• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

استاد، اتالیق، مدرس، معلم، رہبر ،ایک وقت تھا جب یہ سارے خوبصورت الفاظ سنتے ہی نوجوانوں کی نظریں عقیدت سے جھک جایا کرتی تھیں۔ شاید اب بھی جھک جاتی ہیں… کیونکہ استاد تو علم، روشنی اور شعور کا استعارہ ہوتا ہے۔اساتذہ کی عزت، احترام، تعظیم اور مقام ایساہے کہ زندگی میں کہیں بھی جیسے ہی کسی استاد کا ذکر ہو یا خیال آجائے تو دل احسان مندی اور شکرگزاری کے جذبے سے لبریز ہوجاتا ہے… ماں باپ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ قابل عزت و احترام ہستی’’ استاد‘‘ ہی کی ہوتی ہے۔

والدین، اساتذہ اور طالبہ ایک مضبوط تکون کے تین خط ہیں،مگر اس مثلث کی اگر ایک بھی لکیر غیر متوازی ہوجائے تو تکون کا تناسب بگڑ جاتا ہے۔

ہمارے گھروں میں بچپن سے ہی استاد کے لیے ہر بچے کے دل میں اتنی محبت اور عزت پیدا کی جاتی ہے کہ بچوں کی بڑی تعداد بڑے ہو کر ٹیچر بننا پسند کرتی ہے۔

گئے وقتوں میں والدین بچوں کو اساتذہ کے حوالے کرکے مطمئن ہوجاتے تھے کہ وہ اب محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ انہیں یقین کامل ہوتا تھا کہ یہ صاحب بصیرت انسان اپنی سوچ کی وسعت کو خیال اور ہنر کی صورت دے کر آئندہ نسلوںکے لیےروشنی کا سامان پیدا کرے گا… مگر شاید یہ پہلے وقتوں کی باتیں تھیں،اب تو صورت حال دیکھ کر زبان گنگ ہوجاتی ہے…دماغ سوچنے سے انکار کردیتا ہے ۔ 

دل یقین کرنے سے گھبرانے لگتا ہے، جب ہم اسکول کالج، یونیورسٹی اور مدارس میں اساتذہ کے ہاتھوں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ہراساں کئے جانے کے واقعات سنتے ہیں۔ کیا ہم دیمک زدہ معاشرے میں سانس لے رہے ہیں… کیا ہم اخلاقی گراوٹ کے نچلےدرجے پر پہنچ چکے ہیں…! نوجوان تعلیمی اداروں میں علم، روشنی اور شعور حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں، مگر یہ کیسی شرم ناک خبریں ہیں جو ننگی سچائی کی طرح ہمارے سامنے آکھڑی ہوئی ہیں… تعلیمی اداروں میں اساتذہ بچوں کو ہراساں کررہے ہیں۔

چہروں سے آب و تاب حیا کون لے گیا؟

لاہور کے ایک پرائیویٹ اسکول کے چار اساتذہ بچیوںکو ہراساں کرنے میں ملوث پائے گئے… بچیوں نے ہمت کرکے جب اسکول انتظامیہ سے ٹیچر کی شکایت کی کہ وہ انہیں ہراساں کررہے ہیں، موبائل پر میسجز اور قابل اعتراض تصاویر بھیج رہے ہیں تو انتظامیہ نے معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے اسے دبانےکی کوشش کی… لیکن آخرکار لاہور گرامر اسکول کا ہراسمنٹ اسکینڈل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے علم میں آگیا۔ یہ صرف ایک شہر کا مسئلہ نہیں۔ چند ماہ پہلے سندھ یونیورسٹی کی طالبہ سمعہ شاہ نے بھی شکایت کی تھی کہ اس کے ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر اسے ہراساں کررہے ہیں،لیکن کیا ہوا؟ پے در پے واقعات سننے میں آتے رہے۔ 

لیاقت یونیورسٹی جامشورو کی سائرہ گل نے اس وجہ سےخودکشی کی ناکام کوشش کی کہ فیکلٹی کے کچھ اساتذہ اسے ہراساں کررہے تھے اور آخر کار انہوں نے اسے امتحان میں فیل کردیا۔ یہ تو چند واقعات ہیں جن میں متاثرہ لڑکیوں نے ہمت کا مظاہرہ کیا… نجانے کتنے نوجوان بچے اور بچیاں ہراسمنٹ کی شکایت بھی نہیں کرسکتے… ان کی آہیں، ان کے آنسو، ان کی چیخیں اور ان کے خوف ان کے اپنے وجود کے اندر ہی گھٹ کر رہ جاتے ہیں… کیونکہ کچھ گھریلو ماحول اور معاشرتی اقدار کی وجہ سے ان میں ہمت نہیں ہوتی، دوسرے وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ شاید لوگ ان کا یقین نہ کریںیا پھر انہیں ہی الزام نہ دے دیں۔ 

دوسری جانب غریب گھرانوں کی بچیاں جو سرکاری اسکولوں یا کالجوںکی طالبات ہیں ، وہ اس خوف سے بھی گھر والوں سے اس طرح کے معاملات یا باتیں چھپاتی ہیں کہ کہیں ان کی تعلیم کا سلسلہ ہی ختم نہ کردیا جائے۔

جہالت کی بہت سی تعریفیں ہیں مگر میرے نزدیک جہالت وہ بحران ہے جس میں علم ظلم کی مزاحمت سے انکار کردے۔

ہمارے ملک میں علم کا دعویٰ کرنے والوں کو جاننا چاہئے کہ علم بلند بام درس گاہوں کی اسناد، نئے فیشن کے لباس اور کھانے پینے کے انداز سے تعلق نہیں رکھتا۔ تعلیم اور علم مختلف اجزا کو ایسی ترتیب میں رکھنے کا ہنر ہے جس سے زمین پر ظلم کے خلاف قابل عمل حکمت عملی طے کی جاسکے… ایسی انسان سازی اور کردار سازی کی جائے کہ پر اعتماد، پر وقار، باہمت اور باشعور نوجوان تیار ہوسکیں… ایسے نوجوان ہی ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت ہیں… سوچیں، غور کریں، سرراہ طالب علموں کے لباس پر سیاہی سے لکھنے کی کوشش کون کررہا ہے اور کیوں کررہا ہے؟ انسان کو علم کی روشنی اور مضبوط کردار دونوں کی ضرورت ہے، چاہے وہ طالب علم ہو یا استاد… لیکن اس روشنی کے حصول کے لیے تاریکی کی چادر اوڑھ لینا ہر گز عقل مندی نہیں۔… ارباب اختیار کو اس مسئلے پر فوری توجہ دینا ہوگی۔

انائیں چھوڑ کے اب مسئلے کا حل ڈھونڈو

میرے بزرگو! تمہارا جوان خطرے میں ہے

خبر ہے کہ لاہور کے اسکینڈل کے لیےتحقیقاتی کمیٹی بنادی گئی ہے،مگر کیا واقعی کوئی تحقیق ہوگی…؟ کسی کو سزا ہوگی…!

اس کیس میں تو موبائل کے میسجز اور تصاویر ثبوت کے لیے موجود ہیں… مگر اس طرح کے جرائم میں کبھی ثبوت نہیں بھی ہوتےاور ہو بھی نہیں سکتے،کیوں کہ کئی صورتوںمیں جملہ، لہجہ اور تاثرات یا اشارے بھی ہراساں کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں… اس لئے اس قسم کے معاملات میں بہت سنجیدہ اور گہرائی کے ساتھ تحقیقات کی ضرورت ہوتی ہے اور جرم ثابت ہونے پر سزا بھی ہونی چاہئے تاکہ آئندہ دوسروں کی حوصلہ شکنی ہو، مگر عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر والدین ایسے معاملات کو بدنامی کے ڈر یا معاشرے میں عزت پر سوال اٹھنے کے خوف سے بات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔.

اس طرح کے اسکینڈلز پر متعلقہ اداروں کو بہت باریک بینی سے معاملے کی سچائی کو بھی پرکھنا ہوگا، کیونکہ قریباً آٹھ، دس ماہ پہلے محمدن اینگلو اورنٹیل کالج (ایم اے او کالج) کے ایک لیکچرار نے کالج کی طالبہ کی جانب سے ہراساں کئے جانے کی شکایت کے بعد اس وجہ سے خودکشی کرلی کہ ان کی عزت اور ساکھ کو نقصان پہنچا،حالانکہ انکوائری بورڈ نے تحقیقات کرکے لیکچرارکو زبانی طور پر الزام سے بری کردیا تھا اور یہ ثابت ہوگیا تھا کہ طالبہ نے جھوٹا الزام لگایا ہے،مگر لیکچرار نے انکوائری بورڈ سے اپنی بے گناہی کا تحریری ثبوت مانگا جو نہ ملنے پر اور ان کی کردار کشی ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی ختم کرلی۔

اعتماد اور ساکھ تو اسمائے صفت ہیں۔ بھروسہ چاہے استاد کا طالب علم پر ہو یا طالب علم کا استاد پر کامیابی سے آگے بڑھنے کے لیے پہلا قدم ہوتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ نوجوان اس مسئلے کو سمجھیں سوچیں اور متحد ہو کر اس کے حل کے لیےکوشش کریں۔کیونکہ نوجوان تعلیمی اداروں میں علم کی روشنی اور تعلیم تربیت کے حصول کے لیے جاتے ہیں… انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا میں اب وہی ہاتھ کارآمد ہوں گے جن کے کندھوں پر غور و فکرکرنے والا ،سمجھ بوجھ رکھنے والا دماغ ہوگا اور یقیناً ایسا دماغ خوف و ہراس کی فضا میں نمو نہیں پاسکتا… نوجوان نسل کو محبت، خلوص، ہمدردی اور محفوظ ماحول کی ضرورت ہے تاکہ وہ ذہنی، جسمانی، جذباتی، سماجی اور روحانی طور پر مضبوط ہوسکیں… ارباب اختیار کو اس طرف دھیان دینا ہوگا کہیں ایسا نہ ہو ۔

یہ کہہ کے ہمیں چھوڑ گئی روشنی ایک رات

تم اپنے چراغوںکی حفاظت نہیں کرتے

جس طرح طلوع صبح سے قبل ایک بار اندھیرا کچھ زیادہ گہرا ہوجاتا ہے تاکہ روشنی کو اپنا اظہار کرنے اور اندھیرے کو مات دینے کی بھرپور کوشش کرنا پڑے ،بالکل اسی طرح نوجوانوں کو بھی ایک کوشش کرنا پڑے گی… کیونکہ رنگوں کے جگنو اور روشنی کی تتلیاں انہیں آواز دے رہی ہیں… اس طرح کے مسائل سے نمٹنے کے لیے نوجوانوں اور اساتذہ کو اپنی حدود کا تعین کرنا پڑے گا، خصوصاً لڑکیوں کو بہت محتاط رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ ہم نہیں کہتے کہ مخلوط تعلیمی اداے نہ ہوں کیونکہ یہ ایک الگ بحث ہے بس اپنے اپے شخصی دائروں سے تجاوز نہ کریں تو بہتری کی امید پیدا ہوتی ہے۔ 

یہ صرف میرے ملک کا مسئلہ نہیں، پاکستان سمیت دنیا بھر میں عورتوں اور بچیوں کو ہراساں کئے جانے کے واقعات دن بہ دن بڑھ رہےہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسا طریقہ کار اپنایا جائے جس سے ہراسانی جیسے واقعات سے خصوصاً تعلیمی اداروں میں محفوظ رہا جاسکے۔مثلا، پہلے محتاط رہیں… اپنی حدود کا تعین کریں… کبھی اس سے تجاوز نہ کریں… ہر ایک پر بھروسہ نہ کریں… گفگتو میں بھی محتاط رہیں چاہے دوستوں سے ہی کیوں نہ ہو… کبھی کبھی دوستیں بھی ہراسانی کے کیسز میں ملوث ہوتی ہیں۔

فضول گفتگو، بے ہودہ لطیفوں، اچھالے گئے جملوں یا کمنٹس پر خاموشی اختیار کریں اور ناپسندیدگی کا اظہار کریں۔

٭عزت دو اور عزت کماؤ کے اصول پر کاربند رہیں۔

٭ زیرو ٹالرنس Zero Tollerance کا مظاہرہ کریں۔

٭ نظر رکھو، روک دو کے اصول پر چلیں۔

٭موبائل پر میسجز اور تصاویر کو نظرانداز کریں، جواب نہ دیں۔

٭اساتذہ یا انتظامیہ سے کوئی کام ہو تو اکیلے نہ جائیں، یا کوئی ٹیچر بلائے تو گروپ کی شکل میں جائیں۔

٭پروقار اور صحت مند رویہ اختیار کریں۔

٭کسی بھی دوست، ٹیچر یا کسی بھی شخص کے لیےخود کو کچھ بھی کرنے کا پابند نہ کریں اور نہ ہی کسی بھی شخص کے نامناسب فعل کو خاموشی سے برداشت کریں۔

٭نہیں کہنا سیکھئے… کہ میں یہ نہیں کرنا چاہتا/چاہتی… یا پھر آپ کی یہ بات مجھے پسند نہیں، آئندہ محتا رہیں جیسے جملوں سے شٹ اپ کال ضرور دیں اور فوری دیں۔

٭کسی سے لفٹ نہ لیں اور نہ ہی کسی کے ساتھ اکیلے چہل قدمی کریں۔

٭صرف والدین کو دوست بنائیں اور ان سے ہر بات شیئر کریں۔

٭آپ جس بھی ارادے میں ہوں بس اپنے مقصد کی تکمیل، یا اس کے حصول کو اپنا ایمان بنالیں… دیکھیں اللہ پاک کیسے علم، تخلیق اور رزق کے دروازے آپ کے لئے کھول دے گا۔

تازہ ترین