسر آف سرجری ، ڈیوڈ چیور نے اس کے امریکی ایڈیشن پر لکھا: ’’اس کتاب کی خوبی اور اہمیت اس کی سادگی، درستی اور جامعیت ہے ۔‘‘ بھائی جان بھی سادہ ، درست اور جامع شخصیت کے مالک تھے ۔
اُن کے مشہور ساتھی، پروفیسر ڈاکٹر راشد لطیف بھائی جان کو طبی شعبے کی معراج حاصل کرنے کے باوجود سادگی کی وجہ سے یاد رکھتے ہیں۔ اپنی منکسرالمزاجی کے باوجود اُنہیں دل کو چھو لینے والی پرمغز گفتگو کرنے والے انسان کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے ۔ وہ پوری ڈنر پارٹی کو لاتعداد واقعات سنا سنا اپنی طرف متوجہ رکھ سکتے تھے ۔ سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد اُنھوںنے اخبارات میں دو سو سے زائد مضامین لکھے ۔ اس سے اپنے مضمون کے علاوہ تاریخ، عمرانیات، سیاست، سیاسیات، انتظامی مور اور انسانی رویوں پر اُن کے ہمہ گیر علم کا پتہ چلتا ہے ۔ وہ درحقیقت جدید سوچ رکھنے والے علم دوست انسان تھے ۔ 1962 ء میں بھائی جان کی شادی فرحت بھابی سے ہوئی جو ایک انتہائی ایماندار پولیس آفیسر، ڈی آئی جی ملک عطا محمد نون کی صاحبزادی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ وہ بتار ہے تھے کہ پورے ضلع میں ایک قتل ہونے پر بھی وزیر ِاعلیٰ کی کال آجاتی تھی اور وہ غصے میں ہوتے تھے ۔ اس معیار کو سامنے رکھیں تو پھر آج کے وزرائے اعلیٰ تو دن بھر ڈی پی اوز کو فون کرتے رہیں۔ بھابی نے نفسیات میں ایم ایس سی کی ہوئی تھی ۔ اُنھوںنے گھر میں بہترین علمی ماحول قائم رکھا تھا۔ اُن کی د و ہونہار بیٹیاں، سائرہ اور آمینہ بھی اپنے والدکی سوچ اور شخصیت کی آئینہ دار ہیں۔ بھائی جان اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے ارد گرد کی دنیا کے بارے میں تشویش رکھتے تھے ۔ اُنہیں اپنی گرتی ہوئی صحت کے ساتھ ساتھ بطور ریاست پاکستان کے مستقبل اور معاشرے کی بھی فکر تھی۔ اُن کے مضامین سے اس فکر کا اظہار ملتا ہے ۔ ڈاکٹر اعجاز نے 23 مئی کو عید سے ایک رات پہلے ہمیں اور اس جہان ِفانی کو الوادع کہا۔ عام طور پر ہم اُن کی زمان پارک میں رہائش گاہ پر جمع ہوکر بھابھی فرحت کا تیار کردہ لنچ کرتے ہیں۔ لیکن اس عید پر ہم اُن کی رحلت کا سوگ منانے کے لیے ایک دوسرے سے بھی مل نہ سکے ۔ کوویڈ کے ایس اوپیز کا تقاضا تھا کہ محتا ط فاصلہ رکھا جائے ۔ ہم نے اُن کے ہزاروں جاننے والوں کو فقط یہی کہہ سکے کہ وہ اپنے اپنے گھروں سے ہی اُن کے لیے دعا کردیں۔ بھائی جان بھی شاید ان حالات میں یہی مشورہ دیتے ۔ وہ چاہتے تھے کسی کے لیے تکلیف نہ باعث نہ بناجائے ۔ اُن کا زندگی بھر یہی معمول رہا تھا۔
تازہ ترین