• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر:انعام الحق نامی۔۔۔برمنگھم


13 جولائی 1931 سے برہان وانی شہید تک اور برہان وانی شہید سے بشیر احمد شہید تک کشمیریوں کے جذبہ حریت و شہادت کے سامنے ہندوستان کی آٹھ لاکھ فوج بے بس نظر آتی ہے لیکن ان لاکھوں قربانیوں، کروڑوں کے کشمیر فنڈ کی بندر بانٹ اور مغربی دنیا میں کشمیریوں و پاکستانیوں سے بھرے شہروں اور درجنوں قائدین کشمیر و شیران کشمیر ہونے کے باوجود ہم دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول کرانے میں ناکام ہیں۔ امریکہ میں جس دن افریقن نژاد جارج فلائیڈ کو چوری کے جرم میں ہلاک کیا گیا، اسی دن کشمیر میں 13 نوجوانوں کو بے گناہ شہید کیا گیاتھا۔ جارج فلائیڈ کے ہم نسلوں نے امریکہ سے یورپ و آسٹریلیا تک ہر ریاست کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ برطانوی حکومت کو چرچل کا مجسمہ بچانے کے لالے پڑ گئے اور امریکہ میں کئی مجسموں کی حفاظت میں حکومت بے بس نظر آئی اور کچھ کی حفاظت کیلئے پہرے بٹھانے پڑے۔ انگلش ڈکشنری میں سے لفظ ’’بلیک لسٹ‘‘ ختم کرنے کی باتیں ہونے لگیں ، ٹویٹر نے دو سافٹ


ویئر انجینئرز کی مہم پر لفظ ’’بلیک لسٹ‘‘ کو ’’بلاک لسٹ‘‘ میں بدل دیا اور دنیا کے سب سے بڑے بینک جے پی مورگن نے بھی ایسا ہی کرنے کا اعلان کیا۔ اسی ’بلیک لائف میٹر‘ کی مہم پر رواں ہفتے سکریبل ایسوسی ایشن آف امریکہ اپنی ڈکشنری سے 226الفاظ حذف کرنے کا فیصلہ کرنے والی ہے۔ دوسری طرف کشمیر میں ان 13 شہداـکے بعد بھی پچاس سے زیادہ نوجوانوں کو شہید کیا جا چکا ہے اور ہم سوشل میڈیا پر اگر لفظ ’شہید‘ لکھ کر اپنے شہدا کو خراجِ تحسین پیش کریں تو ہمارے اکاؤنٹس بند کر دیئے جاتے ہیں۔ آخر دنیا کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے اس سلوک پر خاموش کیوں ہے؟ کیونکہ ہم حق بھی بھیک کے انداز میں مانگ رہے ہیں۔ جو بھارت کے پنجہِ استبداد میں ہیں وہ بے بس ہیں لیکن پھر بھی خاموش نہیں جب کہ نام نہاد بیس کیمپ والوں کی تو ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔ جارج فلائیڈ کے ہم نسلوں نے اس کے درد میں آسمان سر پر اٹھایا تو دنیا کو اپنے محاورے و استعارے تبدیل کرنے پڑےلیکن ہمیں ’بیس کیمپ‘ میں کشمیر فنڈ کو مسئلہ کشمیر کی بجائے رشتہ داروں اور تعلق داروں میں بانٹنے اور کھانے میں ذرہ برابر شرم نہیں آتی۔ اگر ہم خود ایسے کردار کے مالک ہوں گے تو دنیا کو کیا پڑی ہے وہ ہمارے لئے اٹھ دوڑے؟ جہاں ماتم ہو اور گھر والے آپس میں ریوڑیاں بانٹ رہے ہوں وہاں کوئی دوسرا ہمدردی کی بھیک کیوں دے گا۔ ابھی گذشتہ ہفتے جانوروں کے حقوق کی ایک این جی او کی مہم کے نتیجے میں برطانیہ کی بڑی سپر مارکیٹس نے تھائی لینڈ سے آنے والے کوکونٹ اور ان کے تیل کو اپنے شیلفوں سے اس لیے ہٹا دیا کہ وہاں کوکونٹ کو درختوں سے اتارنے کیلئے بندروں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے وہاں بندروں کو غلاموں کی طرح بند کر کے رکھا جاتا ہے جو سراسر ظلم ہے۔ دوسری طرف ایک سال سے 80 لاکھ انسان اپنے گھروں میں اس سے زیادہ ظلم و جبر کے ساتھ بند ہیں اور ہم بار بار انھیں دروازوں پرعرضیاں ہاتھوں میں لئے کھڑے نظر آتے ہیں جن کی انسانیت جاگتی نظر نہیں آتی۔ کیا اس سے پہلے بھی کسی کو کسی اور نے آزادی لے کر دی ہے؟ وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے کہ بیس کیمپ میں فنڈز ہضم کرنے کیلئے کئے جانے والے فوٹو سیشنز اور کانفرنسوں کے ساتھ ساتھ گراؤنڈ زیرو پر ہونے والی جدوجہد کی عملی امداد کیلئے حکمتِ عملی ترتیب دی جائے اور آخری کشمیری کے مرنے کا انتظار کرنے کی بجائے سری نگر سے لے کر بین الاقوامی سطح تک تحریک کو منظم و مربوط کیا جائے۔

تازہ ترین