اسلام آباد (نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ نے ملک بھر میں بدعنوانی کے مقدمات جلد نمٹانے کے لئے حکومت کو کم از کم 120 نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پیشرفت رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ پہلے سے موجود 5احتساب عدالتوں میں ججوں اور دیگر عملہ کی خالی اسامیوں پر ایک ہفتے کے اندر اندر تعیناتیاں کرنے اور چیئرمین نیب کو اپنے دستخطوں سے تجاویز جمع کرانے کا حکم جاری کرتے ہوئے نیب آرڈیننس کی دفعہ 16کے تقاضوں کے مطابق زیر التواء ریفرنسز کے 3ماہ کے اندر اندر فیصلوں کو یقینی بنانے کیلئے چیئرمین نیب سے بھی تجاویز طلب کرلی ہیں اور کہا ہے کہ نیب قانون بنانے کا مقصد فوت ہوجائیگا، عدالت نے اٹارنی جنرل، پراسکیوٹر جنرل نیب اور سیکرٹری قانون کو طلب کرلیا۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ نیب کا ادارہ درست طور پر نہیں چل رہا ہے، مقدمے درج ہورہے ہیں فیصلے نہیں، 20، 20 سال سے احتساب عدالتوں میں ریفرنسز زیر التوا ہیں، ان کے فیصلے کیوں نہیں ہورہے ہیں؟ کیوں نہ نیب عدالتیں بند کرتے ہوئے نیب آرڈیننس کو ہی غیرآئینی قراردے دیا جائے؟
قانون کے مطابق تو نیب ریفرنس کا فیصلہ تیس دن کے اندر اندر ہوجانا چاہئے لیکن لگتا ہے کہ نیب کے ملک بھر میں زیر التواء 1226 ریفرنسز کے فیصلے ہونے میں ایک صدی لگ جائے گی، اگرپانچ احتساب عدالتوں میں ججوں کی خالی اسامیوں پر تعیناتی نہ کی گئی تو لاپروائی کے ذمہ دار افسروں کے خلاف سخت ترین ایکشن لیں گے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس یحیٰ آفریدی پر مشتمل تین رکنی خصوصی بنچ نے بدھ کو نیب آرڈیننس1999کی دفعہ 16 کے تحت احتساب عدالتوں میں نیب کے ریفرنسز کے 30دنوں کے اندر اندر فیصلے جاری کرنے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی تو عدالتی نوٹس کے باوجود اٹارنی جنرل، پراسکیوٹر جنرل نیب اور وفاقی سیکرٹری قانون عدالت میں موجود نہیں تھے۔
فاضل چیف جسٹس نے احتساب عدالتوں میں طویل عرصے سے زیر التوا سیکڑوں ریفرنسز پر سخت برہمی کا اظہا رکرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ریفرنس کا جلد فیصلہ نہ ہونے سے نیب کے قانون کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا، اس وقت ملک بھر میں نیب کے 1226 ریفرنسز زیر التوا ہیں، کیا نیب اپنے ہی قانون کی عملداری کے حوالے سے سنجیدہ ہے؟
قانون کے مطابق تو نیب ریفرنسز کا فیصلہ 30 دن کے اندر اندر ہوجانا چاہئے، لگتا ہے کہ 1226 ریفرنسز کے فیصلے ہونے میں ایک صدی لگ جائے گی، انہوں نے مزید کہا کہ نیب کا ادارہ نہیں چل رہا ہے، 20، 20 سال سے احتساب عدالتوں میں ریفرنسز زیرالتوا ہیں، ان ریفرنسز کے فیصلے کیوں نہیں ہورہے ہیں؟ کیوں نہ نیب عدالتیں بند کرتے ہوئے نیب قانون کو ہی غیرآئینی قرار دے دیا جائے؟
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ حکومت سات دنوں کے اندر 5احتساب عدالتوں میں ججوں اور دیگر عملے کی تقرری کو یقینی بنائے ورنہ لاپروائی کے ذمہ دار افسروں کے خلاف سخت ترین ایکشن لیں گے، فاضل عدالت نے التوا کے خاتمے کیلئے ملک میں کم از کم 120 مزید نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے قرار دیا کہ وفاقی سیکرٹری قانون متعلقہ حکام سے ہدایات لے کر آئندہ سماعت پر عدالت میں رپورٹ پیش کریں۔
فاضل عدالت نے 5 احتساب عدالتوں میں ججوں اور عملے کی خالی نشستوں پر تقرریاں کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل، پراسکیوٹر جنرل، سیکرٹری قانون کو پیش ہونے کا حکم جاری کیا جبکہ احتساب عدالتوں میں زیرالتوا ریفرنسزکو طے شدہ مدت 30روز کے اندر اندر نمٹانے سے متعلق چیئرمین نیب کو بھی تجاویز پیش کرنے کی ہدایت کی۔