مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے انکشاف کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن جب دھرنے کے لیے اسلام آباد آئے تو کچھ لوگ دھرنے پر دھاوا بولنے کے حامی تھے۔
ایک بیان میں سینئر سیاستدان اور صدر ق لیگ نے کہا کہ اس وقت وزیرِ اعظم عمران خان سے جا کر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھا، سب ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ آپ بات کر لیں، آپ بات کر لیں۔
انہوں نے کہا کہ پرویز الٰہی حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ممبر نہیں تھے، تاہم پرویز الٰہی سے کہا گیا کہ وہ عمران خان سے بات کریں۔
چوہدری شجاعت نے بتایا کہ پرویز الٰہی نے عمران خان سے ملاقات کی اور انہیں مشورہ دیا کہ اگرمار کٹائی شروع ہوئی اور کوئی آدمی مر گیا تو الزام لینے پر کوئی تیار نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پرویز الٰہی نے عمران خان کو بتایا کہ وزیرِ اعظم کو ہر چیز کا جواب دینا پڑے گا جس پر فیصلہ مؤخر کر دیا گیا۔
سربراہ ق لیگ نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے معاملے پر ہماری پارٹی پر الزام لگایا گیا، پرویز الٰہی کی باہمی سوچ پر عمل کرتے ہوئے معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف پولیس تھی، دوسری طرف مدارس کے طلباء جو مولانا فضل الرحمٰن کے آرڈر کا انتظار کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیئے:۔
کورونا اور دیگر آفات ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہیں، چوہدری شجاعت
چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے ان حالات میں بڑی دور اندیشی کا ثبوت دیا، تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ مولوی صاحبان اور پولیس چند قدموں پر کھڑے تھے لیکن لڑائی نہیں ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ فضل الرحمٰن کے دھرنے میں ایک گلاس تک نہیں ٹوٹا، عمران خان سے کہوں گا کہ مسائل کو باہمی مشاورت سے حل کرنے کی کوشش کریں۔
سربراہ مسلم لیگ ق کا یہ بھی کہنا ہے کہ سب چیزیں بھول کر ملک کے بحران کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔