• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس ملک میں آخر کیا ہو رہا ہے؟ وہ لوگ کہاں ہیں، جن کے بارے میں پیر پگارا شاہ مردان شاہ مرحوم اکثر کہتے تھے کہ سیاسی حکومتوں کی ہر حرکت پر وہ نظر رکھے ہوئے ہیں؟ وہ بہت قد آور شخصیت تھے۔ میری انکی بڑی نیاز مندی تھی۔ وہ اکثر پروفیسر غفور اور مجھے بلاتے تھے، پروفیسر غفور سے داخلی امور اور مجھ سے خارجی مسائل پر گفتگو کرتے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آج فوڈ سیکورٹی کے وفاقی وزیر خود حیران ہیں کہ 2ماہ پہلے خریدی گئی 60لاکھ ٹن گندم کہاں غائب ہو گئی۔ اب وفاقی حکومت گندم درآمد کرے گی۔ جس ملک کے فوڈ سیکورٹی کے وزیر کو پتا نہ ہو کہ گندم کہاں اور کیسے غائب ہوئی، فوڈ سیکورٹی کس طرح ہو گی۔ کچھ عرصہ پہلے آٹا اسکینڈل سامنے آیا تو وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ اس اسکینڈل میں ملوث مافیا کو نہیں چھوڑیں گے۔ اس مافیا کا تو کچھ نہیں ہوا۔ البتہ آٹے کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں اور اب جب وافر گندم پیدا کرنے والا ملک گندم درآمد کر رہا ہے تو آٹے کی قیمتیں مزید بڑھیں گی۔ چینی اسکینڈل سامنے آیا تو وزیراعظم نے تحقیقاتی کمیشن قائم کر دیا۔ کمیشن نے چینی (شوگر) مافیا کی نشاندہی کرکے اس کے خلاف کارروائی کی سفارشات بھی کیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس اسکینڈل کے بعد حکومت چینی کی پرانی قیمتوں پر فروخت کو یقینی بناتی لیکن اسکے برعکس ہوا۔ ادارہ شماریات حکومت پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق چینی کی قیمت میں مسلسل تیسرے ہفتے اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اب چینی کی قیمت 85روپے 32پیسے فی کلو ہو گئی ہے۔ جب قیمت 65سے 80روپے ہوئی تھی تو لوگوں نے بہت شور کیا تھا، وزیراعظم کو تحقیقاتی کمیشن بنانا پڑا۔ اب قیمت 85روپے فی کلو سے زیادہ ہے۔ یہ ہے ان لوگوں کے خلاف کارروائی، جنہیں وزیراعظم مافیا کہتے ہیں؟ اس ’’مافیا‘‘ کو اپنے خلاف کارروائی موخر کرانے کے لئے عدالت کا راستہ دکھا دیا گیا ہے اور چینی کی قیمت پر حکومت کا کنٹرول نہیں رہا؟ حکومت نے سوا دو سال میں جان بچانے والی دواؤں کی قیمتوں میں کم از کم پانچ مرتبہ اضافہ کیا ہے، ایک بار پھر دواؤں کی قیمتوں میں مزید د س فیصد تک اضافے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ سب سے بڑا اضافہ اپریل 2019میں کیا گیا تھا، جب 45000دواؤں کی قیمتیں 15فیصد بڑھا دی گئی تھیں جبکہ 463اہم ترین دواؤں کی قیمتوں میں 200فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔ یہ گزشتہ 40سال میں سب سے بڑا اضافہ تھا اور یہ تحریک انصاف کی حکومت کا پہلا بڑا اسکینڈل تھا، جسے ڈرگ اسکینڈل کا نام دیا گیا۔ قدر مہنگی ہو گئی ہیں کہ لوگوں کو وزیراعظم کی اس بات کا حقیقی ادراک ہو گیا ہے کہ سکون صرف قبر میں ملتا ہے۔ اس کالم میں حکومت کے ان اقدامات، فیصلوں اور ’’پالیسیوں‘‘ کا احاطہ کرنا ممکن نہیں، جن کی وجہ سے پاکستان کے عوام بدترین مہنگائی، غربت اور بےروزگاری کا شکار ہو گئے ہیں۔ مہنگائی پہلے برسوں یا مہینوں کے بعد ہوتی تھی، اب روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔ آئے روز کچھ نہ کچھ ایسا ہو رہا ہوتا ہے کہ لوگوں کو پچھلی باتیں یاد ہی نہیں رہتیں۔ تازہ وقوع یہ ہیں کہ دواؤں کی قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کراچی کے صارفین کو 2روپے 80پیسے فی یونٹ مزید بجلی مہنگی ملے گی۔ ٹی وی فیس 35روپے سے بڑھا کر 100روپے کر دی گئی ہے، جو بجلی کے بلوں میں لگ کر آئے گی۔ یعنی بجلی مزید مہنگی ہو گئی ہے۔ ملک کی اکثریتی آبادی کا جینا دشوار ہو گیا ہے۔ سماج اور سیاست کے تانے بانے بکھر رہے ہیں۔ عوام کو ریلیف دینے، غربت کے خاتمے، مہنگائی میں کمی، روزگار میں اضافے اور خوشحال معاشرے کے قیام کے وعدوں پر تحریک انصاف نے مینڈیٹ حاصل کیا تھا۔ اس حوالے سے وہ خود فیصلہ کریں کہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کہاں پہنچ گئے ہیں۔ 

ملک میں قانون کی بالادستی، میرٹ کے نظام کا نفاذ، نچلی سطح تک جمہوریت اور اختیارات کی تقسیم اور دیگر کئی وعدے اور تھے، ’’وہ امید کیا، جس کی ہو انتہا۔ وہ وعدہ نہیں جو وفا ہو گیا‘‘۔ لوگوں پر زندگی دشوار ہو گئی ہے اور ان کے پاس ایسی صورت حال سے نکلنے کا کوئی سیاسی راستہ نہیں ہے۔ وہ صرف ایک بار پھر بڑی تبدیلی کی قیاس آرائیاں کرکے اپنا کتھارسس کر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ حالانکہ وزیراعظم کو پتا ہونا چاہئے کہ وہ آپشن نہیں بلکہ منتخب وزیراعظم ہیں۔ انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ کس کا آپشن ہیں۔ بہر حال اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ وہ کچھ حلقوں کا واحد آپشن ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں کوئی آپشن نہیں ہے اور یہی ایک بڑے بحران کے موجود ہونے کی دلیل ہے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ اس بحران میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔ اس مرحلے پر پیر پگارا سید شاہ مردان شاہ مرحوم بہت یاد آ رہے ہیں۔ وہ بتا دیتے کہ کیا ہونے والا ہے۔ وہ بہت قد آور اور بلند پایہ شخصیت تھے اور مناسب الفاظ میں اس طرح پیش گوئیاں کر دیتے تھے کہ ’’کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے‘‘۔ کیونکہ وہ نظر رکھنے والوں پر نظر رکھتے تھے کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں۔ ہم تو صرف دعا کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین