• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زرداری کے ٹرائل کے خلاف نئی درخواست دائر

اسلام آباد کی احتساب عدالت میں سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے پارک لین ریفرنس میں ٹرائل کے خلاف نئی درخواست دائر کر دی گئی۔

آصف زرداری کے خلاف پارک لین ریفرنس پر احتساب عدالت اسلام آباد کے جج اعظم خان نے سماعت کی۔

دورانِ سماعت فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں درخواست جمع کرا دی جس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ پہلے اس قانونی نکتے پر فیصلہ کیا جائے کہ یہ ریفرنس عدالتی دائرہ اختیار میں آتا ہے یا نہیں۔

نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے نئی درخواست پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اسی نوعیت کی ایک درخواست تو پہلے سے دائر ہے، نئی درخواست تاخیری حربہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلی درخواست میں جو باتیں کی گئیں، دوسری درخواست میں بھی وہی بیان کی گئیں، ان کو رات کو خواب آ جاتا ہے کہ صبح نئی درخواست دائر کرنی ہے۔

نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواست بھاری جرمانے کے ساتھ مسترد کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ فردِ جرم عائد کرنے کے فیصلے کے بعد ریفرنس خارج کرنے کی درخواست دائر نہیں ہو سکتی، کراچی میں فردِ جرم عائد کرنے کے لیے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے تھے۔


سردار مظفرعباسی نے کہا کہ ریفرنس خارج کرنے کا اختیار ہائی کورٹ کے پاس ہے، احتساب عدالت کے پاس نہیں، آصف زرداری کی نئی نئی درخواستوں کا مقصد تاخیری حربے اپنانا ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے اس موقع پر کہا کہ سردار مظفر عباسی کو خواب والے ریمارکس پر معافی مانگنی پڑے گی۔

جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے کہا کہ میں معافی نہیں مانگوں گا۔

اس موقع پر سجاد اکبر عباسی نے کہا کہ سینئر کونسل کے ساتھ ایسے بات نہیں کر سکتے۔

سردار مظفر عباسی نے سجاد اکبر عباسی کو جواب دیا کہ آپ بات نہ کریں اس ریفرنس میں آپ کونسل ہی نہیں، آپ کو حق نہیں کہ آپ بات کریں۔

آصف زرداری کے وکلاء اور نیب پراسیکیوٹرز کے درمیان شدید گرما گرمی ہونے پر احتساب عدالت کے جج اعظم خان نے اظہارِ برہمی کیا اور وکلاء کو تنبیہ کی۔

احتساب عدالت کے جج اعظم خان نے کہا کہ آپ کیوں شور کر رہے ہیں؟ چیخ کیوں رہے ہیں؟ میں کسی کو اپنی عدالت میں چیخنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کو سیاسی اکھاڑا مت بنائیں، یہاں کسی کو سیاست نہیں کرنے دوں گا۔

یہ بھی پڑھیئے:۔

زرداری کیخلاف پارک لین ریفرنس، سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالت میں پیش

انہوں نے یہ بھی کہا کہ فاروق نائیک صاحب آپ نے آج دلائل مکمل کرنے کا وعدہ کیا تھا، آپ اپنی پہلی درخواست پر دلائل دیں میں عدالتی دائرہ اختیار پر اس کے ساتھ ہی فیصلہ کروں گا۔

فاروق ایچ نائیک نے عدالتی دائرہ کار کا تعین کرنے سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے کیس کے میرٹ میں جانے سے پہلے دائرہ کار کا تعین کرنے کا کہا ہے، عدالت کو دیکھنا ہے کہ کیس میں نیب قانون لاگو ہوگا یا فنانشل ریکوری ایکٹ۔

انہوں نے کہا کہ نیب قانون لاگو ہو تو عدالت کا دائرہ کار بنتا ہے، ریکوری ایکٹ ہو تو دائرہ کار نہیں بنتا، عدالت سمجھتی ہے کہ نیب آرڈیننس لگتا ہے تو کارروائی کو جاری رکھا جا سکتا ہے۔

آصف زرداری کے وکیل نے کہا کہ تمام قوانین کے مطابق پارک لین کیس بینکنگ کورٹ کا دائرہ اختیار ہے، انتہائی ادب سے درخواست ہے کہ جج صاحب یہ آپ کا دائرہ اختیار نہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ فنانشل اداروں کے 2001ء والے آرڈیننس میں اس جرم کی سزا 3 سال بتائی گئی ہے، نیب آرڈیننس میں 14 سال سزا ہے، اس لیے یہ ٹرائل یہاں نہیں ہوسکتا، 3 سال سزا والے جرم پر 14 سال سزا والے قانون کے تحت ٹرائل چلانا درست نہیں۔

آصف زرداری کے خلاف پارک لین کیس کی سماعت کے دوران 15 منٹ کا وقفہ لیا گیا۔

اس موقع پر سردار مظفر عباسی اور فاروق ایچ نائیک نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر تلخ کلامی پر معذرت کر لی۔

نیب اور احتساب عدالت کے دائرہ کار سے متعلق فاروق نائیک کے دلائل مکمل ہوئے تو نیب پراسیکیوٹر مظفر عباسی نے کہا فاروق نائیک کے جواب میں 25 نکات پر دلائل دوں گا۔

نیب پراسیکیوٹر مظفر عباسی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ کیس پوری طرح کھل گیا ہے تو ہم بھی مکمل بات کریں گے، میں عدالت کو بتاوں گا کہ ہمارا کیس ڈیفالٹ کا ہے یا کرپشن کا،جتنےنکات فاروق نائیک نے پڑھے انہی سے بتاوں گا کیسے کیس ہمارا بنتا ہے۔

نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اس کیس میں 77 فیصد قرض نیشنل بینک کا کھایا گیا ہے، نیشنل بینک سرکاری ہے لہذا یہ قومی خزانے کو نقصان کا کیس ہی بنتا ہے، اس بات سے تو فاروق نائیک نے بھی دلائل میں انکار نہیں کیا کہ جرم ہوا ہے۔قرض کی رقوم فالودے والے کے اکاؤنٹس میں گئیں۔

 اس پر فاروق نائیک کا اعتراض آیا اور کہا کہ سردار صاحب صرف میڈیا کیلئے بات کررہے ہیں۔ 

نیب پراسیکیوٹر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میڈیا کیلئے بات نہیں کررہا، دستاویزات سے دکھاؤں گا، سپریم کورٹ میں تمام فریقین نے مقدمات نیب کو بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

سردار مظفر عباسی نے عدالت میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنادیا اور کہا کہ سپریم کورٹ نے جب مقدمات نیب کو بھیجنے کا کہا تو کسی نے نظرثانی کی اپیل نہیں کی۔

تازہ ترین