بچوں کا اغواء موجودہ دُنیا کے لیے ایک چیلنجنگ اور سُلگتا ہوا مسئلہ ہے، بالخصوص جنوبی ایشیاء کے ممالک جن میں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان وغیرہ شامل ہیں، یہ مسئلہ زیادہ گمبھیر اور سنگین ہے، چوں کہ ان ممالک کا شمار پسماندہ یا ترقی پذیر ملکوں میں ہوتا ہے ، لہٰذا یہاں اکثر لوگ گروہ کی شکل میں بچوں کے اغواؤ جیسے مذموم عمل کو اپنی بے روزگاری کے سدباب کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔ یہ جرائم پیشہ لوگ یا گروہ ان اغواء کیے جانے والے بچوں کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرکے پیسہ کماتے ہیں، مثلاً یا تو ان بچوں کو دوردراز پہاڑی علاقوں میں جہاں قانون کی رسائی آسان نہیں ہوتی، وہاں قائم شدہ بیگار کیمپوں میں محصور کرکے ان سے محنت مزدوری کروائی جاتی ہے یا ان کی پرورش اپنے انداز سے کرکے ان سے جرائم کروائے جاتے ہیں یا دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
بیرون ملک بالخصوص مڈل ایسٹ میں فروخت کردیا جاتا ہے، جہاں ان معصوم جانوں کو اونٹوں کی ریس جیسے قبیح اور انسانیت سوز عمل میں استعمال کرکے ان کی زندگیاں تلف کردی جاتی ہیں اور اگر اغواء شدگان لڑکیاں ہیں تو انہیں ایک عمر تک پہنچنے کے بعد یا تو ان بازاروں کی زینت بنا دیا جاتا ہے یا جسم فروشی کے اڈوں پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ اس سارے مذموم عمل کی سنگینی اور اس سے معاشرے میں آنے والے بگاڑ اور بے کیفی کو اجاگر کرنے کے لیے ابلاغ عامہ کا موثر ترین میڈیم شعبہ فلم، ہر عہد میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ہماری فلموں کی اکثر کہانیوں کا تانا بانا اسی مسئلے سے متعلق بُنا گیا اور متعدد معیاری اور متاثرکن فلمیں ان ہی موضوعات کا احاطہ کرنے کے لیے پروڈیوس کی گئیں۔
1965ء میں ہدایت کار نذیر اجمیری نے نہایت جاندار عنوان ’’دل کے ٹکڑے‘‘ کے تحت ایک بھرپور، دل چسپ، معاشرتی فلم تخلیق کی، جس میں بچوں کے اغواء کے موضوع کو مرکزیت دی گئی۔ کہانی کا تانا بانا کچھ یُوں تھا کہ سوسائٹی کا نہایت باعزت اور معزز شخص نواب رستم (ادیب) بظاہر غریبوں کا ہمدرد اور مسیحا ہوتا ہے، لیکن درحقیقت وہ بچوں کو اغواء کرنے والے گروہ کا سرغنہ ہے۔ سیٹھ رشید (حبیب) کی بہن بچپن میں ہی اغواء کرلی جاتی ہے۔ وہ اکثر اسے یاد کرکے غمزدہ ہوجاتا تھا۔ وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ اس کی بہن کو اغواء کرنے والے گروہ کا سرغنہ اس کا گہرا دوست نواب رستم ہے، پھر تقدیر نے رشید پر ایک وار اور کیا اور اغواء کار عورت اوما دیوی اس کی ننھی بچی کو اٹھا کر لے گئی۔
رشید کا غریب پڑوسی اکبر (محمد علی) ایک غریب کوچوان تھا اور رشید (حبیب) کی بیوی کو بہن کہتا تھا، اس نے عہد کیا کہ اغواء کاروں سے اپنی منہ بولی بہن کے جگر گوشے کو ضرور چھڑا کر لائے گا۔ تلاش و جستجو کے بعد اکبر اغواء کاروں کے اڈے تک جا پہنچا۔ اس نے جان پر کھیل کر نہ صرف اپنی منہ بولی بہن کی بچی کو بلکہ دیگر سیکڑوں بچے، بچیوں کو بھی اغواء کاروں کے چنگل سے رہائی دلوائی، وہیں یہ عقدہ بھی کھلا کہ رشید (حبیب) کی بچھڑی ہوئی بہن کو نواب رستم کے کارندوں نے ایک کوٹھے پر فروخت کردیا تھا اور وہ بچی جوان ہوکر گوہر جان کے نام سے ناچ گانے کا پیشہ کرتی ہے۔ یُوں گوہر جان (دیبا) کو اس کا بچھڑا بھائی بھی مل گیا اور اکبر نے قانون کی مدد کرتے ہوئے نہ صرف شہر سے اغواء کاروں کا اڈہ ختم کروایا، بلکہ نواب رستم کو بھی بے نقاب کیا۔ اسے اور اس کے تمام کارندوں کو قانون کے شکنجے میں جکڑوایا۔ ’’دل کے ٹکڑے‘‘ بامقصد عنوان اور جان دار سبجیکٹ پر بنائی گئی مناسب معیار کی حامل ایک بھرپور دل چسپ فلم تھی، جسے عوامی حلقوں میں اچھی پذیرائی ملی اور باکس آفس پر اس فلم نے عمدہ بزنس کرتے ہوئے سلور جوبلی منائی اور مجموعی طور پر 27؍ہفتے پورے کیے۔
1971ء میں سوشل فلموں کے نامور ڈائریکٹر حسن طارق نے ’’وحشی‘‘ کے علامتی عنوان کے تحت بہت ہی موثر اور طاق تور فلم تخلیق کی، جس کی کہانی یوسف نامی نوجوان (محمد علی) کے گرد گھومتی ہے۔ یوسف، استاد جگو (الیاس کشمیری) کا کارندہ تھا، جو بچوں کو اغواء کے مکروہ دھندے میں ملوث تھا، لیکن جب یوسف کی شادی ہوگئی اور اس کی بیوی نے ایک خوب صورت بچی کو جنم دیا، تو یوسف کسی بچے کو اغواء کرتے ہوئے پکڑا گیا اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا پہنچا۔ چند برس کی قید کاٹ کر جب وہ رہا ہوا، تو استاد جگو نے اسے پھر اغواء کے کام پر لگا دیا۔ تقدیر کا ستم دیکھیے کہ یوسف نے اپنی ہی سات، آٹھ سالہ بیٹی کو اغواء کرلیا، جسے جگو نے پکھراج بیگم (ناصرہ) کے کوٹھے پر فروخت کردیا۔ پکھراج بائی نے یوسف کی بیٹی ریشماں کا نام بدل کر نشاط رکھ دیا اور جوں ہی وہ جواں ہوئی، تو اسے ناچ گانے کے پیشے سے وابستہ کردیا۔
استاد جگو کے اڈے پر اور بہت سے بچے اور بچیاں موجود تھیں ، جنہیں اغواء کرکے لایا گیا تھا۔ اس کے بعد جب یوسف (محمد علی) کی ملاقات اپنی بچھڑی ہوئی بیوی سے ہوئی، تو بیوی نے اس کے ضمیر پر طمانچہ مارتے ہوئے کہا۔ دوسروں کی گودیں اجاڑنے والے! یہ قدرت کا انتقام ہے کہ تمہارے جیل جانے کے بعد تمہاری بیٹی کو بھی کوئی تم جیسا ظالم اور وحشی اغواء کرکے لے گیا تھا، جس کا آج تک پتا نہ چل سکا۔ یوسف کو یاد آگیا کہ اس محلے سے اس نے ایک بچی کو اغواء کیا تھا۔ اس کا سویا ہوا ضمیر جاگ اٹھا اور اس نے استاد جگو کو اور پکھراج بائی کو ہلاک کردیا، جگو کے اڈے کا خاتمہ کیا۔ بیٹی کو شناخت کرلینے کے بعد بیوی کے سپرد کیا اور خود قانون کے سامنے پیش ہوگیا۔ ’’وحشی‘‘ کے مرکزی خیال کو فلم میں ایک بیک گرائونڈ ٹائٹل سونگ کی موثر شاعری کے ذریعے خُوب صورتی سے اجاگر کیا گیا۔ اس ٹائٹل سونگ کو بلند آہنگ میں مہارت سے گانے والے سنگر مسعود رانا نے گایا تھا جس کے بول تھے؎’’
جو ٹھنڈک لوٹے چھائوں کی
جو گود اجاڑے مائوں کی
اس ظالم دنیا میں لوگو!
انسان اسے بھی کہتے ہیں‘‘
لیجنڈری فن کار محمد علی نے ایک بردہ فروش سفاک شخص کے کردار کو اس کمال فن کے ساتھ ادا کیا کہ 1971ء کے بہترین اداکار برائے نگار ایوارڈ کے حقدار ٹھہرے۔ ’’وحشی‘‘ کا اسکرپٹ تنویر کاظمی اور آغا حسن امتثال کی مشترکہ کاوش تھی۔ یہ فلم باکس آفس شان دار کام یابی سے ہم کنار ہوئی اور مجموعی طور پر 40؍ہفتے تک زیرنمائش رہی، لیکن یہ فلم جس قدر موثر اور جاندار تھی، اس مناسبت سے یہ 10؍ہفتے کم چلی۔ اس فلم کو کم ازکم گولڈن جوبلی کا اعزاز ضرور ملنا چاہیے تھا۔
میں اس وقت کے نوآموز ڈائریکٹر رائے فاروق نے ’’بارود‘‘ کے عنوان سے بردہ فروشی کے موضوع پر ایک موثر فلم بنائی ، جس کی کاسٹ محمد علی، شبنم، سلطان راہی جیسے نمایاں جیسے نمایاں فن کاروں پر مشتمل تھی۔ تاہم ہیرو اور ہیروئن کی حیثیت سے دو نئے چہرے بابر خان اور لبنیٰ خٹک کو شامل کیا گیا۔ فلم میں پاکستانی سنیما کی نامور ممثلہ شبنم نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کردار ادا کیا، جب کہ ان کے شوہر کا کردار لیجنڈری ہیرو محمد علی نے ادا کیا۔ کہانی کا مکمل تانا بانا ایک بیگار کیمپ کی مرکزیت کے گرد بنایا گیا۔ کہانی کے آغاز میں شبنم اور محمد علی کا کمسن بیٹا اغواء کرلیا جاتا ہے، جسے بیگار کیمپ میں پہنچا دیا جاتا ہے۔
یہ کمسن بچہ وہاں سے فرار کی بارہا کوشش کرتا ہے، لیکن کام یاب نہیں ہوتا۔ یوں برسوں گزر جاتے ہیں اور یہ بچہ جوان ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف ماں، باپ بچے کے فراق میں ہر لمحہ تڑپتے اور اسے یاد کرتے رہتے ہیں۔ اس بیگار کیمپ کا نگراں سلطان راہی (بزوکا) ہے جو نہایت سفاک اور سخت گیر ہے اور بیگار کیمپ میں کام کرنے والے قیدیوں پر بہیمانہ تشدد کرتا ہے، لیکن مکافات عمل دیکھیے کہ ایک روز اسی کا کمسن بچہ بھی اغواء کرلیا جاتا ہے اور بوری میں لپیٹ کر اسے بیگار کیمپ پہنچایا جاتا ہے۔ بوری میں دم گھٹنے سے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے اور جب سلطان راہی یہ سب کچھ دیکھتا ہے، تو صدمے اور نفرت سے مغلوب ہوکر وہ اس بیگار کیمپ کے محافظوں اور پہریداروں پر قہر بن کر ٹوٹتا ہے اور اس کی خوف ناک گن ہر طرف بارود برساتے ہوئے پورے کیمپ کو خاکستر کردیتی ہے۔
اس افراتفری سے فائدہ اٹھا کر بیگار کیمپ کے بہت سے قیدی فرار ہوجاتے ہیں۔ برسرپیکار سلطان راہی اس کیمپ کے سرغنہ اور مالک طارق شاہ کو بھی کیفرکردار تک پہنچاتا ہے، جب کہ شبنم اور محمد علی کا بچھڑا ہوا بیٹا بھی اپنے ماں، باپ سے مل جاتا ہے۔ ’’بارود‘‘ رائے فاروق کی بطور ڈائریکٹر دوسری فلم تھی، لیکن ان کی کارکردگی خاصی متاثرکن رہی ، بالخصوص موضوع کا چنائو، لوکیشنز کا انتخاب، کردار نگاری اور کیمرہ ورک پر ان کی خاص توجہ اور محنت نظر آئی۔ کمال احمد کی مرتب کردہ دھنیں بہت میٹھی اور پراثر تھیں۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود ’’بارود‘‘ محض ایوریج کام یابی حاصل کرسکی۔
ہماری ذکر کردہ فلمیں ’’وحشی‘‘ اور ’’بارود‘‘ میں جہاں بچوں کے اغواء کو موضوع بنایا گیا، وہیں اس مذموم کاروبار سے وابستہ کرداروں کو مکافات عمل سے گزرتے ہوئے بھی دکھایا گیا تاکہ پیغام عبرت بھی لوگوں تک پہنچے۔ لیجنڈری فن کار جاوید شیخ نے ڈائریکشن میں طبع آزمائی کی ٹھانی تو کہانی کے لیے ایک مشکل سبجیکٹ بچوں کا اغواء اور بیگار کیمپ کا چنائو کیا، جسے ’’مشکل‘‘ کا نام دے کر نہایت معیاری اور متاثرکن فلم تخلیق کی۔ کہانی کے مطابق جب نیلی اور جاوید شیخ کا بیٹا چائلڈ اسٹار شہروز سبزواری اغواء کرکے شہر سے دور غاروں میں قائم بیگار کیمپ میں منتقل کردیا جاتا ہے، تو یہ دونوں دیوانہ وار اس کی تلاش میں بھوکے، پیاسے مارے مارے پھرتے ہیں۔
بچے کی بازیابی کے ضمن میں وہ قانون کا دروازہ بھی کھٹکھٹاتے ہیں، لیکن پولیس بھی سنجیدگی سے ان کی مدد نہیں کرتی۔ بیگار کیمپ کا مالک آصف خان اغواء شدہ بچوں کو مڈل ایسٹ میں فروخت کرکے پیسہ بناتا ہے۔ بچوں کی ایک کھیپ کے ساتھ شہروز کو بھی مشرق وسطیٰ بھیجا جارہا ہوتا ہے کہ قانون حرکت میں آجاتا ہے اور یوں بچھڑے ہوئے اغواء شدہ بچے اپنے والدین سے آملتے ہیں اور جرم کا یہ کاروبار اور جرم کرنے والے اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔ ’’مشکل‘‘ جس قدر بلند معیار کی مثالی فلم تھی، اس قدر بڑی کام یابی سے ہمکنار نہ ہوسکی۔
تاہم فلم نے ایوریج کام یابی ضرور حاصل کی، جب کہ جاوید شیخ کو اس فلم سے باکس آفس پر مطلوبہ نتائج نہ مل سکے، لہٰذا بعدازاں ان کی ڈائریکشن میں بننے والی کچھ فلموں ’’چیف صاحب‘‘ اور ’’یہ دل آپ کا ہوا‘‘ نے باکس آفس پر تہلکہ ضرور مچایا، مگر سبجیکٹ کے اعتبار سے ’’مشکل‘‘ کے بعد جاویدشیخ نے کبھی کوئی قابل ذکر فلم نہیں بنائی۔