زندگی کے جھمیلوں ، معاشی پریشانیوں سے تنگ آئے ہوئے انسان بھی سکون کے متلاشی ہوتے ہیں لیکن انہیں نشہ آور اشیاء کے ذریعے موت کی نیند سلایا جارہا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں سےگھبرا کر راہ فرار اختیار کرنے والے سکون کے متلاشی ہمیشہ زندگی کے مسائل اور مشکلات کے سامنے سینہ سپر ہونے کے بجائے نشہ کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد جان کی پرواہ کئے بغیر ایسا زہر استعمال کرتے ہیں جو انہیں موت کی وادی میں دھکیلنے کا سبب بن جاتا ہے۔ایسا ہی نواب شاہ کی تحصیل قاضی احمد کے انٹر محلہ کا منظر ہے جہاںچند روز قبل اسپرٹ پی کر ہلاک ہونے والے تین نوجوانوں کے جنازے اٹھنے سے ان کے گھروں میں کہرام برپا تھا۔ پولیس کے مطابق فوت ہونے والوں میں غلام شبیر ملاح ،ایوب منگنہار اور لکھمیر عرف لکھو سیال شامل تھے ۔
اس سلسلے میں جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے غلام شبیر ملاح کے بیٹے بشیر ملاح کا کہنا تھا کہ اسپرٹ پینے سے ان کے والد کی موت واقع ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تینوں فوت ہونے والوں نے جو کہ اکثر دیسی شراب (ٹھرا )جوکہ قاضی احمد میں باآسانی دستیاب ہے ، اس کا نشہ کرتے تھے تاہم گزشتہ روز انہوں نے اسپرٹ کا استعمال کیا جس سے فوت شدہ تینوں کی حالت بگڑ گئی اور وہ بے ہوش ہوگئے۔ بشیر ملاح کا کہنا تھا کہ بابا اس سے قبل بھی چرس اور دیسی شراب استعمال کرتے اور اکثر نشہ کے باعث گھنٹوں بے سدھ پڑے رہتے تھے۔ اس لئے اسپرٹ پینے کے بعد جب وہ گھر آکر بے ہوش پڑے رہے تو ہم نے اس کو معمول سمجھا اور اسپتال بھی نہیں لے گئے اور اس طرح بابا سمیت تینوں دوست فوت ہوگئے۔
یہ بات حیران کن ہے کہ اسپرٹ جس کی فروخت کا باقاعدہ لائسنس ہوتا ہے اور اس لائسنس کی سالانہ تجدید کی جاتی ہے۔ اس کے ڈیلر کے پاس اسی طرح ریکارڈ رکھا جاتا ہے جس طرح اسلحہ ڈیلر ہتھیار فروخت کرنے کا رکھتے ہیں۔ یہ سوال اہم ہے کہ اسپرٹ کس طرح ان کے ہاتھ فروخت کی گئی جنہوں نے اس زہر کو پی کر اپنی زندگی کا چراغ گل کرلیا۔ انہوںنے اپنے خاندانوں کو جن میں بیوائیں اور معصوم بچے جو کہ پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے تھے دو وقت کی روٹی کے حصول کے لئے مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے تنہا چھوڑ گئے۔
اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور چیئرمین ٹاؤن کمیٹی جام آفتاب علی انڑنے تینوں مرحومین کے گھر جاکر ورثاء سے تعزیت کی ۔اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ممنوعہ نشہ آور اشیاء کی فروخت روکنے کی ذمہ داری انتظامیہ کی ہے اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ممنوعہ چیز جس کی فروخت کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے کس طرح ان کو فروخت کی گئی۔ چئرمین جام آفتاب انڑ کا کہنا تھا کہ افسوسناک بات یہ کہ معاشرے میں احساس ذمہ داری نہ ہونے کے باعث چند ٹکوںکے حصول کے لئے لوگ کس طرح زہر فروخت کرکے انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ٹاؤن کمیٹی کے فورم سے منشیات کی فروخت رکوانے کے لئے صدا بلند کریں گے انہوں نے کہا کہ قاضی احمد شہر میں دیسی شراب (ٹھرا)کی تیاری اور فروخت کے سلسلے میں انہوں نے پہلے بھی احتجاج کیا اور اب بھی کریں گے۔
دوسری جانب پیپ لز پارٹی کی خاتون ہنما نرگس ٹانوری نے اسپرٹ پی کر ہلاک ہونے والوں کے گھروں پر جاکر ورثاء سے تعزیت کی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ قاضی احمد میں تین افراد کی اسپرٹ کے استعمال سے ہلاکت انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کی جانب سے منشیات فروشوں کے خلاف آئے روز کارروائی کے دعوؤں کے باوجود کھلے عام نشہ آور اشیاء کی فروخت اور اس سے قیمتی انسانی جانوں کےضیاع کی روک تھام نہ ہونا بھی لمحہ فکریہ ہے۔ نشے کی لت نہ صرف نشہ کرنے والوں کی زندگیاں ختم ہوتی ہیں بلکہ نشہ کرنے والے کے اہل خانہ بھی اس کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں ۔
قاضی احمد کے گاؤں میں نشے کے عادی شخص نے اپنی پچیس سالہ بیوی صوبیا جتوئی کو کھانا دیر سے دینے پر کلہاڑیوں کے وار کرکے قتل کردیا اور فرار ہوگیا جبکہ ملزم کی عدم گرفتاری پر مقتولہ کے رشتہ دار وں کے علاوہ سیول سوسائیٹی بھی سراپا احتجاج ہے۔ روزانہ قاضی احمد میں قاتل شوہر کی گرفتاری کے لئے جلوس نکالے جارہے ہیں لیکن ورثاء کے مطابق پولیس ملزم کی گرفتاری سے قاصر ہے جبکہ دوسری جانب دلچسپ صورت حال یہ ہے کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن نے کاروبار زندگی کا پہیہ جام کر دیا ہے لیکن زہر کے سوداگروں کا کاروبار جاری ہے۔ گزشتہ دنوں ایک کار پر چھاپے کے دوران بڑی مقدار میں اعلی قسم کی شراب جو کہ لاک ڈاؤن کے دوران ہوم ڈلیوری کے ذریعہ گھر گھر پہنچائی جارہی تھی، کار سے برآمد کی گئی ۔
اس سلسلے میں ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے جنگ کو بتایا کہ منشیات کی لعنت کےکی روک تھام کے پولیس کو ہدایات دی گئی ہیں۔ لئے انہوں نے کہا کہ منشیات فروشوں کے خلاف گھیرا تنگ کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ منشیات کے خلاف بھرپور کاروائی پر سابق آئی جی سید کلیم امام نے ضلع شہید بے نظیر آباد کے ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ اور ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کو ایک ایک لاکھ روپیہ نقد انعام اور سرٹیفکیٹ دئے تاہم منشیات فروشوں نے پھر اپنی سرگرمیاں شروع کردی ہیں اور اس کا اندازہ روزانہ کی بنیاد پر پولیس کرائم رپورٹ سے منشیات کی برآمدگی اور ملزمان کی گرفتاری سے لگایا جاسکتا ہے اس سلسلے میںسول سوسائٹی کا مطالبہ ہے موت کے سوداگروں کے علاوہ خود پولیس کے محکمہ میں موجودان کے پشت پناہی کرنے والوں کی بھی بیخ کنی ضروری ہے۔